Express News:
2025-09-18@12:03:32 GMT

قطر پر اسرائیلی حملہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT

اسرائیل نے قطری دارالحکومت دوحہ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پانچ حماس اراکین اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد قطر، واشنگٹن اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے احتجاج کیا گیا ہے، کیونکہ انھیں تشویش ہے کہ یہ حملہ غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

خلیجی ریاست، جو مصر کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات میں طویل عرصے سے ثالثی کرتی رہی ہے، نے اس حملے کو بزدلانہ اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کہتے ہیں کہ حملے کا مقصد حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا تھا جو 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملوں کے ذمے دار تھے۔

اسرائیلی حملے کو امریکا نے یکطرفہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امریکی اور اسرائیلی مفادات کو آگے نہیں بڑھاتا ہے۔قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ فضائی حملوں سے امن مذاکرات کو پٹری سے اتارے جانے کا خطرہ ہے۔

 اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں جنگ بندی کی جانب پیش رفت اور اس کا حصول اب مزید بے یقینی کی صورتحال کا شکار ہو گیا ہے۔ قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے اور امریکا کا سیکیورٹی پارٹنر ہے ۔ قطر نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت میں مصر کے ساتھ ثالث کے طور پر کام کیا ہے۔اس بلاجواز حملے کے بعد اسرائیل کی جارحیت ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے۔

قطر میں موجود حماس کے رہنماؤں کو مذاکرات کے موقع پر بزدلانہ حملے میں شہید کر دینا اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ اسرائیل اب کسی بھی ریاست کی خودمختاری، بین الاقوامی قوانین اور سفارتی روایات کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔ یہ محض ایک حملہ نہیں بلکہ عالمی ضابطوں اور انسانی اقدار پر کاری ضرب ہے۔

اسرائیل نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں نشانہ بنائے گا، اور اسی پالیسی کے تحت ایران میں اسمعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا تھا، لبنان میں حزب اﷲ کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، اب قطر میں ایک اور بزدلانہ کارروائی انجام دی گئی اور ترکیہ کے لیے بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ حماس کا آخری ٹھکانہ ترکیہ اگلا نشانہ ہو سکتا ہے۔ترکیہ حماس رہنماؤں کو فوری ملک بدر کرے ۔

یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ترکیہ کی نیٹو رکنیت اسے اسرائیلی حملے سے تحفظ فراہم نہیں کرے گی۔ حماس کے رہنما قطر کو محفوظ پناہ گاہ سمجھتے تھے، لیکن اسرائیلی فضائی حملوں نے اس خیال کو غلط ثابت کیا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب اسرائیل اکیلا کر رہا ہے یا اس کے پیچھے عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکا کی سرپرستی کارفرما ہے؟

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکا ہمیشہ سے اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی رہا ہے۔ اسرائیل کی سیاسی، عسکری اور معاشی پشت پناہی کرنے والا بھی امریکا ہی ہے، جس نے ہر عالمی فورم پر اسرائیل کو بچانے کی کوشش کی۔ مگر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اسرائیل کی منصوبہ بندیوں میں امریکا کے مفادات کا بھی خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔

قطر میں ہونے والے مذاکرات کا مقصد بظاہر مسئلے کا حل نکالنا تھا، لیکن جب مذاکرات کے لیے آنے والے رہنما ہی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گئے تو دنیا کو یہ سوچنا پڑے گا کہ کہیں یہ سب پہلے سے طے شدہ منصوبہ تو نہیں؟ امریکا اگر واقعی امن چاہتا تو اس حملے کی مذمت کرتا اور اسرائیل پر دباؤ ڈالتا، لیکن خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی ساز بھی گومگو کا شکار ہیں ۔

