یمن پراسرائیل کےفضائی حملے: 35افراد جاں بحق،131 سے زائد زخمی
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
صنعا:اسرائیل نے یمن کے دارالحکومت صنعا اور الجوف گورنریٹ میں فضائی حملے کیے جس کے نتیجے میں کم از کم 35 افراد جاں بحق اور131 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حملے میں اسرائیل کے 10 طیاروں نے حصہ لیا اور 30 سے زائد بم اور میزائل داغے گئے۔
میڈیارپورٹ کے مطابق یمن میں قائم گروپ حوثی کی وزارت صحت کے ترجمان انیس السباہی نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں 35 شہری جاں بحق جبکہ 131 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں، یہ تعداد حتمی نہیں ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے صنعا میں مختلف مقامات کو نشانہ بنایا جن میں فوجی کیمپ، ایندھن کے ذخائر اور وزارت دفاع کی عمارت شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے آپریشن رنگنگ بیلز کے تحت کیے گئے اور ان میں حوثیوں کو ایک اور دردناک دھچکا دیا گیا ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کی پہنچ دور تک ہے اور شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔
یمن وزارت صحت نے بتایا کہ حملے دارالحکومت صنعاء اور صوبہ الجوف میں کیے گئے، ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ ریسکیو ٹیمیں اب بھی ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں، وزارت نے کہا کہ فضائی حملوں میں شہری اور رہائشی علاقے نشانہ بنے، جن میں صنعاء کے التحریر محلے کے مکانات، شہر کے جنوب مغرب میں 60 فٹ روڈ پر ایک طبی سہولت اور الجوف کے دارالحکومت الحزم میں ایک سرکاری عمارت شامل ہیں۔ شہری دفاع کی ٹیمیں بمباری سے لگنے والی آگ بجھانے اور زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے میں مصروف ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے صنعاء اور الجوف میں حوثی اہداف پر بمباری کی، جن میں فوجی کیمپ، ایندھن کا ڈپو اور ایک میڈیا آفس شامل تھا۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
جنگ بندی کے باوجود غزہ میں حملے، ٹرمپ کہاں ہے؟ مولانا فضل الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر اظہارِ تاسف کیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کروا چکے ہیں اور سوال کیا ہے کہ اب ٹرمپ کہاں ہے؟
مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ ٹرمپ یا اس کے کسی فارمولے کو قبول نہیں کرتے، بظاہر جنگ بندی کے باوجود غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری ہے اور اس کے نتیجے میں فلسطینی شہری شہید ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس المناک صورتحال کے پیشِ نظر فلسطین کی آزادی صرف ایک علاقائی معاملہ نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ عملی مؤقف اور واضح حکمتِ عملی کے بغیر بیانات اور وعدے بے معنی رہ جاتے ہیں، اس لیے بین الاقوامی برادری اور بااثر اقوام کو فوری اور سنجیدہ اقدام کرنا چاہیے تاکہ عام فلسطینیوں کو ریلیف اور تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