63 سالہ خاتون نے آدھی عمر کے نوجوان سے شادی کرلی
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جاپان میں ایک 63 سالہ خاتون نے اپنے سے 32 سال چھوٹے 31 سالہ نوجوان سے شادی کرکے سب کو حیران کردیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خاتون کا بیٹا، اس کے دوسرے شوہر سے چھ سال بڑا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ انوکھا رشتہ کامیاب اور خوشگوار ثابت ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق Azarashi نامی خاتون کی پہلی شادی تقریباً 20 سال تک قائم رہی لیکن 48 سال کی عمر میں ان کا تعلق طلاق پر ختم ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے تنہا بیٹے کی پرورش کی اور زندگی گزارنے کے لیے پالتو جانوروں کے لباس فروخت کرنے کا کاروبار شروع کیا۔ کئی ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تنہا ہی زندگی گزاریں گی۔
البتہ قسمت نے ان کے لیے کچھ اور طے کر رکھا تھا۔ اگست 2020 میں ٹوکیو کے ایک کیفے میں Azarashi کو ایک موبائل فون ملا جسے لینے کے لیے ایک نوجوان واپس آیا۔ کچھ دنوں بعد دونوں ایک ٹرام میں دوبارہ ملے اور فون نمبرز کا تبادلہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے ہر رات بات کرنے لگے اور آہستہ آہستہ ان کے درمیان ایک گہرا رشتہ قائم ہوگیا۔ خاتون کے مطابق انہیں احساس ہوا کہ یہ نوجوان انہیں دل سے چاہنے لگا ہے اور یہی جذبہ ان کی زندگی میں خوشیاں لے آیا۔
کئی ماہ بعد دونوں کو ایک دوسرے کی اصل عمروں کا علم ہوا مگر حیرت انگیز طور پر اس کا تعلق پر کوئی منفی اثر نہ پڑا۔ Azarashi کے بیٹے نے بھی اپنی والدہ کے اس رشتے کی حمایت کی، اگرچہ نوجوان کی والدہ نے ابتدا میں اعتراض کیا کیونکہ وہ Azarashi سے بھی چھوٹی تھیں۔ تاہم بیٹے کے اصرار پر وہ بھی مان گئیں۔
یہ جوڑا دسمبر 2022 میں رشتہ ازدواج میں بندھا اور اب شادی کو تین سال ہوچکے ہیں۔ دونوں گھریلو زندگی خوشی سے گزار رہے ہیں اور ایک میرج ایجنسی بھی چلا رہے ہیں۔ Azarashi کا کہنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مزاحیہ انداز میں “پرنس” اور “پرنسز” کہتے ہیں اور مستقبل میں جو بھی ہوگا، وہ اسے ہنسی خوشی قبول کریں گے۔ یہ کہانی اس بات کی مثال ہے کہ عمر صرف ایک عدد ہے اور اصل اہمیت سچے جذبے اور محبت کی ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
گھوٹکی میں سیلاب، 60 سالہ خاتون ہنر کی بدولت اپنے بچوں کا سہارا بن گئیں
گھوٹکی میں دریائے سندھ کے اونچے درجے کے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو نقل مکانی کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ایک خاتون نے حالات سے ہار ماننے کے بجائے اپنے روایتی ہنر کو سہارا بنالیا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں بہت سے گھروں کو اجاڑ گئیں، مگر حوصلے اور ہنر کے ساتھ جینے کی جستجو آج بھی زندہ ہے۔ سیلاب سے متاثر دریائے سندھ میں واقع ضلع گھوٹکی کے گاؤں ابرو لکھن کی 60 سالہ مائی ڈاتول نے اپنے ہاتھوں کی محنت سے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے پالتو جانوروں کا بھی سہارا بن کر سب کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
جلال پور پیروالا سے پانی نہ نکالا جاسکا، ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویزمحکمہ انہار نے پر موٹروے پر شگاف ڈالنے کو انتہائی ضروری قرار دیا، چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور متعلقہ حکام پر مشتمل کمیٹی آج جائزہ لے گی۔
یہ بہادر خاتون مختلف رنگوں کے دھاگوں اور شیشہ کا استعمال کرکے سندھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب نے سب کچھ بہا دیا، مگر میرے ہاتھوں کا ہنر میرے ساتھ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھوکے نہ سوئیں اور جانور بھی زندہ رہیں۔ مشکل حالات کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
حالیہ سیلاب میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کے تمام گھر سیلابی پانی میں ڈوب گئے تھے، روڈا اور ایل ڈی اے سے دریائے راوی کی زمین پر غیر قانونی سوسائٹیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب میں گھر بہہ گیا، مجبوری ہے اب یہاں بیٹھے ہیں، بچیوں کیلئے ٹینٹ ملا ہے مگر کھانا خوراک کچھ نہیں دیا ابرو کے گاؤں سے آئے ہیں۔
خاتون نے مزید کہا کہ ٹوپیاں بناتی ہوں، اس میں ایک سے دو ہفتے لگ جاتے ہیں اور 500 سے ایک ہزار میں فروخت ہوتی ہے، سات بچے ہیں ان کا کھانا پورا کروں یا مال مویشی کا چارہ پورا کروں۔
مقامی لوگ بھی اس خاتون کے حوصلے کو سراہتے ہیں اور انہیں ایک جیتی جاگتی مثال قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور سماجی ادارے ایسے باہمت سیلاب متاثرین کی مدد کریں تو یہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ اس عارضی خیمہ بستی میں مکین خاندانوں کیلئے روشنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