WE News:
2025-09-17@23:32:26 GMT

’جنریشن زی‘ کی بغاوت، نیپال کا سبق جو ہمیں بھی سیکھنا چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

نیپال کی سڑکوں پر گزشتہ دنوں میں نوجوانوں کا جو طوفان بپا ہوا، وہ کوئی وقتی احتجاج نہیں تھا بلکہ برسوں نہیں عشروں سے مایوسی اور بے بسی ایک پریشر ککر میں جمع ہورہی تھی۔

’جنریشن زی‘ سے پہلے کی نسل ’جنریشن وائی‘ میں ظلم و استحصال سہنے کی برداشت ختم ہوگئی تھی۔ یہ وہ آخری نسل تھی جس نے ملکی نظام کو قائم و دائم رکھتے ہوئے ظلم و استحصال ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے ’جنریشن ایکس‘ اور اس سے بھی پہلے ’بیبی بومرز‘ میں بہت برداشت تھی۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ جنریشن زی ان نوجوانوں کو کہتے ہیں جو 1997–2012 کے درمیان پیدا ہوئے۔ اور ’جنریشن وائی‘ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو  انیس سو اکاسی سے انیس سو چھیانوے تک پیدا ہوئے۔  ’جنریشن ایکس‘ انیس سو پینسٹھ سے انیس سو اسی تک پیدا ہونے والوں کو کہتے ہیں۔ اور ’بیبی بومرز‘ انیس سو چھیالیس سے انیس سو چونسٹھ تک پیدا ہونے والوں کو کہا جاتا ہے۔

نیپال کے حکمرانوں نے جنریشن زی کو بھی پچھلی تین نسلوں جیسا ہی سمجھ لیا تھا۔ اچھا ہوتا کہ  کم از کم جنریشن وائی کے حکمران ہی پریشر ککر میں بڑھتے ہوئے دباؤ کا اندازہ کرلیتے، عام لوگوں کو بھی خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار ہونے دیتے، اس کے نتیجے میں ’جنریشن زی‘ اس قدر خطرناک نہ بنتی۔ وہ اچھی زندگی کے مزے لیتی اور حکمرانوں کی طرف دیکھ کر محبت کا اظہار کرتی۔

نیپال کے حکمرانوں نے جس طرح ’جنریشن وائی‘ کو کچھ نہ دیا، سوائے ظلم و استحصال کے، اسی طرح جنریشن زی کو بھی محروم رکھا۔

جب وہ زبانی احتجاج کرنے لگے تو ان کا گلا گھونٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ حکومت نے تقریباً 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کردی، احتجاج کی چنگاری اسی فیصلے کے نتیجے میں سلگی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھانبڑ میں بدل گئی۔

اس بھانبڑ نے ہر چیز کو جلا کر راکھ کرنے کی کوشش کی۔ پارلیمان کی عمارت، صدر اور وزیراعظم کی رہائش گاہوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ حکومتی دفاتر کو آگ لگا دی گئی۔ حالات اس قدر سنگین ہوئے کہ متعدد وزرا فوج کے ہیلی کاپٹر کے رسوں سے لٹک کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جو لیڈرز نوجوانوں کے ہتھے چڑھے، وہ بدترین تشدد کا نشانہ بنے، ان میں سے کسی نے گندے نالے میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی اور کسی نے چھتوں سے چھلانگ لگائی لیکن اس کے بعد بھی وہ جنریشن زی کا غیظ و غضب کا نشانہ بنتے رہے۔

نوجوانوں کو سابق وزیراعظم جال ناتھ کھنال کا دور حکومت بھی یاد تھا اور ان کے گھر کا ایڈریس بھی معلوم تھا، چنانچہ وہ سابق وزیر اعظم کے گھر میں گھسے، ان کی اہلیہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انھیں گھر میں ہی بند کرکے گھر کو آگ لگادی۔ نتیجتاً خاتون بری طرح جھلس گئیں، ان کے مرنے کی خبریں شائع ہوگئیں لیکن جالناتھ کھنال نے ابھی دیر پہلے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان کی بیگم زندہ ہیں، اسپتال میں ہیں لیکن ان کی حالت تشویش ناک ہے۔

احتجاجی نوجوانوں نے ہر اس فرد کو تشدد کا نشانہ بنایا جو اس نظام سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔ اگرچہ نیپالی وزیراعظم کے پی شرما اولی استعفیٰ دے کر فرار ہوگئے، فوج نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرکے حالات پر قدرے قابو پالیا، تاہم احتجاجی نوجوان اب بھی سڑکوں پر ہیں۔

نظام سے بغاوت صرف نیپال کی ’جنریشن زی‘ نے کی۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ ان دونوں ممالک کی جنریشن زی کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ اب اپنی زندگیوں میں بہتری چاہتی ہے، وہ حکمرانوں کے بیانات، ان کے وعدوں یا ہلکے پھلکے ریلیف سے بہلنے والی نہیں۔ وہ برداشت نہیں کرسکتی کہ ایک طبقہ عیاشی کرے اور عوام ظلم و استحصال سہیں۔

نیپال میں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں یونیورسٹی آف ایسٹ انگلیا کے سابق پروفیسر اور امورِ نیپال کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ سیڈن کا کہنا ہے کہ یہ تحریک ماضی کی بغاوتوں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ براہِ راست سیاسی جماعتوں سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ نوجوانوں کی خود رو آواز ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ سیڈن نے، جو 1974 سے نیپال کی سیاست اور معیشت پر تحقیق کر رہے ہیں، ایک انٹرویو میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ نیپال کی جنریشن زی کیا چاہتی تھی، اس کی شکایات کیا تھیں؟

