Express News:
2025-09-17@23:57:39 GMT

ماحولیاتی زرعی ایمرجنسی، ایمرجنسی ہو

اشاعت کی تاریخ: 13th, September 2025 GMT

سیلابی پانی کو زمین نے اپنے سینے سے ابھی تک لگا رکھا ہے۔ جہاں جہاں پانی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، ان کھیتوں پر کسان کی سال بھرکی محنت رنگ لانے والی تھی کہ ان فصلوں کو بھارت سے آئے ہوئے ظالم ریلوں نے زمین میں ہی دبا دیا ہے۔ دیہات کے گلی کوچوں میں ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ اس پانی نے زمین کے سینے کو چھلنی چھلنی کردیا ہے۔کیچڑ نے کپاس کے پودوں کی کمر توڑ دی ہے۔

ایسے میں ہر کسان سوچ رہا تھا کہ میری فصلیں بھی برباد ہو گئیں، قرض بھی سر پر چڑھ گیا ہے۔ مال و اسباب بھی سب کچھ بہہ گیا کچھ باقی جو بچا تھا وہ بڑی کشتیوں میں بیٹھ کر آنے والے رات کے اندھیرے میں چرا کر لے گئے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہا جاتا ہے کہ کوئی 70 برس گزرے کہ 68 سیلابوں سے پاکستان کو کبھی کم کبھی زیادہ واسطہ پڑا ہے، لیکن اس مرتبہ کا سیلاب سپر فلڈ بنا۔ کیونکہ بھارت ہر روز زوردار دھماکے دار ریلے چھوڑتا چلا جا رہا ہے۔

ایسے میں پاکستان کی معاشیات کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والی زرعی معیشت ڈوب کر رہ گئی ہے اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کو نکھارنے والا سنوارنے والا، کسان اکثر اوقات ملکی سیاست، بدانتظامی، رشوت، نااہلی اور قدرتی آفات اور بھارتی کینہ پروری کے بیچ پستا آیا ہے۔ کپاس جوکہ ملکی برآمدات میں اربوں ڈالر کا حصہ ڈالتی ہے، چاول جو ملکی خوراک کے ساتھ بیرون ملکوں کے لیے خوراک فراہم کرتی ہے اور زرمبادلہ سمیٹ کر لاتی ہے۔

ایسے میں اسلام آباد کے شاندار ہال میں وزرا جمع ہوئے، فائلیںکھل گئیں، کمیٹیاں تشکیل پا گئیں اور اسی وقت ایوان اقتدار سے وزیر اعظم شہباز شریف کی آواز بلند ہوئی ’’ ملک میں ماحولیاتی زرعی ایمرجنسی نافذ کی جاتی ہے‘‘ ادھر دیہات کے گلی کوچوں میں پانی ٹھہر چکا تھا۔ فصلیں برباد ہو گئی تھیں۔ متاثرین سے کہا گیا تھا کہ کیمپوں میں چلیں، لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ ہم زیادہ دور نہیں جا سکتے۔

آخر کیوں وہ گویا ہوئے یہاں ایمرجنسی لگی ہوئی ہے، انتظامیہ پریشان تھی، حیران تھی کہ یہ کیسی خود ساختہ ایمرجنسی لگی ہوئی ہے جو کسان کو اس موت کے میدان سے نکلنے نہیں دے رہی۔ خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ حکومت کے پاس چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہیں اور ایسی کشتیاں ان جگہوں پر بھی نہیں جا سکتیں جہاں درخت گرے پڑے ہوں،گھاس پھیلی ہوئی ہو۔

بہت سے لوگ جیسے تیسے کرکے قریبی اونچی جگہ پر پناہ گزیں ہو گئے۔ حکومتی اہلکار کہہ رہے تھے کہ یہاں سے دورکیمپوں میں چلو مگر وہ کہہ رہے تھے ہمیں اپنے گھر نظر آ رہے ہیں، اگر ہم یہاں سے چلے گئے رات کو بڑی بڑی جہاز نما کشتیاں لے کر چور آئیں گے اور سارا سامان، بکریاں، زیورات، بستر، بیڈ اور سب کچھ لاد کر لے جائیں گے۔ حکومت نے تو زرعی ایمرجنسی لگا دی جس کا نتیجہ کب نکلے گا، لیکن چوروں نے ہم پر یہ ایمرجنسی تھوپ دی ہے۔ یہ چور آتے ہیں ہمارا سب کچھ چرا کر لے جاتے ہیں۔

جب نجی کشتی والوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 40 ہزار 50 ہزار کرایہ طلب کر رہے ہیں، لوگوں کو سیلاب سے نکالنے کا۔ ایک طرف پانی بڑھتا جا رہا ہے دوسری طرف حکومتی کشتیوں کے انتظار میں لوگ ڈوب رہے تھے۔ ایسے میں نجی کشتیوں والے آئے اور فی شخص 20 ہزار یا 40 ہزار طلب کر رہے تھے۔

