چارلی کرک کون تھے جن کے قتل پر امریکا میں 4 روزہ سوگ منایا جارہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
بدھ کی سہ پہر یوٹا ویلی یونیورسٹی کے سبزہ زار میں فائرنگ کی آواز گونجی، اور اس کے ساتھ ہی امریکی قدامت پسندی کا ایک نمایاں چہرہ، چارلی کرک، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔ محض 31 برس کی عمر میں وہ ایک شوہر، 2 بچوں کے والد، اور لاکھوں نوجوانوں کے لیے تحریک کا ذریعہ تھے۔
ایک نوجوان کارکن سے قومی سطح تکچارلی کرک نے کم عمری ہی میں سیاست اور نظریاتی مباحث کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا تھا۔ صرف 18 برس کی عمر میں انہوں نے ’ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جس کا نعرہ امریکا کو ایک بار پھر عظیم ملک بنانا ہے، یہ تنظیم دیکھتے ہی دیکھتے امریکا کی یونیورسٹیوں میں قدامت پسند نظریات کی سب سے مؤثر آواز بن گئی۔
یہ بھی پڑھیے قدامت پسند نوجوان رہنما چارلی کرک ہلاک، امریکا میں 4 روزہ سرکاری سوگ کا اعلان
ان کا خواب یہ تھا کہ کلاس رومز اور کیمپسز میں قدامت پسندوں کو وہ پلیٹ فارم دیا جائے جو طویل عرصے تک ان کے خیال میں لبرل نظریات کے زیرِ اثر رہا۔
سیاسی مشن کی وسعت2019 میں، کرک نے ایک اور قدم آگے بڑھایا اور ٹرننگ پوائنٹ ایکشن (TPA) کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم نہ صرف قدامت پسند امیدواروں کی حمایت کرتی تھی بلکہ بڑے پیمانے پر جلسے، ریلیاں اور مہمات بھی منظم کرتی تھی، جن میں اکثر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود شریک ہوتے تھے۔ کرک کو تیزی سے ٹرمپ کی ’میک امریکا گریٹ اگین (MAGA)‘ تحریک کا جوان چہرہ قرار دیا جانے لگا۔
یہ بھی پڑھیے کیا صدر ٹرمپ امریکا کو مارشل لا کی طرف لے جا رہے ہیں؟
ٹرمپ کے قریبی ساتھیکرک نے ٹرمپ کے ہر بڑے بیانیے کو بھرپور انداز میں آگے بڑھایا۔ انہوں نے 2020 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے دعووں کی پرزور حمایت کی اور 2024 کی کامیاب انتخابی مہم میں نوجوانوں اور اقلیتی ووٹرز کو متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ٹرمپ نے کئی بار عوامی سطح پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ چارلی نے نئی نسل کو قدامت پسندی سے جوڑنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
چارلی کرک صرف جلسوں اور ریلیوں ہی میں تقریریں نہیں کرتے تھے، وہ ایک ڈیجیٹل انفلوئنسر بھی تھے۔ ان کا پوڈکاسٹ ہر ماہ 5 لاکھ سے زائد سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، جب کہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ان کے 53 لاکھ فالوورز تھے۔ یہی اثر و رسوخ انہیں امریکا کے قدامت پسند میڈیا کے بڑے چہروں میں شمار کیا جاتا تھا۔
زندگی کا چراغ اچانک گُل ہوگیاان سب کامیابیوں اور شہرت کے باوجود، بدھ کے روز اوڑم کی ایک دھوپ بھری دوپہر میں، وہ ایک اجنبی حملہ آور کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ گردن پر ہاتھ رکھے وہ زمین پر گر پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی زندگی کا چراغ بجھ گیا۔
چارلی کرک ایک عام شخص نہیں تھے، بلکہ امریکی سیاست میں بڑھتی ہوئی تقسیم اور تشدد کی ایک اور علامت ہے۔ اپنے چاہنے والوں کے لیے وہ ایک ہیرو تھے، ناقدین کے لیے ایک سخت گیر مخالف آواز، لیکن یہ طے ہے کہ محض ایک دہائی کے اندر انہوں نے امریکا کی قدامت پسند دنیا میں ایک ناقابلِ فراموش مقام حاصل کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی قدامت پسند نوجوان رہنما چارلی کرک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی قدامت پسند نوجوان رہنما چارلی کرک چارلی کرک کے لیے وہ ایک