 جب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو یکسر بدلنے کی بات کی تھی۔ انھوں نے غزہ کے حوالے سے جو کچھ کہا، اس کی حمایت مغربی یورپ کے ممالک نے بھی نہیں کی ، البتہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی یا یوں کہیے کہ ’’ڈاکٹرائن‘‘ نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنا، فلسطینیوں کے خلاف یکطرفہ فیصلے مسلط کرنا اور ابراہام معاہدوں کے ذریعے اسرائیل کو خطے کے کئی ممالک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش اسی منصوبے کا حصہ تھا۔ اس کے بعد غزہ میںفلسطینی عوام کے لیے زمین تنگ کر دی گئی۔ ان کے جائز حقوق کو روند ڈالا گیا اور انھیں مذاکرات کے نام پر بارہا دھوکا دیا گیا، آج بھی یہی پالیسی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر فلسطینی رہنماؤں کو ویزے نہ دینا اس امر کا ثبوت ہے کہ امریکا عالمی اداروں کو بھی اسرائیل کے مفادات کے تابع کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔

غزہ کی موجودہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں۔ یہ خطہ عملاً ایک کھلا جیل خانہ بن چکا ہے، جہاں لاکھوں انسان قید ہیں۔ اسرائیلی بمباری نے ہر گلی، ہر محلے اور ہر عمارت کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اسپتال تباہ ہو چکے ہیں، تعلیمی ادارے زمین بوس ہو چکے ہیں، بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں ختم کر دی گئی ہیں۔

اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی رپورٹیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔ بچے بھوک سے مر رہے ہیں، مائیں اپنے جگر گوشوں کے لیے پانی اور دوائی کو ترس رہی ہیں، لیکن دنیا کے طاقتور ممالک اس منظر کو محض خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا غزہ میں رہنے والے انسان نہیں ہیں؟ کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ کیا ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں؟ یہ رویہ عالمی ضمیر کے لیے ایک بدترین امتحان ہے۔

وہی مغربی دنیا جس نے یوکرین کے معاملے پر پلک جھپکتے میں قراردادیں منظور کیں، اربوں ڈالر کی امداد دی اور روس پر پابندیاں لگائیں، وہی دنیا فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش ہے۔ یہ دہرا معیار نہ صرف شرمناک ہے بلکہ عالمی انصاف کے اصولوں پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر کسی مغربی ملک کے شہریوں پر ایسا ظلم ہوتا تو شاید پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوتی، لیکن چونکہ یہ مظلوم مسلمان فلسطینی ہیں، اس لیے ان کی چیخیں اور آہیں سننے والا کوئی نہیں۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور ان کے سرپرست اور سہولت کار حق دفاع کی غلط تعبیر و تشریح کرکے غزہ میں ظلم کی انتہا کر رہے ہیں۔ وہ کسی بھی ریاست پر حملہ کرنے یا کسی بھی رہنما کو نشانہ بنانے سے نہیں گھبراتے۔ لیکن تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ ظلم کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔ طاقت کے بل پر بستیوں کو اجاڑنے والے آخرکار خود تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ اسرائیل کا موجودہ رویہ اس کے اپنے وجود کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ ظلم اس پر الٹا پڑے گا، لیکن تب تک شاید فلسطینیوں کی ایک پوری نسل مٹ چکی ہوگی۔

یہاں ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی اس پالیسی کے پیچھے صرف فلسطین کو فلسطینیوں سے خالی کرانا مقصد نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار کرنا بھی شامل ہے۔ اگر غزہ کی آبادی کو بزور طاقت بے دخل کیا جاتا ہے تو یہ بحران اردن، لبنان اور مصر تک پھیل جائے گا۔ لاکھوں مہاجرین خطے کے دوسرے ممالک پر بوجھ بنیں گے، جس سے نئے تنازعات جنم لیں گے۔ خطے میں پہلے ہی شام اور یمن کی جنگیں موجود ہیں، عراق میں عدم استحکام ہے اور اگر فلسطینیوں کو جبراً بے دخل کیا گیا تو مشرقِ وسطیٰ ایک مستقل جنگی میدان میں بدل جائے گا۔ یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔

یہ سوال بھی بار بار اٹھتا ہے کہ اقوام متحدہ کہاں ہے؟ وہ قراردادیں کہاں ہیں جو فلسطینیوں کے حق میں منظور کی گئی تھیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ عالمی ادارہ بتدریج اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ریاستوں کی خودمختاری کا احترام بنیادی اصول ہے، لیکن اسرائیل نے قطر میں جو کچھ کیا وہ اس اصول کی صریح خلاف ورزی ہے۔