یہ قیمت کسی لوٹ مار سے کم نہیں۔ یہ خبر پہنچی کسی بڑے افسر تک تو اس نے بہت ہی مناسب فیصلہ سنا دیا کہ ان کشتیوں کو ان سے لے کر سرکاری ریسکیو کے اہلکاروں کو دے دیا جائے۔ حکومت رات کے اندھیرے میں آنے والے ان چوروں کو بھی پکڑے جو بڑی بڑی کشتیاں لے کر آ رہے ہیں اور سامان چرا کر لے جا رہے ہیں۔ ان کشتیوں کو بھی پکڑ کر ریسکیو والوں کو دے دیا جائے اور چوروں کو سزا بھی ملنی چاہیے۔وزیر اعظم نے حکام کو یہ ذمے داری دی ہے کہ وہ ایک پروگرام تیار کریں اور ایک روڈ میپ پیش کیا جائے کہ موسمیاتی تغیرات اور زرعی نقصانات سے کس طرح نمٹنا ہے اور ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی جس کی سربراہی احسن اقبال کریں گے۔

وزیر اعظم کے اعلان کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ آیندہ ہفتے تک سامنے آئے گا تاکہ زرعی نقصانات کا اندازہ لگایا جاسکے۔ موسمیاتی تبدیلی قدرتی آفات اور بھارتی آبی جارحیت نے لاعلاج مسائل پیدا کردیے ہیں۔ سیلابی پانی کھیتوں میں کھڑا ہو جائے گا جس کی فوری نکاسی نہیں ہو پائے گی۔ ایمرجنسی کا اعلان تو ہوگیا لیکن کیا اس پر فوری عمل درآمد کی راہ ہموار کر لی گئی ہے۔

کسان کو اس کے کھیت پر کھاد کی بوریاں پہنچائیں۔ وہیں پر اسے اصلی بیج پہنچا دیں۔ زرعی ادویات کا حسب ضرورت مفت اسپرے کرایا جائے۔ چیک دے کر بینک کے چکر نہ کٹوائے جائیں بلکہ بینک کو کسان کے گھر پر حاضرکیا جائے۔

وہیں پر چیک جمع کرے اور فوراً نقد رقم دی جائے۔ مکانات کی تعمیر کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اعلان کیا ہے کہ جزوی نقصان والے مکان کے لیے 5 لاکھ روپے اور مکمل تباہ شدہ مکان کے لیے 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ یہ اعلان محض اعلان نہ رہے بلکہ فوری رقوم فراہم کر دی جائیں۔ ایمرجنسی کے ساتھ پورے ملک کے زرعی ڈھانچے کو مضبوط تر کیا جائے۔ یہ ایمرجنسی حکومتی اقدامات سے اس وقت موثر بنے گی جب عوام کسان، مقامی بلدیاتی نمایندے، نجی تنظیموں اور این جی اوز وغیرہ اور دیگر کو شامل کیا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیا جائے ایسے میں رہے تھے رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی

پنجاب حکومت نے گندم کے معاملے پر کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرادی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران اپوزیشن رکن رانا شہباز نے ایوان میں کسانوں کے گھر چھاپوں کا معاملہ اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے کسانوں کی گندم نہیں خریدی جس سے کسان کا نقصان ہوا، پھر حکومت نے کہا اپنی گندم اسٹور کر لیں اور اب جب کسان نے گندم جمع کرلی تو کسانوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

اس پر اسپیکر اسمبلی ملک احمد خان نے معاملے کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک کسان نے کسی جگہ گندم رکھی ہے وہاں ظاہر ہے کئی کسانوں نے رکھی ہوگی، اب اسی جگہ کو ذخیرہ اندوزی کہا جائے تو یہ مسئلہ ہے۔

اسپیکر اسمبلی نے سوال کیا کہ ایسی صورت حال میں کسان کہاں جائیں؟ انہوں نے ہدایت کی کہ پنجاب حکومت کسانوں کے مسائل کو حل کرے اور صوبائی وزیر ذیشان رفیق معاملے کو دیکھیں کیونکہ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ کسان سے بائیس سو میں گندم خریدی گئی اور آج قیمت چار ہزار پر چلی گئی ہے، اس کو حکومت کو دیکھنا چاہیے اور گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہیں پڑنے چاہیں۔

اس پر پارلیمانی سیکرٹری خالد محمود رانجھا نے کسانوں کے گھروں پر گندم جمع کرنے کے معاملے پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرائی۔

 

متعلقہ مضامین

  • سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں کی مدد کررہے ہیں‘ وزیراعلیٰ سندھ
  • کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ کیا تو فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی، وزیراعلیٰ سندھ
  • دریائے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بند ٹوٹ گئے، دیہات زیرِ آب
  • فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید
  • کسانوں سے گندم 2200 روپے میں خریدی گئی جو آج 4 ہزار تک چلی گئی ہے
  • پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی
  • سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ
  • صدر ٹرمپ کی واشنگٹن ڈی سی میں قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل ایمرجنسی لگانے کی دھمکی دے دی