WE News:
2025-11-03@00:14:28 GMT

’جنریشن زی‘ کی بغاوت، نیپال کا سبق جو ہمیں بھی سیکھنا چاہیے

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

نیپال کی سڑکوں پر گزشتہ دنوں میں نوجوانوں کا جو طوفان بپا ہوا، وہ کوئی وقتی احتجاج نہیں تھا بلکہ برسوں نہیں عشروں سے مایوسی اور بے بسی ایک پریشر ککر میں جمع ہورہی تھی۔

’جنریشن زی‘ سے پہلے کی نسل ’جنریشن وائی‘ میں ظلم و استحصال سہنے کی برداشت ختم ہوگئی تھی۔ یہ وہ آخری نسل تھی جس نے ملکی نظام کو قائم و دائم رکھتے ہوئے ظلم و استحصال ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے ’جنریشن ایکس‘ اور اس سے بھی پہلے ’بیبی بومرز‘ میں بہت برداشت تھی۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ جنریشن زی ان نوجوانوں کو کہتے ہیں جو 1997–2012 کے درمیان پیدا ہوئے۔ اور ’جنریشن وائی‘ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو  انیس سو اکاسی سے انیس سو چھیانوے تک پیدا ہوئے۔  ’جنریشن ایکس‘ انیس سو پینسٹھ سے انیس سو اسی تک پیدا ہونے والوں کو کہتے ہیں۔ اور ’بیبی بومرز‘ انیس سو چھیالیس سے انیس سو چونسٹھ تک پیدا ہونے والوں کو کہا جاتا ہے۔

نیپال کے حکمرانوں نے جنریشن زی کو بھی پچھلی تین نسلوں جیسا ہی سمجھ لیا تھا۔ اچھا ہوتا کہ  کم از کم جنریشن وائی کے حکمران ہی پریشر ککر میں بڑھتے ہوئے دباؤ کا اندازہ کرلیتے، عام لوگوں کو بھی خوشحالی اور ترقی سے ہمکنار ہونے دیتے، اس کے نتیجے میں ’جنریشن زی‘ اس قدر خطرناک نہ بنتی۔ وہ اچھی زندگی کے مزے لیتی اور حکمرانوں کی طرف دیکھ کر محبت کا اظہار کرتی۔

نیپال کے حکمرانوں نے جس طرح ’جنریشن وائی‘ کو کچھ نہ دیا، سوائے ظلم و استحصال کے، اسی طرح جنریشن زی کو بھی محروم رکھا۔

جب وہ زبانی احتجاج کرنے لگے تو ان کا گلا گھونٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ حکومت نے تقریباً 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کردی، احتجاج کی چنگاری اسی فیصلے کے نتیجے میں سلگی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھانبڑ میں بدل گئی۔

اس بھانبڑ نے ہر چیز کو جلا کر راکھ کرنے کی کوشش کی۔ پارلیمان کی عمارت، صدر اور وزیراعظم کی رہائش گاہوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ حکومتی دفاتر کو آگ لگا دی گئی۔ حالات اس قدر سنگین ہوئے کہ متعدد وزرا فوج کے ہیلی کاپٹر کے رسوں سے لٹک کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جو لیڈرز نوجوانوں کے ہتھے چڑھے، وہ بدترین تشدد کا نشانہ بنے، ان میں سے کسی نے گندے نالے میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی اور کسی نے چھتوں سے چھلانگ لگائی لیکن اس کے بعد بھی وہ جنریشن زی کا غیظ و غضب کا نشانہ بنتے رہے۔

نوجوانوں کو سابق وزیراعظم جال ناتھ کھنال کا دور حکومت بھی یاد تھا اور ان کے گھر کا ایڈریس بھی معلوم تھا، چنانچہ وہ سابق وزیر اعظم کے گھر میں گھسے، ان کی اہلیہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انھیں گھر میں ہی بند کرکے گھر کو آگ لگادی۔ نتیجتاً خاتون بری طرح جھلس گئیں، ان کے مرنے کی خبریں شائع ہوگئیں لیکن جالناتھ کھنال نے ابھی دیر پہلے غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان کی بیگم زندہ ہیں، اسپتال میں ہیں لیکن ان کی حالت تشویش ناک ہے۔

احتجاجی نوجوانوں نے ہر اس فرد کو تشدد کا نشانہ بنایا جو اس نظام سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔ اگرچہ نیپالی وزیراعظم کے پی شرما اولی استعفیٰ دے کر فرار ہوگئے، فوج نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کرکے حالات پر قدرے قابو پالیا، تاہم احتجاجی نوجوان اب بھی سڑکوں پر ہیں۔

نظام سے بغاوت صرف نیپال کی ’جنریشن زی‘ نے کی۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ ان دونوں ممالک کی جنریشن زی کا طرز عمل بتاتا ہے کہ وہ اب اپنی زندگیوں میں بہتری چاہتی ہے، وہ حکمرانوں کے بیانات، ان کے وعدوں یا ہلکے پھلکے ریلیف سے بہلنے والی نہیں۔ وہ برداشت نہیں کرسکتی کہ ایک طبقہ عیاشی کرے اور عوام ظلم و استحصال سہیں۔

نیپال میں جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں یونیورسٹی آف ایسٹ انگلیا کے سابق پروفیسر اور امورِ نیپال کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ سیڈن کا کہنا ہے کہ یہ تحریک ماضی کی بغاوتوں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ یہ براہِ راست سیاسی جماعتوں سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ نوجوانوں کی خود رو آواز ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ سیڈن نے، جو 1974 سے نیپال کی سیاست اور معیشت پر تحقیق کر رہے ہیں، ایک انٹرویو میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ نیپال کی جنریشن زی کیا چاہتی تھی، اس کی شکایات کیا تھیں؟

