فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا قصور سیکٹر اور جلال پور پیر والا، ملتان میں فلڈ ریلیف کیمپ کا دورہ WhatsAppFacebookTwitter 0 13 September, 2025 سب نیوز

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے قصور سیکٹر اور جلال پور پیر والا، ملتان میں قائم فلڈ ریلیف کیمپ کا دورہ کیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے قصور سیکٹر اور جلالپور پیروالا، ملتان میں قائم فلڈ ریلیف کیمپ کے دورے کے موقع پر حالیہ سیلابی صورتحال اور جاری امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔

دورے کا مقصد سول انتظامیہ اور فوج کے درمیان مربوط تعاون کو مزید مؤثر بنانا تھا تاکہ متاثرہ آبادی کو بروقت اور مؤثر امداد فراہم کی جا سکے۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری پنجاب اور سول انتظامیہ کے دیگر سینئر حکام بھی موجود تھے جب کہ چیف آف آرمی اسٹاف کو زمینی صورتحال اور جاری ریسکیو و ریلیف آپریشنز پر تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق سول انتظامیہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اچھی طرز حکمرانی اور عوام دوست ترقی کی اہمیت پر زور دیا۔

فیلڈ مارشل نے کہا کہ تمام اقدامات، بشمول بنیادی ڈھانچے کی ترقی، جو بار بار آنے والے سیلابوں کے نقصانات سے عوام کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں، انہیں ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ ریاست ہر سال قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

آرمی چیف نے سیلاب سے متاثرہ افراد سے بھی ملاقات کی، جنہیں پاک فوج اور سول انتظامیہ نے کامیابی سے محفوظ مقامات پر منتقل کیا تھا۔ اس موقع پر متاثرین نے مشکل وقت میں بروقت مدد فراہم کرنے پر پاک فوج کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ریلیف آپریشن میں مصروف جوانوں، ریسکیو 1122 اہلکاروں اور پولیس سے بھی ملاقات کی اور ان کے بلند حوصلے، آپریشنل تیاری اور انتھک عزم کو سراہا۔ فیلڈ مارشل نے کہا کہ مشکل حالات میں قوم کی خدمت کے لیے سول انتظامیہ کے ساتھ قریبی رابطے میں رہتے ہوئے ان کی شب و روز کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔

آرمی چیف نے لاہور-قصور اور ملتان-جلالپور پیروالا محور پر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ بھی کیا تاکہ نقصانات کے پیمانے اور جاری امدادی سرگرمیوں کا براہِ راست جائزہ لیا جا سکے۔

قبل ازیں لاہور اور ملتان کے کور کمانڈرز نے قصور اور ملتان آمد پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا استقبال کیا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرروس میں 7.

4 شدت کے زلزلے سے زمین لرز اُٹھی پنجاب کے بعد سیلاب سندھ میں زور پکڑنے لگا، گڈوبیراج پر پانی کی آمد میں اضافہ، اونچے درجےکا سیلاب ایشیا کپ،پاکستان کا عمان کو جیت کیلئے 161رنز کا ہدف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کے2ریاستی حل کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور سیلاب بھی رکاوٹ نہ بن سکا، دولہا کشتی میں دلہن لے آیا پاسپورٹ بلاک ہونے کا معاملہ، علی امین گنڈا پور نے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی صدرِ مملکت آصف زرداری چین کے سرکاری دورے پر چنگدو پہنچ گئے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر فلڈ ریلیف کیمپ قصور سیکٹر اور ملتان میں

پڑھیں:

سیلاب

نجمہ کی عمر تقریباً 25 سال ہوگی۔ وہ کم عمری میں چار بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کی بیوہ ماں کراچی کے معروف علاقے پی ای سی ایچ ایس میں گھروں میں کام کرتی تھی۔ پی ای سی ایچ ایس کی ایک معزز خاتون استاد نے نجمہ کو اپنے ساتھ اپنے اسکول لے جانا شروع کیا، یوں اس نے میٹرک پاس کر لیا۔ ماں نے اپنے بھتیجے سے نجمہ کی شادی کردی، یوں وہ کراچی سے اپنے گاؤں جلال پور پیر والا میں منتقل ہوگئی تھی۔

نجمہ کا شوہر کا کوئی مستقل روزگار نہیں تھا اور بیوی پر تشدد کرنے میں زیادہ وقت گزارتا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس کی معزز استانی اپنی شاگرد نجمہ کی گاہے بگاہے مدد کرتی رہتی تھی۔ اسے مزید تعلیم کا شوق تھا مگر شوہر کی مرضی نہ ہونے اور گھریلو مصروفیات کی بناء پر اس کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ نجمہ کا آخری ایس ایم ایس یہ ملا تھا کہ اس کا گاؤں سیلابی پانی میں ڈوب گیا ہے اور گھرکا سامان سیلابی پانی ساتھ لے گیا ہے اور کوئی مدد کو نہیں آرہا ہے، پھر نجمہ اور اس کے بچوں پر کیا گزری کوئی نہیں جانتا۔

نجمہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں افراد سیلابی سانحہ سے گزرے۔ ایک عورت نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے چھوٹی سی لکڑی کی کشتی بنالی، عورت ڈوب گئی، امدادی کارکنوں نے بچوں کو بچا لیا۔ ایک شخص اپنی پانچ سالہ بچی کو کندھے پر بٹھائے کئی گھنٹے تک ایک درخت کی ٹہنی سے لٹکا رہا، امدادی کارکن اس کی مدد کو پہنچ گئے۔

جلال پور پیر والا ملتان کی ایک تحصیل ہے۔یہ ملتان شہر سے 98 کلومیٹر فاصلہ پر ہے اور ملتان سے جلال پور پیر والا آنے میں ایک گھنٹہ سے زائد کا وقت لگتا ہے۔ اس کا دوسرا قریبی شہر بہاولپور ہے جو 69.5 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور یہاں تک آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ جلال پور پیر والا کی آبادی 6 لاکھ 8 ہزار افراد اور 15 یونین کونسلز ہیں۔ لوگوں کا روزگار زراعت اور زرعی اشیاء کی تجارت ہے۔ یہاںکے بہت سے افراد نے روزگار کے لیے خلیجی ممالک کا رخ کیا اور زیادہ تعلیم یافتہ افراد امریکا اور کینیڈا بھی منتقل ہوئے۔

 2023کی مردم شماری کے مطابق جلال پور پیر والا تحصیل کا مکمل رقبہ 978 مربع کلومیٹر اور خواندگی کی شرح 48 فیصد ہے جب کہ عورتوں میں خواندگی کا تناسب 28.60 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 3 لاکھ4 ہزار 65 افراد میں سے 1 لاکھ 75 ہزار 919 خواتین ناخواندہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یونانی بادشاہ اسکندر اعظم اور اس کے لشکر نے اس علاقے میں قیام کیا تھا مگر بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ جلال پور پیر والا کا نام یہاں کے معروف بزرگ جلال الدین سرخ پوش بخاری کے نام پر رکھا گیا تھا، یوں یہ ایک تاریخی شہر کہلاتا ہے۔

یہ سی پیک کے منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والے موٹروے کے انتہائی نزدیک ہے مگر حقیقی طور پر اس پورے علاقے کو سی پیک کے کسی بھی منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ جلال پور پیر والا کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہم ہے۔ جنوبی پنجاب اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ چار دریا اس علاقے سے گزرتے ہیں جن میں مشرق میں دریائے ستلج، شمال مشرق میں دریائے راوی، مغرب میں دریائے چناب اور دریائے سندھ بہتا ہے۔ دریائے ستلج اور دریائے چناب پیر والا کے خان بیلہ کے مقام پر اکٹھے ہوتے ہیں اور وہاں سے 27 کلومیٹر دور دریائے چناب کا پانی ہیڈ پنجند میں دوسرے دریا سے مل جاتا ہے۔

 گلوبل وارمنگ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کے عوام اگلے کئی برسوں تک ماحولیاتی تباہ کاریوں کا شکار رہے گا۔ اس سال پہلے گلگت بلتستان میں تباہ کن بارشیں ہوئیں۔ اس کے ساتھ کوہِ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں گلیشیئر پگھلنے کا سلسلہ شروع ہوا، یوں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں زبردست تباہی آئی۔ گلیشیئرز اور بارشوں کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوا۔ خیبر پختون خوا میں طوفانی بارشوں نے ریکارڈ تباہی مچائی۔ بونیر میں جو تباہی مچائی، یہ ایک انسانی المیے میں تبدیل ہوگئی۔

سیاحتی مقام سوات میں بارش نے الگ تباہی مچائی۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش اور مقبوضہ کشمیر میں زبردست بارشوں نے دریائے راوی ، چناب اور جہلم میں طغیابی پیدا کی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، مدہیہ پردیش اور یو پی میں طوفانی بارشوں نے وہاں تعمیرکیے گئے تین ڈیموں کو تباہ کیا اور سیکڑوں بستیوں کو بھی اجاڑ دیا۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریا راوی، بیاس اور ستلج کا پانی بھارت کے حصے میں چلا گیا تھا مگر جب بھارت نے طوفانی بارشوں کے پانی کو راوی، بیاس اور ستلج میں منتقل کردیا اور اس پانی سے لاہور، سیالکوٹ، گجرات سے لے کر جنوبی پنجاب میں تباہی مچنا شروع ہوئی تو اس پانی نے پہلے ملتان شہر کے کچے کے علاقے میں تباہی مچائی۔ پھر ملتان کی مختلف تحصیلوں شجاع آباد، شیر شاہ، جلال پور پیروالا میں تباہی مچا دی۔ ملتان کے نوجوان صحافی جودت ندیم سید نے شجاع آباد جلال پور پیروالا کے تفصیلی دورے کے بعد لکھا ہے کہ اس پورے علاقے میں سیلابی پانی کی تباہی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس علاقے سے ملنے والی رپورٹوں کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ہزاروں افراد ایک ہفتہ سے زیادہ عرصہ تک پانی میں گھرے رہے۔

