ٹرمپ کا نوبیل انعام کھٹائی میں پڑ گیا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
دُنیا کے انتہائی بلند سرد مقام اور برفزار’’الاسکا ‘‘ میں ہونے والی سربراہی ملاقات و کانفرنس نے امریکی صدر ، ڈونلد ٹرمپ، کے لیے امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے کی تمنا اور خواب ، بظاہر، کھٹائی میں ڈال دیے ہیں۔ یہ سربراہی ملاقات امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ اور رُوسی صدر پیوٹن کے درمیان 15 اگست 2025کو ہُوئی۔
دُنیا بھر کی نظریں اِس ملاقات اور اِس کے نتیجے پر مرتکز تھیں ۔ نکلا مگر کچھ بھی نہیں ۔ سارے خواب اور ساری توقعات بکھر کر رہ گئے ۔ رُوسی صدر ، پیوٹن صاحب ، شائد اتنی بلند توقعات لے کر’’ الاسکا‘‘ کے ملاقاتی مقامAnchorageنہیں پہنچے تھے جتنی بڑی توقعات لے کر ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں قدم رکھا تھا۔
اِس سربراہی ملاقات کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ آیا یوکرین جنگ بارے دُنیا کی دونوں طاقتور شخصیات میں کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے یا نہیں ۔ 15اگست 2025 کو دُنیا جہان کے میڈیا کی نگاہیں اِس ملاقات پر لگی تھیں ۔اور جب دونوں صدور کے درمیان ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی تو دونوں صدور کے پاس دُنیا کو بتانے والی کوئی خوشخبری نہیں تھی ۔ دونوں صدور کی مشترکہ پریس کانفرنس کا مجموعی لہجہ’’ الاسکا‘‘ کی طرح سرد اور منجمد تھا۔
الاسکا ، جو سرد فضاؤں اور وسیع برفزاروں کا مجموعہ ہے، آج توامریکی سرزمین کا حصہ ہے لیکن 160سال قبل یہ رُوس کی ملکیت تھا ۔ مشہور جنگِ کریمیا کے بعد رُوس اور زارِ رُوس جنگ کے بھاری اخراجات کے باعث مالی طور پر کنگال ہو چکے تھے ۔ اُدھر امریکہ میں خونریز خانہ جنگی ختم ہو چکی تھی ۔ امریکہ اب خود کو پھیلانا چاہتا تھا۔ رُوسی بادشاہ یا زارِ رُوس نے اپنے شاہی اخراجات پورے کرنے اور ملکی معیشت کو کچھ سہارا دینے کے لیے جب ’’الاسکا‘‘ فروخت کرنا چاہا تو امریکہ نے آگے بڑھ کر اِسے خریدنے کی ہامی بھر لی ۔
امریکی ماہرینِ ارضیات اور فوجی ماہرین بخوبی جانتے تھے کہ ’’الاسکا‘‘ کے برفزاروں کے نیچے قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں اور ’’الاسکا‘‘ اسٹریٹجی کے اعتبار سے بھی مستقبل میں بے حد اہمیت کا حامل ہوگا؛ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ(William Seward) کی قیادت میں امریکہ نے3Oمارچ 1867 کو ’’الاسکا‘‘72لاکھ ڈالرز میں خرید لیا ۔ رُوسی بادشاہ کی طرف سے امریکہ میں رُوسی سفیرEduard de Stoeckleنے خریداری ڈِیل پر دستخط کیے۔ اور یوں ’’الاسکا‘‘ کا 17لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد وسیع علاقہ امریکی ملکیت میں آگیا ۔
15اگست 2025 کو امریکی صدر نے جب الاسکا کے اینکریج ( Anchorage)کے مقام پر رُوسی صدر ، پیوٹن، کا سُرخ قالین بچھا کر گرمجوشی سے استقبال کیا تو یہ واقعی معنوں میں ایک تاریخی لمحہ تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کو بوجوہ ’’الاسکا‘‘ میں مدعو کیا تھا (کہ عالمی عدالت کی جانب سے بعض مقدمات میں پیوٹن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں)۔
یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ مقامِ ملاقات ’’اینکریج‘‘ امریکی دارالحکومت ، واشنگٹن، سے ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر اور رُوسی دارالحکومت ، ماسکو، سے ساڑھے سات ہزار کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے ۔ مگر اِس مہنگے تردد کا نتیجہ کیا نکلا ؟ صفر! بعد از ملاقات فریقین کی جو مشترکہ پریس کانفرنس ہُوئی ، وہ بے ثمر اور بے مغز تھی ۔ پیوٹن نے کہا:’’ مذاکرات تعمیری رہے۔‘‘ اورڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: ’’ ہم (یوکرین میں) صرف جنگ بندی نہیں، مکمل امن چاہتے ہیں۔‘‘ گویا کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا!
سب عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ اِس بے ثمر سربراہی کانفرنس میں پیوٹن کو بالادستی حاصل رہی کہ وہ یوکرین کے معاملے میں انچ بھر پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ سب سے بہترین تبصرہ کرسٹین لگارڈی ( مشہور فرانسیسی سیاستدان ، قانون دان اور پچھلے چھ سال سے یورپین سینٹرل بینک کی صدر) نے یوں کیا : ’’ پیوٹن ماضی میں سوویت رُوس کے مشہور خفیہ ادارے ، کے جی بی، سے منسلک رہے ہیں ۔
اُن کی سابقہ تربیت اور تجربات نے ’’الاسکا‘‘ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک نہیں چلنے دی۔‘‘ امریکی میڈیا بھی شہادت دے رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’الاسکا‘‘ کی سربراہی ملاقات میں عزائم پورے نہیں ہو سکے ۔ ٹرمپ صاحب اِس سربراہی ملاقات کے دھچکے اور تلخی ابھی تک محسوس کررہے ہیں۔ شائد اِسی لیے وہ رُوس پر مزید پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں ۔
ٹرمپ صاحب ہنوز مگر مان نہیں رہے ہیں کہ اُنہیں ’’الاسکا‘‘ میں شکست ہُوئی ہے ، جس طرح نریندر مودی یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ مئی 2025 میں چار روزہ پاک بھارت جنگ امریکی صدر نے بند کروائی تھی ۔ اِسی ثالثی یا درمیان داری سے خوش ہو کر پاکستان نے ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔ اِس نامزدگی سے ٹرمپ صاحب بھی خوش ہُوئے ہیں اور اُن کی انا کی تسکین بھی ہُوئی ہے۔ساری دُنیا جانتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ شدت اور حدت سے نوبیل انعام پانے کے خواہشمند ہیں ۔
ٹرمپ خود بھی کھلے عام کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’ میں نے دُنیا میں 7جنگیں بند کروائیں اور مَیں نے ہی چونکہ پاک بھارت جنگ رکوائی اور یوکرین کی جنگ بھی بند کروانا چاہتا ہُوں ، اس لیے مَیں امن کے نوبیل انعام کا مستحق ہُوں۔ ‘‘ٹرمپ صاحب ، جن کی شفقت اور بھرپور پشت پناہی سے ظالم و غاصب اسرائیل ’’غزہ‘‘ میں 60 ہزار سے زائد افراد کو شہید ، ایک لاکھ کے قریب اہلِ غزہ کو شدید زخمی اور 20لاکھ افراد کو بے گھر چکا ہے ، کیا واقعی امن نوبیل انعام کے مستحق ہو سکتے ہیں؟ غزہ میں تو وہ سرے ہی سے جنگ بندی کروانے اور قیامِ امن میں ناکام ہُوئے ہیں ۔ پھر کن بنیادوں پر اُنہیں امن کا نوبیل انعام دیا جائے ؟ مگر ٹرمپ صاحب مُصر ہیں کہ چونکہ اگست2025میں اُنھوں نے وہائیٹ ہاؤس میں آرمینیا کے وزیر اعظم (نکول پیشنیان) اور آزر بائیجان کے صدر (الہام علیوف) کو بُلا کر برسہا برس سے ( نکورنو کارا باخ کے معاملے پر) جاری ہلاکت خیز جنگ بند اور دونوں متحارب ممالک میں صلح کروا دی ہے ، اس لیے بھی وہ نوبیل انعام کے مستحق ہیں ۔
پاکستان اور اسرائیل کے بعد اب آرمینیا اور آزربائیجان نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے جس بے رحمی اور بے بنیاد طور پر ایران پر حملے کیے اور ایرانی ایٹمی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا ہے ، کیا یہ قیامِ امن کے لیے اٹھایا گیا قدم کہا جا سکتا ہے ؟ ایران تو اِس کی سخت مخالفت کررہا ہے۔