اسرائیل نے قطری دارالحکومت دوحہ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پانچ حماس اراکین اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد قطر، واشنگٹن اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے احتجاج کیا گیا ہے، کیونکہ انھیں تشویش ہے کہ یہ حملہ غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
خلیجی ریاست، جو مصر کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات میں طویل عرصے سے ثالثی کرتی رہی ہے، نے اس حملے کو بزدلانہ اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کہتے ہیں کہ حملے کا مقصد حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا تھا جو 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملوں کے ذمے دار تھے۔
اسرائیلی حملے کو امریکا نے یکطرفہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کو آگے نہیں بڑھاتا ہے۔قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ فضائی حملوں سے امن مذاکرات کو پٹری سے اتارے جانے کا خطرہ ہے۔
اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں جنگ بندی کی جانب پیش رفت اور اس کا حصول اب مزید بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہو گیا ہے۔ قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا کا سیکیورٹی پارٹنر ہے ۔ قطر نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت میں مصر کے ساتھ ثالث کے طور پر کام کیا ہے۔اس بلاجواز حملے کے بعد اسرائیل کی جارحیت ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔
قطر میں موجود حماس کے رہنماؤں کو مذاکرات کے موقع پر بزدلانہ حملے میں شہید کر دینا اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ اسرائیل اب کسی بھی ریاست کی خودمختاری، بین الاقوامی قوانین اور سفارتی روایات کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔ یہ محض ایک حملہ نہیں بلکہ عالمی ضابطوں اور انسانی اقدار پر کاری ضرب ہے۔
اسرائیل نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں نشانہ بنائے گا، اور اسی پالیسی کے تحت ایران میں اسمعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا تھا، لبنان میں حزب اﷲ کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، اب قطر میں ایک اور بزدلانہ کارروائی انجام دی گئی اور ترکیہ کے لیے بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ حماس کا آخری ٹھکانہ ترکیہ اگلا نشانہ ہو سکتا ہے۔ترکیہ حماس رہنماؤں کو فوری ملک بدر کرے ۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ترکیہ کی نیٹو رکنیت اسے اسرائیلی حملے سے تحفظ فراہم نہیں کرے گی۔ حماس کے رہنما قطر کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے تھے، لیکن اسرائیلی فضائی حملوں نے اس خیال کو غلط ثابت کیا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب اسرائیل اکیلا کر رہا ہے یا اس کے پیچھے عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکا کی سرپرستی کارفرما ہے؟
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکا ہمیشہ سے اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے۔ اسرائیل کی سیاسی، عسکری اور معاشی پشت پناہی کرنے والا بھی امریکا ہی ہے، جس نے ہر عالمی فورم پر اسرائیل کو بچانے کی کوشش کی۔ مگر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل کی منصوبہ بندیوں میں امریکا کے مفادات کا بھی خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔
قطر میں ہونے والے مذاکرات کا مقصد بظاہر مسئلے کا حل نکالنا تھا، لیکن جب مذاکرات کے لیے آنے والے رہنما ہی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گئے تو دنیا کو یہ سوچنا پڑے گا کہ کہیں یہ سب پہلے سے طے شدہ منصوبہ تو نہیں؟ امریکا اگر واقعی امن چاہتا تو اس حملے کی مذمت کرتا اور اسرائیل پر دباؤ ڈالتا، لیکن خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی ساز بھی گومگو کا شکار ہیں ۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو یکسر بدلنے کی بات کی تھی۔ انھوں نے غزہ کے حوالے سے جو کچھ کہا، اس کی حمایت مغربی یورپ کے ممالک نے بھی نہیں کی ، البتہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی یا یوں کہیے کہ ’’ڈاکٹرائن‘‘ نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی۔