اس پورے علاقے میں سرکاری کشتیوں کی قلت تھی۔ کچھ لوگ پرائیویٹ کشتیاں چلانے لگے۔ ان پرائیویٹ کشتی والوں نے غریب لوگوں سے منہ مانگی رقم طلب کی ۔ جن لوگوں نے یہ رقم ادا کی، و ہ اپنے مویشیوں سمیت محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے اور جن لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے وہ پانی میں گھرے رہ گئے۔ ٹی وی چینلز کے اسکرین پر ان غریب مردوں اور عورتوں کی فریاد سنائی دی جاتی رہی۔ پھر یہ شکایت عام تھی کہ خیموں میں آباد خواتین کے لیے بیت الخلاء کی سہولتیں موجود نہیں تھیں۔

بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ شیر خوار بچوں کو دودھ فراہم نہیں کیا گیا۔ کشتیوں کی کمی کی وجہ سے کئی حادثات رونما ہوئے۔ عام لوگوں میں عدم اعتماد اور نظم و ضبط کے فقدان کی بناء پر مشکل سے دستیاب ہونے والی کشتی میں ضرورت سے زیادہ افراد سوار ہونے سے کشتی الٹ گئی۔ ان حادثات میں کئی جانیں ضایع ہوئیں۔ انتظامیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ سیلاب میں گھرے ہوئے علاقوں میں گھرے ہوئے بعض افراد آخری وقت تک گھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے، جس کی بناء پر اپنے گاؤں میں وہ لوگ تنہا رہ گئے۔

اس بناء پر ان افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں دیر ہوئی، مگر متاثرہ افراد کا یہ مؤقف ہے کہ ان کے سامان اور مال مویشیوں کو چوری ہونے کی بہت وارداتیں ہوئیں۔ عجیب بات ہے کہ چوروں کی کشتیاں آرام سے سیلابی پانی میں سفر کرتی رہیں اور غریب لوگ بے بسی کا شکار رہے۔ ان علاقوں کا دورہ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں کے منتخب اراکین ووٹروں سے دور رہے، اگر منتخب اراکین اور ان کے کارکن عوام کو متحرک کرتے اور لوگوں کو یقین دلایا جاتا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ دیں، ان کا سامان اور مال مویشی چوری نہیں ہوںگے تو انتظامیہ کے کاموں میں آسانی ہوجاتی۔

پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے جب پیر والا کا دورہ کیا اور ان کے علم میں پرائیویٹ کشتی مالکان کی لوٹ مارکے واقعات لائے گئے تو انھوں نے یہ حکم دیا کہ تمام پرائیویٹ کشتیاں ضلع انتظامیہ کی نگرانی میں دی جائیں تاکہ غریب افراد اپنے تباہ ہونے والے گھروں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہوسکیں۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی نگرانی میں امدادی سرگرمیوں میں تیزی آئی مگر پھر بھی ہزاروں افراد اونچے مقامات اور موٹروے پر امداد کی منتظر تھے۔

 سیلاب نے جنوبی پنجاب میں زبردست تباہی مچائی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کا شکار ان علاقوں میں ہر سال سیلاب آسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جو ایک اچھا اقدام ہے مگر اس ایمرجنسی میں ایسی منصوبہ بندی ہونی چاہیے جس سے آیندہ اس علاقے کا مستقبل محفوظ ہوجائے اور پھر کسی نجمہ کے خواب بکھر نہ پائیں۔

متعلقہ مضامین

  • سعودیہ سے معاہدے کی تیاری و تکمیل میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار ہے
  • افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دہشتگرد گروہوں کے 60 سے زائد کیمپ فعال ہیں:پاکستان
  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار
  • امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر کا قصور میں فلڈ ریلیف کیمپ کا دورہ
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
  • سیلاب
  • امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر کا سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
  • مظفر گڑھ: سیلاب متاثرین امدادی سامان کیلئے لڑ پڑے‘ متعدد کی حالت غیر