Express News:
2025-11-03@23:29:12 GMT

ٹرمپ کا نوبیل انعام کھٹائی میں پڑ گیا؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

دُنیا کے انتہائی بلند سرد مقام اور برفزار’’الاسکا ‘‘ میں ہونے والی سربراہی ملاقات و کانفرنس نے امریکی صدر ، ڈونلد ٹرمپ، کے لیے امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے کی تمنا اور خواب ، بظاہر، کھٹائی میں ڈال دیے ہیں۔ یہ سربراہی ملاقات امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ اور رُوسی صدر پیوٹن کے درمیان 15 اگست 2025کو ہُوئی۔

دُنیا بھر کی نظریں اِس ملاقات اور اِس کے نتیجے پر مرتکز تھیں ۔ نکلا مگر کچھ بھی نہیں ۔ سارے خواب اور ساری توقعات بکھر کر رہ گئے ۔ رُوسی صدر ، پیوٹن صاحب ، شائد اتنی بلند توقعات لے کر’’ الاسکا‘‘ کے ملاقاتی مقامAnchorageنہیں پہنچے تھے جتنی بڑی توقعات لے کر ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں قدم رکھا تھا۔

اِس سربراہی ملاقات کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ آیا یوکرین جنگ بارے دُنیا کی دونوں طاقتور شخصیات میں کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے یا نہیں ۔ 15اگست 2025 کو دُنیا جہان کے میڈیا کی نگاہیں اِس ملاقات پر لگی تھیں ۔اور جب دونوں صدور کے درمیان ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی تو دونوں صدور کے پاس دُنیا کو بتانے والی کوئی خوشخبری نہیں تھی ۔ دونوں صدور کی مشترکہ پریس کانفرنس کا مجموعی لہجہ’’ الاسکا‘‘ کی طرح سرد اور منجمد تھا۔

الاسکا ، جو سرد فضاؤں اور وسیع برفزاروں کا مجموعہ ہے، آج توامریکی سرزمین کا حصہ ہے لیکن 160سال قبل یہ رُوس کی ملکیت تھا ۔ مشہور جنگِ کریمیا کے بعد رُوس اور زارِ رُوس جنگ کے بھاری اخراجات کے باعث مالی طور پر کنگال ہو چکے تھے ۔ اُدھر امریکہ میں خونریز خانہ جنگی ختم ہو چکی تھی ۔ امریکہ اب خود کو پھیلانا چاہتا تھا۔ رُوسی بادشاہ یا زارِ رُوس نے اپنے شاہی اخراجات پورے کرنے اور ملکی معیشت کو کچھ سہارا دینے کے لیے جب ’’الاسکا‘‘ فروخت کرنا چاہا تو امریکہ نے آگے بڑھ کر اِسے خریدنے کی ہامی بھر لی ۔

امریکی ماہرینِ ارضیات اور فوجی ماہرین بخوبی جانتے تھے کہ ’’الاسکا‘‘ کے برفزاروں کے نیچے قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں اور ’’الاسکا‘‘ اسٹریٹجی کے اعتبار سے بھی مستقبل میں بے حد اہمیت کا حامل ہوگا؛ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ(William Seward) کی قیادت میں امریکہ نے3Oمارچ 1867 کو ’’الاسکا‘‘72لاکھ ڈالرز میں خرید لیا ۔ رُوسی بادشاہ کی طرف سے امریکہ میں رُوسی سفیرEduard de Stoeckleنے خریداری ڈِیل پر دستخط کیے۔ اور یوں ’’الاسکا‘‘ کا 17لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد وسیع علاقہ امریکی ملکیت میں آگیا ۔

15اگست 2025 کو امریکی صدر نے جب الاسکا کے اینکریج ( Anchorage)کے مقام پر رُوسی صدر ، پیوٹن، کا سُرخ قالین بچھا کر گرمجوشی سے استقبال کیا تو یہ واقعی معنوں میں ایک تاریخی لمحہ تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کو بوجوہ ’’الاسکا‘‘ میں مدعو کیا تھا (کہ عالمی عدالت کی جانب سے بعض مقدمات میں پیوٹن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں)۔

یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ مقامِ ملاقات ’’اینکریج‘‘ امریکی دارالحکومت ، واشنگٹن، سے ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر اور رُوسی دارالحکومت ، ماسکو، سے ساڑھے سات ہزار کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے ۔ مگر اِس مہنگے تردد کا نتیجہ کیا نکلا ؟ صفر! بعد از ملاقات فریقین کی جو مشترکہ پریس کانفرنس ہُوئی ، وہ بے ثمر اور بے مغز تھی ۔ پیوٹن نے کہا:’’ مذاکرات تعمیری رہے۔‘‘ اورڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: ’’ ہم (یوکرین میں) صرف جنگ بندی نہیں، مکمل امن چاہتے ہیں۔‘‘ گویا کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا!