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنا، فلسطینیوں کے خلاف یکطرفہ فیصلے مسلط کرنا اور ابراہام معاہدوں کے ذریعے اسرائیل کو خطے کے کئی ممالک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش اسی منصوبے کا حصہ تھا۔ اس کے بعد غزہ میںفلسطینی عوام کے لیے زمین تنگ کر دی گئی۔ ان کے جائز حقوق کو روند ڈالا گیا اور انھیں مذاکرات کے نام پر بارہا دھوکا دیا گیا، آج بھی یہی پالیسی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر فلسطینی رہنماؤں کو ویزے نہ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا عالمی اداروں کو بھی اسرائیل کے مفادات کے تابع کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔
غزہ کی موجودہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ یہ خطہ عملاً ایک کھلا جیل خانہ بن چکا ہے، جہاں لاکھوں انسان قید ہیں۔ اسرائیلی بمباری نے ہر گلی، ہر محلے اور ہر عمارت کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اسپتال تباہ ہو چکے ہیں، تعلیمی ادارے زمین بوس ہو چکے ہیں، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں ختم کر دی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی رپورٹیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔ بچے بھوک سے مر رہے ہیں، مائیں اپنے جگر گوشوں کے لیے پانی اور دوائی کو ترس رہی ہیں، لیکن دنیا کے طاقتور ممالک اس منظر کو محض خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا غزہ میں رہنے والے انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ کیا ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں؟ یہ رویہ عالمی ضمیر کے لیے ایک بدترین امتحان ہے۔
وہی مغربی دنیا جس نے یوکرین کے معاملے پر پلک جھپکتے میں قراردادیں منظور کیں، اربوں ڈالر کی امداد دی اور روس پر پابندیاں لگائیں، وہی دنیا فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش ہے۔ یہ دہرا معیار نہ صرف شرمناک ہے بلکہ عالمی انصاف کے اصولوں پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر کسی مغربی ملک کے شہریوں پر ایسا ظلم ہوتا تو شاید پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوتی، لیکن چونکہ یہ مظلوم مسلمان فلسطینی ہیں، اس لیے ان کی چیخیں اور آہیں سننے والا کوئی نہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور ان کے سرپرست اور سہولت کار حق دفاع کی غلط تعبیر و تشریح کرکے غزہ میں ظلم کی انتہا کر رہے ہیں۔ وہ کسی بھی ریاست پر حملہ کرنے یا کسی بھی رہنما کو نشانہ بنانے سے نہیں گھبراتے۔ لیکن تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ ظلم کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔ طاقت کے بل پر بستیوں کو اجاڑنے والے آخرکار خود تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ اسرائیل کا موجودہ رویہ اس کے اپنے وجود کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ ظلم اس پر الٹا پڑے گا، لیکن تب تک شاید فلسطینیوں کی ایک پوری نسل مٹ چکی ہوگی۔
یہاں ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی اس پالیسی کے پیچھے صرف فلسطین کو فلسطینیوں سے خالی کرانا مقصد نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار کرنا بھی شامل ہے۔ اگر غزہ کی آبادی کو بزور طاقت بے دخل کیا جاتا ہے تو یہ بحران اردن، لبنان اور مصر تک پھیل جائے گا۔ لاکھوں مہاجرین خطے کے دوسرے ممالک پر بوجھ بنیں گے، جس سے نئے تنازعات جنم لیں گے۔ خطے میں پہلے ہی شام اور یمن کی جنگیں موجود ہیں، عراق میں عدم استحکام ہے اور اگر فلسطینیوں کو جبراً بے دخل کیا گیا تو مشرقِ وسطیٰ ایک مستقل جنگی میدان میں بدل جائے گا۔ یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔
یہ سوال بھی بار بار اٹھتا ہے کہ اقوام متحدہ کہاں ہے؟ وہ قراردادیں کہاں ہیں جو فلسطینیوں کے حق میں منظور کی گئی تھیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ عالمی ادارہ بتدریج اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ریاستوں کی خودمختاری کا احترام بنیادی اصول ہے، لیکن اسرائیل نے قطر میں جو کچھ کیا وہ اس اصول کی صریح خلاف ورزی ہے۔
