بلوچستان میں آٹے کا بحران کیسے پیدا ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
بلوچستان سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں آٹے کی قیمتوں میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 40 فیصد سے زائد اضافہ ہو گیا ہے، جس کے باعث غریب اور متوسط طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
بازاروں میں 20 کلو آٹے کا تھیلا جو چند ہفتے قبل 1600 روپے میں دستیاب تھا، اب 2300 سے 2500 روپے تک فروخت ہو رہا ہے، جبکہ 100 کلو بوری کی قیمت 7500 سے بڑھ کر 11,500 روپے تک جا پہنچی ہے۔ اس اضافے کے بعد فی کلو آٹے کی قیمت میں 35 سے 40 روپے کا فرق آیا ہے۔
مزید پڑھیں: آٹے کا بحران ، روٹی اور نان کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں
وی نیوز سے گفتگو میں کوئٹہ کے رہائشی اسامہ یوسفزئی نے کہا کہ گزشتہ ماہ آٹا 1600 سے 1700 روپے میں باآسانی مل رہا تھا مگر اب اس کی قیمت 2300 سے 2500 روپے تک جا پہنچی ہے۔
کئی علاقوں میں آٹا نایاب ہے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔بعض فلور ملز اور دکانوں پر آٹا دستیاب ہی نہیں، جس کی وجہ سے صارفین کو بلیک مارکیٹ سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھیں:کیا سیلاب کے بعد کھانے پینے کی اشیا کی قلت کا خدشہ بڑھ گیا ہے؟
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین بدرالدین خان نے بحران کی ذمہ داری پنجاب حکومت کی پالیسیوں پر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے گندم اور آٹے کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی، جس کے نتیجے میں طلب و رسد کا توازن بگڑ گیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سالانہ ایک کروڑ گندم کی بوریاں پیدا کرتا ہے، جبکہ صوبے کی ضرورت ایک کروڑ 80 لاکھ بوریاں ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بلوچستان کو پنجاب پر انحصار کرنا پڑتا ہے، لیکن پنجاب کی جانب سے سپلائی محدود ہونے کے باعث صوبے میں آٹے کا بحران پیدا ہوا۔
مزید پڑھیں:غزہ دنیا کا ’سب سے بھوکا علاقہ‘ قرار، اقوام متحدہ کا انتباہ
بدردین نے کہا کہ پاکستان میں گندم کی پیداواری لاگت بڑھنے کے باوجود کسان کو مناسب قیمت نہیں دی جا رہی۔ اس وجہ سے کسان اگلے سیزن میں گندم کی کاشت کم کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے، جس سے بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق فی من گندم کی قیمت 3400 سے 3500 روپے مقرر کرنے سے ہی کسان کو فائدہ ہوگا اور ملک میں فوڈ سیکیورٹی یقینی بنائی جا سکے گی۔
مزید پڑھیں: گندم اور آٹے کی قیمت میں اچانک بڑا اضافہ، وجہ کیا ہے؟
دوسری جانب تندور ایسوسی ایشن نے بھی خبردار کیا ہے کہ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد روٹی اور نان کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ نانبائیوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے آٹے کی قیمتوں کو کنٹرول نہ کیا تو عوام کو روٹی مزید مہنگی خریدنی پڑے گی۔
عوامی حلقوں نے سوال اٹھایا ہے کہ صوبائی حکومت آٹے کے بحران پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کیوں نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بروقت گندم کے ذخائر جاری نہ کیے گئے اور پنجاب حکومت سے بات نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آٹے کا بحران بلوچستان پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن تندور ایسوسی ایشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آٹے کا بحران بلوچستان پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن تندور ایسوسی ایشن
پڑھیں:
گورنر پنجاب کی کسانوں سے ملاقات، سیلاب سے متاثرہ فصلوں اور مالی مشکلات پر تبادلہ خیال
سٹی42: گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے پنجاب کسان بورڈ کے دفتر کا دورہ کیا جہاں چیئرمین کسان بورڈ پنجاب میاں محمد اجمل نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ گورنر پنجاب نے کسانوں کے وفد سے ملاقات کی اور ان کے مسائل پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پر گورنر پنجاب نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں کسانوں کو گندم کی پوری قیمت ادا کی گئی تھی۔ موجودہ سیلابی صورتحال نے کسانوں کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کے باعث وہ مالی مشکلات کا شکار ہیں، لہٰذا حکومت کو کسانوں کا ساتھ دینا چاہئے۔
لاہور :ڈمپر نے موٹر سائیکل کو کچل دیا، 3 افراد جاں بحق
سردار سلیم حیدر خان کا کہنا تھا کہ کسان اپنا خون پسینہ بہا کر ہمیں گندم مہیا کرتے ہیں، اس لیے اُن کی فلاح اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ زراعت میں جدید مشینری کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے، تاکہ پیداوار میں اضافہ اور نقصانات میں کمی لائی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح ملک میں معاشی استحکام لانا ہے اور کسان اس ہدف کے حصول میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
کسان وفد نے ملاقات میں مطالبہ کیا کہ حکومت گندم اور آٹے کی ترسیل پر پابندی ختم کرے تاکہ منڈیوں میں رسائی آسان ہو۔ کسانوں نے بتایا کہ سیلابی ریلوں میں ان کی جمع پونجی، مال مویشی اور گندم بہہ گئی ہے جبکہ دور دراز کے علاقوں کے کسان شہروں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔
موٹرسائیکل فلائی اوور سے نیچے گر گئی،سوارموقع پر جاں بحق
کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں گندم کی پوری قیمت ادا کی جائے تاکہ ان کی محنت ضائع نہ ہو۔