سب عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ اِس بے ثمر سربراہی کانفرنس میں پیوٹن کو بالادستی حاصل رہی کہ وہ یوکرین کے معاملے میں انچ بھر پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ سب سے بہترین تبصرہ کرسٹین لگارڈی ( مشہور فرانسیسی سیاستدان ، قانون دان اور پچھلے چھ سال سے یورپین سینٹرل بینک کی صدر) نے یوں کیا : ’’ پیوٹن ماضی میں سوویت رُوس کے مشہور خفیہ ادارے ، کے جی بی، سے منسلک رہے ہیں ۔

اُن کی سابقہ تربیت اور تجربات نے ’’الاسکا‘‘ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک نہیں چلنے دی۔‘‘ امریکی میڈیا بھی شہادت دے رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’الاسکا‘‘ کی سربراہی ملاقات میں عزائم پورے نہیں ہو سکے ۔ ٹرمپ صاحب اِس سربراہی ملاقات کے دھچکے اور تلخی ابھی تک محسوس کررہے ہیں۔ شائد اِسی لیے وہ رُوس پر مزید پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں ۔

ٹرمپ صاحب ہنوز مگر مان نہیں رہے ہیں کہ اُنہیں ’’الاسکا‘‘ میں شکست ہُوئی ہے ، جس طرح نریندر مودی یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ مئی 2025 میں چار روزہ پاک بھارت جنگ امریکی صدر نے بند کروائی تھی ۔ اِسی ثالثی یا درمیان داری سے خوش ہو کر پاکستان نے ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔ اِس نامزدگی سے ٹرمپ صاحب بھی خوش ہُوئے ہیں اور اُن کی انا کی تسکین بھی ہُوئی ہے۔ساری دُنیا جانتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ شدت اور حدت سے نوبیل انعام پانے کے خواہشمند ہیں ۔

ٹرمپ خود بھی کھلے عام کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’ میں نے دُنیا میں 7جنگیں بند کروائیں اور مَیں نے ہی چونکہ پاک بھارت جنگ رکوائی اور یوکرین کی جنگ بھی بند کروانا چاہتا ہُوں ، اس لیے مَیں امن کے نوبیل انعام کا مستحق ہُوں۔ ‘‘ٹرمپ صاحب ، جن کی شفقت اور بھرپور پشت پناہی سے ظالم و غاصب اسرائیل ’’غزہ‘‘ میں 60 ہزار سے زائد افراد کو شہید ، ایک لاکھ کے قریب اہلِ غزہ کو شدید زخمی اور 20لاکھ افراد کو بے گھر چکا ہے ، کیا واقعی امن نوبیل انعام کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ غزہ میں تو وہ سرے ہی سے جنگ بندی کروانے اور قیامِ امن میں ناکام ہُوئے ہیں ۔ پھر کن بنیادوں پر اُنہیں امن کا نوبیل انعام دیا جائے ؟ مگر ٹرمپ صاحب مُصر ہیں کہ چونکہ اگست2025میں اُنھوں نے وہائیٹ ہاؤس میں آرمینیا کے وزیر اعظم (نکول پیشنیان) اور آزر بائیجان کے صدر (الہام علیوف) کو بُلا کر برسہا برس سے ( نکورنو کارا باخ کے معاملے پر) جاری ہلاکت خیز جنگ بند اور دونوں متحارب ممالک میں صلح کروا دی ہے ، اس لیے بھی وہ نوبیل انعام کے مستحق ہیں ۔