ان کے مطابق نیپال میں جو کچھ ہوا، اس کے چند ایک اہم ترین اسباب تھے، مثلاً

سیاسی جمود اور کرپشن: تین دہائیوں سے ماؤسٹ پارٹی، UML اور نیپالی کانگریس کے چند بزرگ رہنما بار بار اقتدار میں آئے لیکن نظام میں شفافیت نہ لائے۔ نوجوانوں کو لگتا ہے کہ یہ قیادت ان کے مستقبل کو یرغمال بنائے بیٹھی ہے۔

سوشل میڈیا پر قدغن: احتجاج کی اصل چنگاری وہ وقت بنا جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی کی کوشش کی۔ نوجوانوں نے اسے اپنی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا۔

بے روزگاری: مقامی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لاکھوں نوجوان خلیجی ممالک یا ملائشیا  میں جا کر مزدوری کرنے پر مجبور ہوئے۔ احتجاج کرنے والے ایک نوجوان کے بقول ’ہم کیوں اپنے خواب کسی دوسرے ملک کی فیکٹریوں میں دفن کریں؟ ہمیں اپنے ہی وطن میں عزت کے ساتھ جینے کا حق چاہیے۔‘

نظرانداز ہونا: سیاسی اشرافیہ کو یقین تھا کہ نوجوان بیرون ملک چلے جائیں گے، لیکن اب یہ نیپالی جنریشن زی کہہ رہی ہے ’ہم یہاں رہیں گے، اور تبدیلی یہیں لائیں گے۔‘

جنریشن زی کو کیسے مطمئن کیا جائے؟

یہ سوال صرف نیپال کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان ممالک کے لیے بھی ہے جہاں اسٹیٹس کو ہے اور سیاست بڑی عمر کے رہنماؤں کے قبضے میں ہے۔ بڑی عمر کے یہ رہنما مانیں یا نہ مانیں، لیکن ان کے ہاں بھی پریشر ککر میں دباؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

اگر وہ بنگلہ دیش اور نیپال جیسے انقلابات سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں چند ایک اقدامات بہر صورت کرنا ہوں گے۔

حقیقی سیاسی نمائندگی: نوجوانوں کو محض جلسوں کی رونق بنانے کے بجائے پارلیمان اور پالیسی ساز اداروں میں جگہ دینا ہوگی۔ نوجوان قیادت کو آگے لانا وقت کی ضرورت ہے۔

روزگار اور ہنر مندی کے مواقع: تعلیم اور ہنر کی بنیاد پر ایسی معیشت تیار کی جائے جس میں نوجوانوں کو اپنے وطن میں ہی مستقبل نظر آئے۔

آزادی اظہار کا تحفظ: Gen Z سب سے زیادہ حساس اپنی رائے اور آواز کے حق پر ہے۔ سوشل میڈیا یا اظہارِ رائے پر پابندی نوجوانوں کو مزید مشتعل کرتی ہے۔

شفافیت اور ٹیکنالوجی کا استعمال: کرپشن کے خلاف ڈیجیٹل نظام، ای-گورننس اور کھلے ڈیٹا بیس نوجوانوں کا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔

ثقافتی و سماجی شمولیت: نوجوان صرف نوکری نہیں چاہتے بلکہ انہیں یہ یقین دہانی بھی چاہیے کہ وہ ملک کے فیصلوں میں برابر کے شریک ہیں۔

نیپال اور بنگلہ دیش کی Gen Z ہمیں آئینہ دکھا رہی ہے۔ اگر نئی نسل کو جمہوری انداز میں نظام کا حصہ نہ بنایا گیا تو وہ سڑکوں پر آ کر اس نظام کو چیلنج کرے گی۔ اور اس وقت یہ صرف نیپال کا سوال نہیں بلکہ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور حتیٰ کہ امریکا جیسی ریاستوں کے لیے بھی ایک کھلا انتباہ ہے۔

یاد رکھیے، مستقبل نوجوانوں کا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا حکمران انہیں مخلصانہ طور پر مستقبل کی تعمیر میں شریک کرنے کو تیار ہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

بنگلا دیش بیبی بومرز جنریشن ایکس جنریشن زی جنریشن وائی نیپال.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنگلا دیش جنریشن ایکس جنریشن وائی نیپال ظلم و استحصال جنریشن وائی نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی کوشش کی بنگلہ دیش نیپال کی نیپال کے کا نشانہ سے پہلے کے لیے

پڑھیں:

اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار

—فائل فوٹو

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔

عرب ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول اور خلافِ توقع تھا۔ 

پاکستان مشکل وقت میں قطر کے ساتھ کھڑا ہے: وزیراعظم شہباز شریف

وزیراعظم کی دوحہ میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات ہوئی ہے

اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی یقینی بنائی جائے، اسرائیلی اشتعال انگیزیوں سے واضح ہے کہ وہ ہرگز امن نہیں چاہتا۔

 وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا، سلامتی کونسل میں اصلاحات کی جانی چاہئیں اور بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • ملک کے حالات بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی طرف جارہے ہیں،عمران خان
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر
  • نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
  • روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