فلسطینی عوام اس وقت جس قربانی سے گزر رہے ہیں، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ وہ اپنے بچوں، اپنے گھروں اور اپنے مستقبل کو قربان کر کے بھی اپنی زمین اور اپنے حقِ خودارادیت سے دستبردار نہیں ہو رہے۔ ان کا یہ حوصلہ اس بات کا اعلان ہے کہ فلسطین کی جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوگی۔

اقوام عالم کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اسرائیل کے مظالم اور امریکا کی بے جا پشت پناہی نے مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ یہ امتحان ہے، ریاست کے اقتدار اعلیٰ اور اس کی سلامتی کا۔کیا کسی آزاد اور خود مختار ملک پر حملہ کرنا جائز ہے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ رہنماؤں کو نہیں بلکہ کسی بھی حماس کے نے والے رہے ہیں ہیں کہ کے لیے دیا ہے رہا ہے اور ان کے بعد اور اس

پڑھیں:

اسرائیلی فضائیہ کا یمن کی بندرگاہ حدیدہ پر حملہ، بارہ بمباریوں کی تصدیق

اسرائیلی فضائیہ نے یمن کی اہم بندرگاہ حدیدہ پر شدید بمباری کی ہے، جس کے نتیجے میں علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ حوثی تحریک کے زیر انتظام ٹی وی چینل ”المسیرہ“ کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے 12 فضائی حملے حدیدہ کی بندرگاہ اور اس کے اطراف کیے گئے۔
عرب خبررساں ادارے خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب اسرائیلی فورسز نے مقامی رہائشیوں کو علاقے سے انخلا کی وارننگ جاری کی تھی۔
 پہلے صنعا، پھر الجوف، اب حدیدہ
یہ حملے صنعا اور الجوف پر اسرائیلی حملوں کے چند دن بعد سامنے آئے ہیں۔ یمن کے حوثی عسکری ترجمان یحییٰ سریع کے مطابق، یمنی فضائی دفاع اس وقت اسرائیلی طیاروں کی جارحیت کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ان کے بقول، دفاعی نظام حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 حوثیوں کا ردعمل اور پس منظر
حوثی گروپ، جو یمن کے بڑے حصے پر کنٹرول رکھتا ہے، نے حالیہ مہینوں میں بحیرہ احمر میں کئی بین الاقوامی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کو غزہ کے مظلوم فلسطینیوں سے یکجہتی کے طور پر پیش کیا گیا۔
یاد رہے کہ حوثی فورسز کی جانب سے اسرائیل کی طرف کئی بیلسٹک میزائل اور ڈرونز داغے گئے تھے، جنہیں اسرائیل نے راستے میں ہی تباہ کر دیا۔ اسرائیل نے ان حملوں کو اپنے خلاف “جارحیت” قرار دیتے ہوئے یمنی علاقوں میں جوابی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، جن میں اب حدیدہ بھی شامل ہو گیا ہے۔
حدیدہ: ایک اہم اسٹریٹیجک مقام
حدیدہ بندرگاہ بحیرہ احمر پر یمن کی سب سے اہم بندرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں سے ملک میں انسانی امداد، خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل کی جاتی ہے۔ اس بندرگاہ پر حملے نے نہ صرف یمن میں جاری بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے بلکہ علاقائی کشیدگی میں بھی اضافہ کیا ہے۔

Post Views: 8

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی فوج کی غزہ شہر میں زمینی کارروائیاں، مزید 90 فلسطینی شہید
  • قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسئلہ فلسطین کو دفن کرنے کی کوششں کی جا رہی ہے، مسعود خان
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا، خواجہ محمد آصف
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیرِ دفاع خواجہ آصف
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • اسرائیلی فضائیہ کا یمن کی بندرگاہ حدیدہ پر حملہ، بارہ بمباریوں کی تصدیق
  • اسرائیل کی خطے میں جارحیت تھم نہ سکی، یمن کی الحدیدہ بندرگاہ پر وحشیانہ فضائی حملہ
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