data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی سینٹرل بینک (فیڈرل ریزرو) نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے کو مانتے ہوئے شرح سود میں کمی کر دی ہے، جو گزشتہ سال دسمبر کے بعد پہلی کمی ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق شرح سود میں 25 بیسز پوائنٹس کمی کی گئی ہے جس کے بعد شرح سود 4.

25 فیصد سے کم ہو کر 4 فیصد ہوگئی۔ یہ فیصلہ فیڈرل اوپن مارکیٹ کمیٹی (FOMC) نے کیا ہے۔

اس فیصلے میں اختلاف بھی سامنے آیا۔ نئے گورنر اسٹیفن میران نے 0.5 فیصد پوائنٹ کمی کا مطالبہ کیا تھا، تاہم گورنرز مشیل بومن اور کرسٹوفر والر، جن کے بارے میں اختلاف رائے کی توقع تھی، انہوں نے بھی 0.25 فیصد پوائنٹ کمی کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ تینوں گورنرز صدر ٹرمپ کے مقرر کردہ ہیں، اور صدر کئی مہینوں سے فیڈ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ شرح سود میں تیز اور بڑی کمی کی جائے۔

ماہرین کے مطابق شرح سود میں کمی سے امریکی لیبر مارکیٹ کو سہارا ملے گا اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اس کے علاوہ امریکی ٹیرف پالیسی کے باعث سست روی کا شکار معیشت کو بھی سہارا ملنے کی امید ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شرح سود میں کمی سے قرض لینے کی لاگت کم ہوگی، جس سے معاشی سرگرمیوں میں بہتری آئے گی اور مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کے ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق عدالت نے قرار دیا ہے کہ وفاقی سطح پر ووٹ ڈالنے کے لیے شہریوں سے شہریت کا ثبوت طلب کرنا آئین کے منافی ہے اور صدرِ مملکت کو ایسا حکم دینے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال مارچ میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ شرط عائد کی تھی کہ امریکا میں ووٹ ڈالنے والے ہر شہری کو اپنی شہریت کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ اس اقدام سے غیر قانونی تارکین وطن کی ووٹنگ میں مبینہ مداخلت روکی جا سکے گی، تاہم عدالت نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ امریکی آئین کے تحت ووٹنگ کے اصولوں اور اہلیت کا تعین صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدرِ مملکت کو اس بارے میں کسی نئی پابندی یا شرط لگانے کا اختیار حاصل نہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ووٹ کا حق بنیادی جمہوری اصول ہے، جس پر انتظامی اختیارات کی بنیاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی قوانین پر جاری بحث کو مزید شدت دے گا۔ ریپبلکن پارٹی کے حلقے اس فیصلے کو  غلط سمت میں قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے حقِ رائے دہی کے تحفظ کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔

مبصرین کے مطابق ٹرمپ کا یہ اقدام انتخابی شفافیت کے نام پر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش تھی جب کہ مخالفین کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مقصد اقلیتوں اور کم آمدنی والے طبقے کے ووٹ کو محدود کرنا تھا، جو زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • امریکی صدر نائیجیریا کو دھمکی:  اگر عیسائیوں کا قتل نہ رُکا تو بندوقوں کے ساتھ جائیں گے
  • ٹرمپ کی 2026 ء کیلیے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت کردی
  • روس کے یوکرین سے سخت مطالبات، پیوٹن ،ٹرمپ ملاقات منسوخ کردی گئی
  • وفاقی ملازمین کے ہائوس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور