آنکھوں کا ویسکولر سسٹم دل کی بیماریوں کے خطرات ظاہر کرسکتا ہے، تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ آنکھوں کی خون کی نالیاں (بلڈ ویسلز) نہ صرف بصارت بلکہ دل اور دورانِ خون کے نظام کی صحت کے بارے میں بھی اہم معلومات فراہم کر سکتی ہیں۔
جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق آنکھوں کا ویسکولر سسٹم یہ پیشگوئی کر سکتا ہے کہ کوئی شخص تیزی سے بڑھاپے کی طرف بڑھ رہا ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 14 سالہ بچے نے دل کی بیماری کا پتا لگانے والی اے آئی ایپ تیار کرلی
کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا کہ آنکھ انسانی جسم کے دورانِ خون کے نظام کا ایک منفرد اور غیر تکلیف دہ مشاہدہ فراہم کرتی ہے۔
سینیئر محقق میری پیگیری نے بتایا کہ ریٹینا (شبکیہ) میں ہونے والی تبدیلیاں اکثر جسم کی دیگر باریک خون کی نالیوں میں آنے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بچپن میں چینی کا محدود استعمال دل کی بیماریوں کے خطرات کم کرتا ہے، تحقیق
تحقیق کے دوران ماہرین نے تقریباً 74 ہزار شرکا کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، نتائج سے پتا چلا کہ جن افراد کی ریٹینا میں خون کی نالیاں کم شاخ دار تھیں، ان میں دل کی بیماریوں، جسم میں سوزش اور کم عمر میں موت کے خطرات زیادہ پائے گئے۔
مزید برآں سائنسدانوں نے 2 اہم پروٹینز (ایم ایم پی 12 اور آئی جی جی ایف سی ریسیپٹر Iib) کی نشاندہی کی جو سوزش اور ویسکولر بڑھاپے سے وابستہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت مستقبل میں دل کی بیماریوں اور بڑھاپے کے علاج کے لیے نئی ادویات کی تیاری میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گرتے بالوں کو روکنے والی دوا دل کی بیماری کے خطرے کو کیسے کم کرتی ہے؟
میری پیگیری کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ریٹینا اسکینز کو معمول کے طبی معائنے کا حصہ بنایا جاسکتا ہے تاکہ ویسکولر بڑھاپے کی ابتدائی تشخیص ممکن ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج عروقی نظام کے بڑھاپے کو سست کرنے، دل کی بیماریوں کا بوجھ کم کرنے اور انسانی عمر میں اضافہ کے لیے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آنکھیں ایڈوانسز بیماری تحقیق دل کینیڈا میک ماسٹر یونیورسٹی ہارٹ اٹیک ویسکولر سسٹم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا نکھیں ایڈوانسز کینیڈا میک ماسٹر یونیورسٹی ہارٹ اٹیک ویسکولر سسٹم دل کی بیماریوں
پڑھیں:
ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز اور نجی طبی اداروں کے خلاف ایف بی آر کا سخت کریک ڈاؤن
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس چوری میں مبینہ طور پر ملوث نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز، میڈیکل کلینکس اور نجی اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ حالیہ ڈیٹا اینالسز کے دوران سامنے آنے والے چونکا دینے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے، جن سے ملک میں ڈاکٹروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ٹیکس عدم تعمیل کا انکشاف ہوا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق ملک بھر میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 30 ہزار 243 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں، تاہم رواں سال صرف 56 ہزار 287 ڈاکٹرز نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروائے، جبکہ 73 ہزار سے زائد ڈاکٹرز قابلِ ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود گوشوارے جمع کرانے میں ناکام رہے۔
اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شعبہ، جو ملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے پیشوں میں شمار ہوتا ہے، اپنی اصل آمدنی اور ظاہر کردہ آمدنی کے درمیان واضح تضاد رکھتا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 2025 میں 31 ہزار 870 ڈاکٹرز نے نجی پریکٹس سے صفر آمدنی ظاہر کی جبکہ 307 ڈاکٹرز نے نقصان ظاہر کیا، حالانکہ بڑے شہروں میں ان کے کلینکس روزانہ مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔
صرف 24 ہزار 137 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے کسی حد تک کاروباری آمدنی ظاہر کی، لیکن ان کی جانب سے ادا کیا گیا ٹیکس بھی ممکنہ آمدنی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ مثال کے طور پر:
17 ہزار 442 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 1,894 روپے ٹیکس ادا کیا۔
10 ہزار 922 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 10 سے 50 لاکھ روپے سالانہ کے درمیان تھی، ان کا یومیہ ٹیکس محض 1,094 روپے رہا۔
3 ہزار 312 ڈاکٹرز جن کی آمدنی 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تھی، انہوں نے یومیہ صرف 1,594 روپے ٹیکس دیا۔
سب سے زیادہ آمدنی والے 3,327 ڈاکٹرز جن کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً صرف 5,500 روپے ٹیکس ادا کیا۔
حیران کن طور پر 38 ہزار 761 ڈاکٹرز نے 10 لاکھ روپے سے کم آمدنی ظاہر کی، جن کا یومیہ ٹیکس صرف 791 روپے رہا، جبکہ ایسے بہت سے ڈاکٹرز فی مریض 2 ہزار سے 10 ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ 31 ہزار 524 ڈاکٹرز نے صفر آمدنی ظاہر کرنے کے باوجود مجموعی طور پر 1.3 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈز کے دعوے بھی دائر کر رکھے ہیں، جو اس صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیتا ہے۔
یہ تمام اعداد و شمار زمینی حقائق سے شدید متصادم ہیں، کیونکہ ملک بھر میں نجی کلینکس ہر شام مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے تو گریڈ 17 اور 18 کے سرکاری افسران ماہانہ اس سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جتنا کئی ڈاکٹر پورے سہ ماہی میں بھی ادا نہیں کرتے، حالانکہ سرکاری ملازمین کے پاس آمدنی چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے:کیا ایک ملک صرف اُن طبقات کے ٹیکس پر چل سکتا ہے جن کی آمدنی چھپ نہیں سکتی، جبکہ زیادہ آمدنی والے شعبے یا تو آمدنی کم ظاہر کریں یا بالکل ظاہر ہی نہ کریں؟
زیادہ آمدنی رکھنے والے طبقات کی جانب سے کم یا صفر آمدنی ظاہر کرنا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ٹیکس نظام میں انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ بڑھتا ہوا یہ کمپلائنس گیپ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت اور انصاف کی بحالی کے لیے مؤثر اور بلا امتیاز انفورسمنٹ ناگزیر ہو چکی ہے۔
اب زیادہ آمدنی والے پیشوں میں ٹیکس کمپلائنس کوئی اختیاری معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ قومی معیشت کے استحکام اور ریاستی بقا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