جون2025 میں پاکستان میں متعین ایرانی سفیر ، جناب رضا امیری مقدم، نے اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان کا نام لیے بغیر پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو نوبیل انعام دیے جانے کی سفارش پر تعجب کا اظہار کیا تھا ۔ امریکہ میں متعین سابق پاکستانی سفیر ، محترمہ ملیحہ لودھی ، نے پاکستان کے اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہُوئے کہا:’’امریکہ کی خوشامد کو پالیسی کے طور پر نہیں اپنایا جا سکتا ۔‘‘اور ہمارے ممتاز دانشور، جناب مشاہد حسین سید، نے پہلے تو پاکستان کی طرف سے ٹرمپ کو نوبیل انعام دیے جانے کی سفارش اور نامزدگی سے اتفاق کیا ، مگر جب ٹرمپ نے ایران پر تباہ کن حملے کیے تو مشاہد حسین نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہُوئے کہا:’’پاکستان کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے ، اِسے واپس لینا چاہیے اور اِسے منسوخ کرنا چاہیے ۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے کئی اقدامات حقیقی عالمی امن کے منافی ہیں ۔ مثال کے طور پر اُنھوں نے 5ستمبر 2025 کو امریکی محکمہ دفاع کا نام تبدیل کرکے ’’محکمہ جنگ‘‘ رکھ دیا اور جب اِس اقدام پر تنقید ہُوئی تو موصوف نے فرمایا:’’ جنگِ عظیم اوّل اور دوم میں بھی ہمارے اِس محکمے کو محکمہ جنگ ہی کہا جاتا تھا۔‘‘ ٹرمپ کی بد قسمتی ہے کہ عالمی حالات اُن کے لیے موافق نہیں ہیں ۔ اُنہیں’’ الاسکا‘‘ میں خاص طور پر جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ، اس نے اُن کے نوبیل انعام لینے کا معاملہ کھٹائی میں ڈال دیا ہے ۔ یوکرین میں وہ امن کا پرچم لہرانے میں ناکام رہے ہیں ۔
غزہ میں وہ ظالم صہیونی اسرائیل کی خونریزی اور خونخواری کا خونی سیلاب رکوانے میں بھی (دانستہ) ناکام رہے ہیں۔ اور اب صہیونی اسرائیل نے امریکی اشیرواد سے امریکہ ہی کے ایک عرب اتحادی ملک، قطر، پر 9ستمبر 2025 کو بِلا اشتعال حملہ کرکے ٹرمپ کی نوبیل امن انعام کی خواہش کو بٹّہ لگا دیا ہے ۔ ایسے میں عالمی سطح پر یہ بنیادی سوال اُٹھ رہا ہے کہ ٹرمپ کو (امن کا) نوبیل انعام دیا جائے تو کیوں اور کیونکر؟؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سربراہی ملاقات نوبیل انعام کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہے ہیں ٹرمپ کو ا نہیں امن کا کے لیے کی صدر ہیں کہ امن کے
پڑھیں:
قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، حماس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو مار دیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، حماس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو مار دیں گے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ آج صبح میرے حکم پر امریکی فورسز نے وینزویلا میں دوسرا فضائی حملہ کیا، وینزویلا میں کارروائی کے دوران 3 دہشت گرد مارے گئے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کارروائی اس وقت کی گئی، جب دہشت گرد بین الاقوامی پانیوں میں منشیات منتقل کر رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے بتایا کہ حملے میں امریکی افواج کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بےامنی کا شکار شہروں میں مرحلہ وار نیشنل گارڈز تعینات کریں گے۔