فلسطینی عوام اس وقت جس قربانی سے گزر رہے ہیں، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ وہ اپنے بچوں، اپنے گھروں اور اپنے مستقبل کو قربان کر کے بھی اپنی زمین اور اپنے حقِ خودارادیت سے دستبردار نہیں ہو رہے۔ ان کا یہ حوصلہ اس بات کا اعلان ہے کہ فلسطین کی جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوگی۔
اقوام عالم کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اسرائیل کے مظالم اور امریکا کی بے جا پشت پناہی نے مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ یہ امتحان ہے، ریاست کے اقتدار اعلیٰ اور اس کی سلامتی کا۔کیا کسی آزاد اور خود مختار ملک پر حملہ کرنا جائز ہے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ رہنماؤں کو نہیں بلکہ کسی بھی حماس کے نے والے رہے ہیں ہیں کہ کے لیے دیا ہے رہا ہے اور ان کے بعد اور اس
پڑھیں:
جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
جن لوگوں کو فلسطینیوں سے اسرائیل کے بے رحمانہ سلوک پر حیرت ہے۔انھیں یہ سن کے شاید مزید حیرت ہو کہ اسرائیل گزشتہ اٹھاون برس میں چونتیس فوجیوں سمیت چالیس امریکی شہریوں کو ہلاک اور لگ بھگ دو سو کو زخمی اور درجنوں کو گرفتار کر کے ٹارچر کر چکا ہے۔مگر آج تک کسی امریکی انتظامیہ نے چوں تک نہیں کی اور ہر ہلاکت خیز واقعہ کے بارے میں اسرائیلی معذرت اور موقف کو من و عن تسلیم کر کے معاملات پر مٹی ڈال دی۔
گویا جہاں اسرائیل کی دل جوئی کا سوال ہو وہاں کسی بھی امریکی انتظامیہ کے لیے اپنے ہی شہریوں کی جانوں کی کوئی اوقات نہیں۔ہم مرحلہ وار ان وارداتوں کا جائزہ لیں گے تاکہ آپ کے ذہن میں اسرائیل امریکا ریاستی گٹھ جوڑ کے بارے میں اگر کوئی ابہام اب تک ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ مستقل بحیرہ روم میں تعینات رہتا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر اطالوی بندرگاہ نیپلز ہے۔ اس بیڑے کو یونان ، قبرص اور مالٹا سمیت علاقے کے ناٹو رکن ممالک کی بحری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔
انیس سو تریسٹھ میں جاسوسی آلات سے لیس ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی چھٹے بحری بیڑے میں شامل ہوا۔مئی انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل اور مصر کے مابین انتہائی کشیدگی کے سبب یو ایس ایس لبرٹی کو برقیاتی سن گن لینے کے لیے مصری بحری حدود میں تعیناتی کا حکم ملا۔پانچ جون کو اسرائیلی فضائیہ نے مصری اور شامی ایرفورس کو ایک اچانک شب خون میں زمین پر ہی تباہ کر کے بے دست و پا کر دیا۔
یو ایس ایس لبرٹی مصر کے جزیرہ نما سینا کے ساحل سے بیس کلومیٹر اور اسرائیلی بحری حدود سے گیارہ کلومیٹر پرے گشت پر تھا۔آٹھ جون کی صبح دو اسرائیلی میراج طیاروں نے یو ایس ایس لبرٹی کے اوپر دو نچلی نگراں پروازیں کیں۔موسم صاف تھا اور فضا سے جہاز پر لہراتا امریکی پرچم اور جہاز کے ڈھانچے پر لکھا نمبر ( جی ٹی آر فائیو ) صاف پڑھا جا سکتا تھا۔
دوپہر بارہ بجے چھٹے امریکی بیڑے کے کمانڈر ولیم میکگناگلے نے لبرٹی کو پیغام بجھوایا کہ وہ موجودہ پوزیشن سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر پیچھے ہٹ کے بین الاقوامی سمندری حدود میں آ جائے۔یہ پیغام بروقت جہاز تک نہ پہنچ سکا۔
تین بجے سہہ پہر دو اسرائیلی طیاروں نے جہاز کے کپتان سے مواصلاتی شناخت مانگے بغیر نیپام بم گرائے اور مشین گنوں سے فائرنگ کی۔جہاز میں آگ لگ گئی۔پچیس منٹ بعد تین اسرائیلی کشتیوں میں سے دو نے تارپیڈو فائر کیے۔ جہاز میں دو بڑے شگاف پڑ گئے اور وہ ڈوبنے لگا۔اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد بقول اسرائیلی فوجی ہائی کمان احساس ہوگیا کہ ہم جسے مصری جہاز سمجھے تھے وہ دراصل امریکی تھا۔ چھٹے بیڑے کے کمانڈر نے چند سو ناٹیکل میل دور موجود دو طیارہ بردار جہازوں یو ایس ایس واشنگٹن اور ساراٹوگا سے چھ لڑاکا طیاروں اور بیڑے کے دو ڈیسٹرائرز ( تباہ کن جنگی جہاز ) کو یو ایس ایس لبرٹی کی مدد کے لیے روانہ کیا۔
مگر کچھ دیر بعد واشنگٹن سے وزیرِ دفاع رابرٹ میکنامارا کے کہنے پر امریکی طیاروں کو بیس پر واپسی کا حکم ملا کیونکہ تب تک میکنامارا کی ڈیسک پر اسرائیل کا ’’ معذرت نامہ ‘‘ پہنچ چکا تھا۔البتہ دو ڈیسٹرائرز نے موقع پر پہنچ کر تباہ حال یو ایس ایس لبرٹی کو کسی نہ کسی طور مالٹا کی بندرگاہ تک پہنچا دیا۔ قریب موجود سوویت بحریہ کے دو جہازوں نے بھی مدد کی۔
اس واردات میں یو ایس ایس لبرٹی پر موجود دو سو چورانوے کے عملے میں سے چونتیس جان سے گئے اور ایک سو اکہتر زخمی ہوئے۔امریکا بحریہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اللہ جانے اس انکوائری کا کیا ہوا۔
اسرائیلی حکومت کی اپنی اندرونی انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ نیول کمان کو حملے سے تین گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ یہ امریکی بحری جہاز ہے مگر یہ معلومات ’’ بروقت ‘‘ اس کمانڈر تک نہ پہنچائی جا سکیں جس نے غلط فہمی میں حملے کا حکم دیا۔
امریکی صدر جانسن لنڈن بی جانسن نے حملے کے چند دن بعد نیوزویک کو انٹرویو میں کہا کہ یہ جانا بوجھا حملہ تھا کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا تھا کہ ہم دورانِ جنگ حساس فوجی کمیونیکیشن سے مسلسل آگاہ رہیں۔البتہ چار برس بعد جانسن نے اپنی سوانح عمری میں یو ایس ایس لبرٹی کے بارے میں اسرائیلی تاویل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس دلخراش واقعہ کا اسرائیل کو بھی شدید صدمہ ہے ‘‘۔
جب لبرٹی پر حملہ ہوا تو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل مارشل کارٹر تھے۔انھوں نے اکیس برس بعد ( انیس سو اٹھاسی ) ایک انٹرویو میں زبان کھولی کہ یہ کوئی بے ساختہ یا اتفاقی نہیں بلکہ سوچی سمجھی غلطی تھی۔انیس سو ستانوے میں اس واقعہ کی بیسویں برسی کے موقع پر یو ایس ایس لبرٹی کے ریٹائرڈ کپتان ولیم میکگناگلے نے کہا کہ یہ نہ تو اتفاقی تھا اور نہ ہی حادثہ۔اس واقعہ کی بھرپور غیر جانبدار تحقیق اب بھی ہو سکتی ہے مگر نہیں ہو گی۔
سن دو ہزار میں اسرائیلی سیاستداں اور مورخ مائیکل اورین نے کہا کہ لبرٹی کی فائل بند ہو چکی ہے۔ مگر دو ہزار سات میں متعدد امریکی انٹیلی جینس اور عسکری اہلکاروں نے اخبار شکاگو ٹریبون کو بتایا کہ وہ خفیہ فائلیں پڑھنے کے بعد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو ابتدا سے علم تھا کہ لبرٹی امریکی جہاز ہے۔نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولیور کربی نے انٹرویو میں کہا کہ میں انجیل پر ہاتھ رکھ کے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں روزِ اول سے یقین تھا کہ انھیں ( اسرائیلیوں کو ) سب معلوم ہے۔
اگر یو ایس ایس لبرٹی سے ایک چوتھائی کم واردات بھی کوئی اور ملک کرتا تو امریکا شاید پوری طاقت سے چڑھ دوڑتا۔اور ایسا ہی ہوا۔
یو ایس ایس لبرٹی پر حملے سے صرف تین برس پہلے دو اگست انیس سو چونسٹھ کو ویتنام کی خلیج ٹونکن میں گشت کرنے والے ایک جاسوس جنگی جہاز یو ایس ایس میڈوکس پر شمالی ویتنام کی تین تارپیڈو کشتیوں نے حملے کی کوشش کی۔دو روز بعد میڈوکس کے کپتان نے پھر پیغام بھیجا کہ اسے متعدد کشتیوں نے گھیر لیا ہے۔اس پیغام کا واشنگٹن میں یہ مطلب لیا گیا کہ میڈوکس پر دو روز میں ایک اور حملہ ہو گیا ہے۔
چنانچہ مزید چھان بین کے بغیر جانسن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے بعجلت ایک قرار داد منظور کروا کے جنگ کا اختیار حاصل کر لیا۔ یوں اس گیارہ سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں تیس لاکھ ویتنامی اور پچاس ہزار امریکی جانیں گئیں۔حالانکہ خلیج ٹونکن کے واقعہ کی چند روز بعد تفصیلی تحقیق کے سبب یہ بات امریکیوں پر کھل چکی تھی کہ دو اگست کو جو ویتنامی حملہ ہوا اس میں یو ایس ایس میڈوکس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔جب کہ چار اگست کو میڈوکس کا ریڈار فنی خرابی کے سبب ایسے سگنلز دینے لگا جیسے چاروں طرف سے حملہ ہو گیا ہو مگر درحقیقت چار اگست کو کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔
جب خلیج ٹونکن کے واقعہ کو جنگ کا بہانہ بنایا گیا تب بھی رابرٹ میکنامارا امریکی وزیرِ دفاع تھے۔جب یو ایس ایس لبرٹی تباہ ہوا تب بھی وہی وزیرِ دفاع تھے۔ایک واقعہ جو ہوا ہی نہیں اس پر اعلانِ جنگ ہو گیا۔اور ایک واقعہ جس میں لگ بھگ تین درجن امریکی فوجی مارے گئے اسے غلطی کہہ کر درگذر کر دیا گیا۔
اس واقعہ پر امریکا کے معذرت خواہانہ رویے کے بعد اسرائیل کی ہر حکومت کو یقین ہوتا چلا گیا کہ وہ کچھ بھی کر گذرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔اس دیدہ دلیری کے آیندہ نتائج ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)