حکومت نے انتہاپسندی اور نفرت انگیز تقاریر کے خاتمے کے لیے نیشنل پیغامِ امن کمیٹی قائم کردی
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
حکومت نے ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت، انتہا پسندی اور نفرت انگیز تقاریر کے تدارک کے لیے نیشنل پیغامِ امن کمیٹی قائم کردی ہے جس میں علما، غیر مسلم برادریوں کے رہنما اور سینئر حکام شامل ہوں گے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حکومت نے ملک میں انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر، دہشت گردی اور فرقہ واریت کے تدارک کے لیے علما، غیر مسلم برادریوں کے مذہبی رہنماؤں اور سینئر حکام پر مشتمل ایک خصوصی پینل قائم کر دیا ہے۔
وزارتِ اطلاعات نے نیشنل پیغامِ امن کمیٹی (این پی اے سی) قائم کی ہے، جو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف قومی مؤقف تیار کرے گی۔
نیشنل کمیٹی برائے نیریٹیو بلڈنگ (این سی این بی) کی ذیلی کمیٹی این پی اے سی کو امن، ہم آہنگی اور مذہبی اعتدال پسندی کو فروغ دینے کے لیے ایک متحدہ قومی بیانیہ وضع کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔
این سی این بی، جس کا نوٹی فکیشن اس ماہ کے آغاز میں جاری ہوا، 20 ارکان پر مشتمل ہے، جس میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے وزرائے اطلاعات سمیت وفاقی وزیر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ فوج، خفیہ ایجنسیوں، وزارتِ خارجہ، وزارتِ آئی ٹی اور پی ٹی اے کے چیئرمین کے نمائندے بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔
نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی کو میڈیا، ابلاغ اور سائبر نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے خلاف قومی بیانیہ تشکیل دینے، پھیلانے اور اس کا جائزہ لینے کے اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ نیشنل ایکشن پلان 2021 کے ترمیمی اقدامات پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
وزارتِ اطلاعات کے انٹرنل پبلسٹی وِنگ کے ڈائریکٹر جنرل این پی اے سی کے سیکریٹری ہوں گے جبکہ مولانا طاہر اشرفی کو کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے پہلے اجلاس میں اس کے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں گے جو بعد میں این سی این بی کو منظوری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ عارف واحدی نے کہا کہ اس کمیٹی کو پیغامِ پاکستان (2018) کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، پیغامِ پاکستان ایک نظریاتی قدم تھا جس کا مقصد مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا تھا، جب کہ اس کمیٹی کا ہدف اس سوچ پر عملی اقدامات کرنا اور معاشرے کو تقسیم کرنے والی قوتوں کو روکنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات پر صوبائی سطح پر بھی عمل درآمد کیا جائے گا۔
علامہ طاہر اشرفی نے ڈان کو بتایا کہ یہ اقدام حکومت کے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ امن قائم کرنے کے لیے جامع اور مؤثر حکمتِ عملی اپنانا چاہتی ہے۔
ان کے مطابق یہ اقدام قومی کوششوں کو یکجا کرنے اور ایک ہم آہنگ بیانیہ تیار کرنے کے لیے ہے جو مذہبی، فرقہ وارانہ اور نظریاتی انتہاپسندی کے مختلف پہلوؤں کا مقابلہ کرے گا۔
دوسری جانب ایک پارلیمانی کمیٹی نے تشویش ظاہر کی ہے کہ صوبے اب بھی الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت سائبر کرائم کے مقدمات درج کر رہے ہیں، حالانکہ حالیہ ترامیم کے بعد انہیں اس کا اختیار نہیں رہا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات نے پیکا پر عمل درآمد کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے غلط استعمال پر تشویش ظاہر کی۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس وقت 10 صحافیوں کے خلاف پیکا کے تحت مقدمات درج ہیں۔
اس کے علاوہ 611 مالیاتی فراڈ اور 320 ہراسانی کے کیسز زیرِ تفتیش ہیں۔
کمیٹی کے ارکان نے نشاندہی کی کہ حالیہ ترامیم کے بعد صوبوں کو پیکا 2025 کے تحت مقدمات درج کرنے کا اختیار نہیں رہا اور اب یہ تمام کیسز این سی سی آئی اے کو بھیجے جانے چاہئیں۔
حکام نے کہا کہ ترامیم کے بعد صوبائی سطح پر درج کیے گئے تمام مقدمات کالعدم ہیں، اس پر کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سید علی ظفر نے پوچھا کہ یہ تمام مقدمات غیر قانونی ہیں، اب ان کا کیا کیا جائے؟
اراکینِ پارلیمنٹ نے اس معاملے پر نظرِ ثانی کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا، جب کہ سینیٹر ظفر نے حکم دیا کہ صوبائی حکام کی جانب سے پیکا کے تحت درج 378 مقدمات غیر قانونی ہیں اور انہیں فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔
Post Views: 6.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انتہا پسندی کے لیے کے تحت
پڑھیں:
سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کردی
کراچی:سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور صوبے کے زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کے لیے جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے۔
وزیر زراعت سندھ سردار محمد بخش مہر کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ صوبے میں غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت سندھ نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے کسانوں کو تربیت دینے کیلئے کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر منصوبہ کے تحت سندھ واٹر اینڈ ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن (SWAT) پروگرام شروع کیا ہے۔
اس پروگرام کے تحت کسانوں کو جدید زرعی طریقے سکھائے جا رہے ہیں جن میں فصل کی پیداوار میں اضافہ، پودے کی اونچائی، شاخوں کی تعداد، کیڑوں کے خاتمے اور کم پانی میں کاشت جیسے عملی طریقے شامل ہیں۔
سردار محمد بخش مہر نے بتایا کہ یہ منصوبہ 5 سالہ ہے جو 2028 تک جاری رہے گا۔ اس دوران 180 فیلڈ اسکول قائم کیے جائیں گے اور 4500 کسانوں کو تربیت فراہم کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں رواں سال 750 کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں کی تربیت دی جا رہی ہے۔
محکمہ زراعت کی جانب سے ابتدائی طور پر سکھر، میرپور خاص اور بدین میں 30 ڈیمو پلاٹس اور فیلڈ اسکولز قائم کیے گئے ہیں۔ ان ڈیمو پلاٹس پر لیزر لینڈ لیولنگ، گندم کی قطاروں میں کاشت اور متوازن کھاد کے استعمال جیسے طریقوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔
وزیر زراعت کے مطابق بدین کے کھورواہ مائنر میں زیرو ٹلج تکنیک کے تحت دھان کے بعد زمین میں بچی ہوئی نمی پر گندم اگائی گئی، جس سے اخراجات، پانی اور محنت میں نمایاں بچت کے ساتھ ماحولیات کو بھی فائدہ ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تربیت مکمل ہونے کے بعد تمام کسانوں کو سبسڈی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زمینوں پر یہ جدید طریقے اپنائیں اور دوسروں کے لیے مثال قائم کریں۔
سردار محمد بخش مہر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے، جس کے باعث فصلیں متاثر ہو رہی ہیں اور کسان نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نے کسانوں کی تربیت کے ذریعے عملی اقدامات شروع کیے ہیں۔