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کے حامی چارلی کرک کو قتل کرنے سے پہلے مبینہ ملزم نے ایک پیغام بجھوایا.ڈائریکٹرایف بی آئی
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )ایف بی آئی ڈائریکٹر کاش پٹیل نے بتایاہے کہ امریکی ریاست یوٹامیں مارے جانے والے نسل پرست راہنما اور صدر ٹرمپ کے حامی چارلی کرک کو قتل کرنے سے پہلے مبینہ ملزم ٹیلر رابنسن نے انہیں ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا تھا جس میں کرک کو قتل کرنے کا منصوبے سے متعلق بتایا تھا نسل پرستی پر مبنی بیانات اورسوشل میڈیا پرآن لائن پروگرام کے ذریعے متنازع شہرت پانے والے چارلی کرک کو یوٹا ویلی یونیورسٹی میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا.(جاری ہے)
امریکی نشریاتی ادارے ”فاکس نیوز“ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کاش پٹیل نے کہا کہ تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ ٹیلر رابنسن نے ایک تحریری نوٹ بھی لکھا تھا تحریری نوٹ میں کہا گیا تھا کہ اسے چارلی کرک کو ختم کرنے کا موقع ملا ہے اور وہ ایسا کرے گا جب کہ وہ تحریری نوٹ ضائع کردیا گیا تاہم تفتیش کاروں نے اس سے متعلق شواہد جمع کر لیے ہیں اور انٹرویوز کے ذریعے اس کے مندرجات کی تصدیق بھی ہو چکی ہے پٹیل نے یہ نہیں بتایا کہ ٹیکسٹ میسج کس کو بھیجا گیا تھا یا یہ کہ کسی نے فائرنگ سے پہلے تحریری نوٹ دیکھا تھا یا نہیں. قانون نافذ کرنے والے حکام نے کہا ہے کہ ان کا ماننا ہے ٹیلر رابنسن نے اکیلے ہی کرک کو گولی ماری تاہم یہ بھی تفتیش کی جا رہی ہے کہ آیا کسی اور نے منصوبہ بندی میں کردار ادا کیا تھا یا نہیں واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ میں بتایا کہ ٹیلر رابنسن نے آن لائن پلیٹ فارم ڈسکارڈ پر اپنے دوستوں کو پیغام بھیجا جس میں بظاہر جرم کا اعتراف تھا اور یہ پیغام ان کی گرفتاری سے کچھ دیر پہلے بھیجا گیا تھا جریدے کے مطابق ٹیلر رابنسن کے اکاﺅنٹ سے بھیجے گئے پیغام میں لکھا ”کل یوٹا ویلی یونیورسٹی کے اندر میں ہی تھا اور اس سب کے لیے معذرت چاہتا ہوں“ دو افراد نے اس پیغام کو پڑھنے کے بعد اس کے اسکرین شاٹس محفوظ کرلیے. خیال رہے کہ یاد رہے کہ 11 ستمبر کو امریکی صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور نسل پسند نوجوانوں کی تنظیم’ ’ٹرننگ پوائنٹ یو ایس اے“ کے سی ای او اور شریک بانی 31 سالہ چارلی کرک یوٹاہ ویلی یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے تھے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں چارلی کرک کی ہلاکت کا اعلان کیاتھا ٹرمپ نے ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ عظیم بلکہ حقیقی معنوں میں ایک لیجنڈری، چارلی کرک وفات پا گئے ہیں. قتل کے الزام میں گرفتار22 سالہ سفید فام نوجوان ٹیلر رابنسن پر باضابطہ فرد جرم آج عائد کیے جانے کا امکان ہے جس کے لیے وہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوں گے ایف بی آئی ڈائریکٹر نے ”فاکس نیوز“ کو بتایا کہ ملزم کا ڈی این اے اس تولیے پر ملا ہے جس میں رائفل لپیٹی گئی تھی جس سے چارلی کرک کو نشانہ بنایا گیا تھا علاوہ ازیں چھت پر پائے گئے اسکریو ڈرائیور پر موجود انگلیوں کے نشانات سے بھی ڈی این اے کی تصدیق ہوئی جو شوٹر کے اسنائپر پوائنٹ کے طور پر استعمال ہوئی تھی.