پاکستان اور اسرائیل کے بعد اب آرمینیا اور آزربائیجان نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے جس بے رحمی اور بے بنیاد طور پر ایران پر حملے کیے اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا ہے ، کیا یہ قیامِ امن کے لیے اٹھایا گیا قدم کہا جا سکتا ہے ؟ ایران تو اِس کی سخت مخالفت کررہا ہے۔جون2025 میں پاکستان میں متعین ایرانی سفیر ، جناب رضا امیری مقدم، نے اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کا نام لیے بغیر پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو نوبیل انعام دیے جانے کی سفارش پر تعجب کا اظہار کیا تھا ۔ امریکہ میں متعین سابق پاکستانی سفیر ، محترمہ ملیحہ لودھی ، نے پاکستان کے اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہُوئے کہا:’’امریکہ کی خوشامد کو پالیسی کے طور پر نہیں اپنایا جا سکتا ۔‘‘اور ہمارے ممتاز دانشور، جناب مشاہد حسین سید، نے پہلے تو پاکستان کی طرف سے ٹرمپ کو نوبیل انعام دیے جانے کی سفارش اور نامزدگی سے اتفاق کیا ، مگر جب ٹرمپ نے ایران پر تباہ کن حملے کیے تو مشاہد حسین نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہُوئے کہا:’’پاکستان کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ، اِسے واپس لینا چاہیے اور اِسے منسوخ کرنا چاہیے ۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ کے کئی اقدامات حقیقی عالمی امن کے منافی ہیں ۔ مثال کے طور پر اُنھوں نے 5ستمبر 2025 کو امریکی محکمہ دفاع کا نام تبدیل کرکے ’’محکمہ جنگ‘‘ رکھ دیا اور جب اِس اقدام پر تنقید ہُوئی تو موصوف نے فرمایا:’’ جنگِ عظیم اوّل اور دوم میں بھی ہمارے اِس محکمے کو محکمہ جنگ ہی کہا جاتا تھا۔‘‘ ٹرمپ کی بد قسمتی ہے کہ عالمی حالات اُن کے لیے موافق نہیں ہیں ۔ اُنہیں’’ الاسکا‘‘ میں خاص طور پر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ، اس نے اُن کے نوبیل انعام لینے کا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا ہے ۔ یوکرین میں وہ امن کا پرچم لہرانے میں ناکام رہے ہیں ۔

غزہ میں وہ ظالم صہیونی اسرائیل کی خونریزی اور خونخواری کا خونی سیلاب رکوانے میں بھی (دانستہ) ناکام رہے ہیں۔ اور اب صہیونی اسرائیل نے امریکی اشیرواد سے امریکہ ہی کے ایک عرب اتحادی ملک، قطر، پر 9ستمبر 2025 کو بِلا اشتعال حملہ کرکے ٹرمپ کی نوبیل امن انعام کی خواہش کو بٹّہ لگا دیا ہے ۔ ایسے میں عالمی سطح پر یہ بنیادی سوال اُٹھ رہا ہے کہ ٹرمپ کو (امن کا) نوبیل انعام دیا جائے تو کیوں اور کیونکر؟؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سربراہی ملاقات نوبیل انعام کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہے ہیں ٹرمپ کو ا نہیں امن کا کے لیے کی صدر ہیں کہ امن کے

پڑھیں:

پاکستان‘چین ‘ روس اورشمالی کور یاخفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں‘ ٹرمپ کا دعویٰ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-01-22

 

