کراچی کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ سندھ
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
کراچی:
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عالمی بینک کے ٹرانسپورٹ سے متعلق وفد سے ملاقات میں بتایا ہے کہ کراچی کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ورلڈ بینک کے ٹرانسپورٹ سیکٹر کے اعلیٰ سطح کے وفد کی ملاقات ہوئی، عالمی بینک کے وفد کی قیادت مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور پاکستان کے پریکٹس منیجر برائے ٹرانسپورٹ ابراہیم خلیل ذکی نے کی، وفد میں لیڈ ٹرانسپورٹ اکنامسٹ جارجیس بیانکو، ٹرانسپورٹ اسپیشلسٹ فیڈریکو فریرا، ٹرانسپورٹ اسپیشلسٹ پاپا مودو اور دیگر شامل تھے۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن، وزیر پی اینڈ ڈی ناصر شاہ، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم شاہ، سیکریٹری وزیراعلیٰ رحیم شیخ اور سیکریٹری ٹرانسپورٹ اسد ضامن شریک تھے۔
وزیراعلیٰ نے وفد کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ بینک حکومت سندھ کا اہم شراکت دار ہے اور انہوں نے ورلڈ بینک کے اعلیٰ سطح کے وفد کو کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل اور ضروریات سے آگاہ کیا۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ یلو لائن بی آر ٹی منصوبہ ورلڈ بینک کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے، یلو لائن اور دیگر بی آر ٹی منصوبوں کی تکمیل سے شہر میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ جدید طریقے سے حل ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ شہر کو 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، حکومت سندھ نے الیکٹرک بسیں متعارف کروا کر ماحول دوست اقدام کیا ہے اور صوبائی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ جلد سے جلد شروع ہو۔
اجلاس میں کراچی کےلیے ٹرانسپورٹ کا ایک مکمل ماسٹر پلان تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کا ماسٹر پلان بنانے کےلیے عالمی بینک کے ماہرین حکومت سندھ کے ساتھ مل کر کام کریں گے، ماسٹر پلان میں لائٹ ریل منصوبہ ’’کراچی میٹرو‘‘ بھی شامل ہوگا۔
اس موقع پر عالمی بینک نے ٹرانسپورٹ انڈسٹری کراچی میں قائم کرنے کےلیے معاونت کی پیش کش کی اور وزیراعلیٰ نے پیش کش قبول کرلی اور ورلڈ بینک سے منسلک اداروں کو دھابیجی اسپیشل اکنامک زون میں ٹرانسپورٹ انڈسٹری لگانے کی تجویز دی گئی۔
وزیراعلیٰ نے ورلڈ بینک اور آئی ایف سی کو پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ دھابیجی میں ٹرانسپورٹ انڈسٹری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں لگائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ عالمی بینک کی امداد اور نجی شعبے کے تعاون سے 2 ہزار الیکٹرک بسیں لائے گی۔
ملاقات میں وزیراعلیٰ سندھ اور ورلڈ بینک کے ماہرین پر مشتمل مشترکہ ورکنگ گروپ بنانے کا فیصلہ کیا گیا، ورکنگ گروپ کراچی ٹرانسپورٹ ماسٹر پلان اور دیگر منصوبوں پر پیش رفت کا ہر ماہ جائزہ لے گا۔
سینئر وزیر شرجیل میمن بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بی آر ٹی یلو لائن منصوبہ کراچی موبیلٹی پراجیکٹ کے تحت شروع ہوا ہے، جو 21 کلومیٹر کا منصوبہ ہے جس میں 4 انڈر پاسز، 21 ایٹ گریڈ اسٹیشنز، 2 ایلی ویٹڈ یو ٹرنز، 4 ایلی ویٹڈ اسٹیشنز، 8 پل یا فلائی اوورز اور 3 انڈر پاسز ہوں گے۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ بی آر ٹی یلو لائن خالد بن ولید انٹرسیکشن سے داؤد چورنگی تک بنایا جا رہا ہے۔
شرجیل انعام میمن نے بتایا کہ یلو لائن پر 268 بسوں کا بیڑا چلے گا اور روزانہ 3 لاکھ مسافر سفر کریں گے، بی آر ٹی کے روٹ جام صادق پل پر کام تیزی سے جاری ہے۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ جام صادق پل روڈ کی تعمیر مکمل ہونے والی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مراد علی شاہ نے کہا کہ میں ٹرانسپورٹ ورلڈ بینک کے ماسٹر پلان عالمی بینک حکومت سندھ یلو لائن بی آر ٹی
پڑھیں:
سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-7
لاہور (کامرس ڈیسک)پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16 اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26 ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہ ، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویڑن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3 لاکھ 23 ہزار 215 ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویڑن، گجرات ڈویڑن، بہاولپور ڈویڑن، ساہیوال، ملتان ڈویڑن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2 لاکھ 62 ہزار 862 ایکڑ، 2 لاکھ 38 ہزار 416 ایکڑ، 1 لاکھ 45 ہزار 432 ایکڑ، 1 لاکھ 37 ہزار 79 ایکڑ، 58 ہزار 439 ایکڑاور 49 ہزار 165 ایکڑفصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔درحقیت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