ان کے مطابق نیپال میں جو کچھ ہوا، اس کے چند ایک اہم ترین اسباب تھے، مثلاً

سیاسی جمود اور کرپشن: تین دہائیوں سے ماؤسٹ پارٹی، UML اور نیپالی کانگریس کے چند بزرگ رہنما بار بار اقتدار میں آئے لیکن نظام میں شفافیت نہ لائے۔ نوجوانوں کو لگتا ہے کہ یہ قیادت ان کے مستقبل کو یرغمال بنائے بیٹھی ہے۔

سوشل میڈیا پر قدغن: احتجاج کی اصل چنگاری وہ وقت بنا جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی کی کوشش کی۔ نوجوانوں نے اسے اپنی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا۔

بے روزگاری: مقامی روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لاکھوں نوجوان خلیجی ممالک یا ملائشیا  میں جا کر مزدوری کرنے پر مجبور ہوئے۔ احتجاج کرنے والے ایک نوجوان کے بقول ’ہم کیوں اپنے خواب کسی دوسرے ملک کی فیکٹریوں میں دفن کریں؟ ہمیں اپنے ہی وطن میں عزت کے ساتھ جینے کا حق چاہیے۔‘

نظرانداز ہونا: سیاسی اشرافیہ کو یقین تھا کہ نوجوان بیرون ملک چلے جائیں گے، لیکن اب یہ نیپالی جنریشن زی کہہ رہی ہے ’ہم یہاں رہیں گے، اور تبدیلی یہیں لائیں گے۔‘

جنریشن زی کو کیسے مطمئن کیا جائے؟

یہ سوال صرف نیپال کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان ممالک کے لیے بھی ہے جہاں اسٹیٹس کو ہے اور سیاست بڑی عمر کے رہنماؤں کے قبضے میں ہے۔ بڑی عمر کے یہ رہنما مانیں یا نہ مانیں، لیکن ان کے ہاں بھی پریشر ککر میں دباؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

اگر وہ بنگلہ دیش اور نیپال جیسے انقلابات سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں چند ایک اقدامات بہر صورت کرنا ہوں گے۔

حقیقی سیاسی نمائندگی: نوجوانوں کو محض جلسوں کی رونق بنانے کے بجائے پارلیمان اور پالیسی ساز اداروں میں جگہ دینا ہوگی۔ نوجوان قیادت کو آگے لانا وقت کی ضرورت ہے۔

روزگار اور ہنر مندی کے مواقع: تعلیم اور ہنر کی بنیاد پر ایسی معیشت تیار کی جائے جس میں نوجوانوں کو اپنے وطن میں ہی مستقبل نظر آئے۔

آزادی اظہار کا تحفظ: Gen Z سب سے زیادہ حساس اپنی رائے اور آواز کے حق پر ہے۔ سوشل میڈیا یا اظہارِ رائے پر پابندی نوجوانوں کو مزید مشتعل کرتی ہے۔

شفافیت اور ٹیکنالوجی کا استعمال: کرپشن کے خلاف ڈیجیٹل نظام، ای-گورننس اور کھلے ڈیٹا بیس نوجوانوں کا اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔

ثقافتی و سماجی شمولیت: نوجوان صرف نوکری نہیں چاہتے بلکہ انہیں یہ یقین دہانی بھی چاہیے کہ وہ ملک کے فیصلوں میں برابر کے شریک ہیں۔

نیپال اور بنگلہ دیش کی Gen Z ہمیں آئینہ دکھا رہی ہے۔ اگر نئی نسل کو جمہوری انداز میں نظام کا حصہ نہ بنایا گیا تو وہ سڑکوں پر آ کر اس نظام کو چیلنج کرے گی۔ اور اس وقت یہ صرف نیپال کا سوال نہیں بلکہ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان اور حتیٰ کہ امریکا جیسی ریاستوں کے لیے بھی ایک کھلا انتباہ ہے۔

یاد رکھیے، مستقبل نوجوانوں کا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا حکمران انہیں مخلصانہ طور پر مستقبل کی تعمیر میں شریک کرنے کو تیار ہیں؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

بنگلا دیش بیبی بومرز جنریشن ایکس جنریشن زی جنریشن وائی نیپال.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بنگلا دیش جنریشن ایکس جنریشن وائی نیپال ظلم و استحصال جنریشن وائی نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی کوشش کی بنگلہ دیش نیپال کی نیپال کے کا نشانہ سے پہلے کے لیے

پڑھیں:

مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!

پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد

(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)

پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔

پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔

انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔

اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی

(دفاعی تجزیہ کار)

 میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔

پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔

بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔

آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔

بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔

افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔

افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔

افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔

محمد مہدی

(ماہر امور خارجہ)

پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔

71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔

دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔

خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔

سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • صرف بیانات سے بات نہیں بنتی، سیاست میں بات چیت ہونی چاہیے: عطاء تارڑ
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر چالان نہیں انعام ہونا چاہیے: نبیل ظفر
  • ہمیں دھمکی دیتے ہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیں گے، بھاڑ میں جائے فورتھ شیڈول، فضل الرحمان
  • آج کا دن ہمیں ڈوگرہ راج کیخلاف بغاوت کی یاد دلاتا ہے، وزیر اعظم کا گلگت بلتستان کے یوم آزادی پر پیغام
  • ٹی ایل پی پر پابندی اچھی بات ہے، کسی دہشتگرد تنظیم سے بات نہیں کرنی چاہیے: اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم
  • افغانستان سے دراندازی بندہونی چاہیے،وزیردفاع۔بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا، پاک فوج
  • اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مجرم ہمیں دھمکائے، انصار اللّہ