واشنگٹن/ بیجنگ  ( خبر ایجنسیاں + مانیٹرنگ ڈیسک )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان، چین، روس اورشمالی کوریا خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں۔ان کے بقول وہ نہیں چاہتے کہ امریکا واحد ملک ہو جو ایسا نہ کرے۔ٹرمپ نے امریکی ٹی وی پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ یہ ممالک زیر زمین ایٹمی تجربات کرتے ہیں مگر اس کا اعلان کرتے ہیں نہ ہی کسی کو بتاتے ہیں۔ان سے یہ سوال اْس وقت پوچھا گیا جب گفتگو کا موضوع ان کی حالیہ ہدایت بنی، جس کے مطابق انہوں نے پینٹاگون کو ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں امریکی محکمہ جنگ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’فوری طور پر‘ ایٹمی تجربات دوبارہ شروع کرے، اس اعلان کے بعد سے یہ الجھن پائی جا رہی ہے کہ آیا وہ 1992ء کے بعد امریکا کے پہلے ایٹمی دھماکے کا حکم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب انٹرویو میں ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس کسی بھی ملک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے اور میں نے اس پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ سے بات بھی کی تھی۔انہوں نے کہا کہ امریکا کے پاس اتنا بڑا ایٹمی ذخیرہ ہے دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتا ہے، روس کے پاس بھی بہت سے ہتھیار ہیں اور چین کے پاس بھی ہوں گے۔جب میزبان نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‘ تو ڈونلڈ ٹرمپ نے جواب دیا کہ کیونکہ آپ کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کام کیسے کرتے ہیں، روس نے اعلان کیا کہ وہ تجربہ کرے گا، شمالی کوریا مسلسل تجربے کر رہا ہے، دوسرے ممالک بھی کر رہے ہیں، ہم واحد ملک ہیں جو تجربے نہیں کرتا، میں نہیں چاہتا کہ ہم واحد ملک ہوں جو ایسا نہ کرے۔میزبان نے نشاندہی کی کہ شمالی کوریا کے سوا کوئی ملک ایٹمی تجربے نہیں کر رہا، کیونکہ روس اور چین نے بالترتیب 1990ء اور 1996ء کے بعد سے کوئی تجربہ نہیں کیا، اس پر ٹرمپ نے کہا کہ روس اور چین بھی تجربے کرتے ہیں، بس آپ کو اس کا علم نہیں ہوتا۔انہوں نے کہا کہ ہم ایک کھلا معاشرہ ہیں، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، روس یا چین میں رپورٹرز نہیں ہیں جو ایسی چیزوں پر لکھ سکیں، ہم بات کرتے ہیں کیونکہ آپ لوگ رپورٹ کرتے ہیں۔امریکی صدر نے کہا کہ ہم تجربے کریں گے کیونکہ دوسرے ملک بھی کرتے ہیں، شمالی کوریا کرتا ہے، پاکستان کرتا ہے، مگر وہ اس بارے میں نہیں بتاتے، وہ زمین کے بہت نیچے تجربے کرتے ہیں جہاں کسی کو پتا ہی نہیں چلتا کہ اصل میں کیا ہو رہا ہے، آپ صرف ایک ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں۔ ٹرمہ نے کہا کہ ہمیں اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنا ہوگا، ورنہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں۔انٹرویو کے دوران میزبان نے یہ بھی کہا کہ ماہرین کے مطابق امریکا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی دنیا کے بہترین ہتھیار ہیں۔اس پر ٹرمپ نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق بھی ہمارے ہتھیار بہترین ہیں، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے انہیں اپنی 4 سالہ مدت کے دوران جدید بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے یہ کام کرنا پسند نہیں تھا کیونکہ ان کی تباہ کن صلاحیت ایسی ہے کہ اس کا تصور بھی خوفناک ہے، مگر اگر دوسرے ملکوں کے پاس ہوں گے تو ہمیں بھی رکھنے ہوں گے، اور جب ہمارے پاس ہوں گے تو ہمیں ان کا تجربہ بھی کرنا ہوگا، ورنہ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ وہ کام کرتے ہیں یا نہیں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے، مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے۔علاوہ ازیں ٹرمپ نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر چین نے تائیوان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ اگر چین نے تائیوان پر فوجی کارروائی کی تو کیا وہ امریکی افواج کو حرکت میں لائیں گے؟ اس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو آپ جان جائیں گے اور وہ اس کا جواب جانتے ہیںتاہم ٹرمپ نے مزید وضاحت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے راز نہیں بتا سکتا، دوسری جانب والے سب جانتے ہیں۔دوسری جانب چین نے ایٹمی تجربات کرنے کے امریکی صدر کے اس دعوے کو مکمل طور پر بے بنیاد اور غیر ذمے دارانہ قرار دیدتے ہوئے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور تخفیفِ اسلحہ کے عمل کی حمایت جاری رکھیں گے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جوہری تجربات پر عاید غیر رسمی پابندیوں کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔چینی ترجمان ماؤ نِنگ نے کہا کہ ایک ذمے دار ایٹمی ملک کے طور پر چین نے جوہری تجربات معطل کرنے کے اپنے وعدے پر ہمیشہ عمل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پْرامن ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور ایٹم بم کے پہلی ترجیح کے طور پر استعمال نہ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خود امریکا کو بھی جوہری تجربات پر عاید عالمی پابندی برقرار رکھنی چاہیے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو بین الاقوامی امن اور توازن کو نقصان پہنچائیں۔

خبر ایجنسی

متعلقہ مضامین

  •  امریکا کا یوٹرن‘ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے سے انکار
  • پاکستان‘چین ‘ روس اورشمالی کور یاخفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں‘ ٹرمپ کا دعویٰ
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر عوام کیلئے چالان نہیں انعام ہونا چاہیے، نبیل ظفر
  • کراچی میں ای چالان سسٹم پر نبیل ظفر کا تبصرہ: “چالان نہیں، عوام کو انعام ملنا چاہیے”
  • روس اور چین بھی ایٹمی تجربات کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں، امریکی صدر ٹرمپ کا انکشاف
  • اینویڈیا کی ایڈوانسڈ چپس کسی کو نہیں ملیں گی، ٹرمپ کا اعلان
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر عوام کیلئے جرمانہ نہیں انعام ہونا چاہیے، نبیل ظفر
  • ایٹمی دھماکے نہیں کر رہے ہیں، امریکی وزیر نے صدر ٹرمپ کے بیان کو غلط ثابت کردیا
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر چالان نہیں انعام ہونا چاہیے: نبیل ظفر