امریکی پابندیوں سے چھوٹ کا خاتمہ: بھارت کی چابہار حکمت عملی پر کاری ضرب
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
چابہار ایران کی ایک بندرگاہ ہے جو خلیجِ عمان سے جڑی ہے۔ یہ بحیرہ عرب کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے جغرافیائی لحاظ سے ایک انتہائی اہم مقام رکھتا ہے۔
چابہار بندرگاہ کو ‘گیٹ وے ٹو سینٹرل ایشیا’ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ افغانستان، وسطی ایشیائی ممالک اور ایران کو سمندر سے جوڑنے کا ایک متبادل راستہ فراہم کرتی ہے جو پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے مقابلے میں بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: چابہار بندرگاہ چلانے کے لیے بھارت کا ایران سے معاہدہ
واضح رہے کہ چابہار بندرگاہ کی ترقی میں سنجیدگی 2000 کی دہائی میں سامنے آئی لیکن بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے بندرگاہ کی توسیع اور انتظام میں سرگرم کردار ادا کیا۔ اس کا مقصد پاکستان کو بائی پاس کرکے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کرنا تھا۔ 2018 میں بھارت نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا رسمی طور پر آپریشنل کنٹرول بھی سنبھالا۔
ایران کی چابہار بندرگاہ، جو طویل عرصے سے بھارت کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ سمجھی جاتی تھی، اب امریکی پابندیوں کی نئی لہر کی زد میں آ گئی ہے۔ 29 ستمبر 2025 کو امریکا کی طرف سے بھارت کو دی گئی پابندیوں سے چھوٹ واپس لینے کے بعد چابہار پر بھارتی سرگرمیاں غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: چین اور بھارت پر روسی تیل خریدنے پر 100 فیصد ٹیرف لگایا جائے، ٹرمپ کا یورپی یونین سے مطالبہ
یاد رہے کہ چابہار بندرگاہ کی آپریشنل سرگرمیان انڈیا پورٹس گلوبل لمیٹڈ کمپنی سنبھالتی ہے جو بھارت کی وزارت بندرگاہ، جہاز رانی و آبی نقل و حمل کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ کمپنی بندرگاہ کے ایک مخصوص حصے، ’شہید بہشتی ٹرمینل‘ کا انتظام سنبھالی ہوئی ہے۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ امریکا کی جانب سے بھارت کو دی گئی چھوٹ کی واپسی کے بعد چابہار بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا بھارت کے لیے چابہار بندرگاہ اب بھی ایک قابلِ عمل اسٹریٹیجک آپشن ہے یا اسے متبادل راستے تلاش کرنے ہوں گے؟ اس کے علاوہ بھارت کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے امکانات اب کس حد تک متاثر ہوں گے؟
ماہر معاشیات عابد سلہری کا کہنا تھا کہ امریکا نے 29 ستمبر 2025 سے بھارت کو دی گئی وہ چھوٹ ختم کر دی ہے جو اسے ایران کی چابہار بندرگاہ پر کام کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ اب دوبارہ سے بھارت اور دیگر ملکوں کو ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ پر کام کرنے پر امریکی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت کے لیے اس بندرگاہ میں مزید سرمایہ کاری، توسیع اور دیگر سرگرمیاں زیادہ خطرناک ہو گئی ہیں کیونکہ انہیں امریکی سزاؤں کا خدشہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چابہار بندرگاہ بھارت کے لیے افغانستان اور وسطی ایشیا تک پہنچنے کا ایک اہم راستہ تھی، جو پاکستان کو نظرانداز کر کے استعمال کیا جاتا تھا۔ بھارت نے اس بندرگاہ کے ذریعے پاکستان کے گوادر بندرگاہ کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔
عابد سلہری کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے امریکا کا یہ فیصلہ بندرگاہوں کے درمیان علاقائی مقابلے کی صورتحال کو بدلتا ہے۔ اب بھارت کے لیے چابہار کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سے بھارت کی علاقائی طاقت کم ہو گی اور پاکستان کے کراچی اور گوادر جیسے بندرگاہوں کی اقتصادی اور تزویراتی (اسٹریٹجک) اہمیت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چابہار بندرگاہ مکمل طور پر ایران کے کنٹرول میں ہے اور فعال رہے گی۔ امریکا کی پابندیاں اور بدلتی بین الاقوامی شراکت داریاں غیر ملکی سرمایہ کاری کو مشکل بنا سکتی ہیں مگر یہ ایران کی بندرگاہ پر خودمختاری یا اسے اہم علاقائی منصوبے کے طور پر چلانے کے ارادے کو نہیں روک سکتیں۔
یہ بھی پڑھیے: نیوگوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ تجارت اور رابطوں کو آسان بنانے میں مصروف عمل
معاشی ماہر راجہ کامران کا کہنا تھا کہ عالمی اسٹریٹیجک سیاست میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں نے خطے کی بندرگاہوں کی اہمیت کو ازسرِ نو واضح کر دیا ہے اور اسی تناظر میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنتی جا رہی ہے۔
راجہ کامران کے مطابق گوادر کی جغرافیائی پوزیشن، قدرتی گہرے پانی کی بندرگاہ ہونے اور اس میں موجود جدید سہولیات کی بدولت یہ بندرگاہ مستقبل قریب میں خطے کی سب سے مؤثر اور متحرک اسٹریٹیجک بندرگاہ بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
ان کے مطابق، مئی 2025 کے بعد سے ہی بھارت کی علاقائی برتری واضح طور پر کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت کی اندرونی و بیرونی پالیسیوں نے اسے اپنے قریبی ہمسایہ ممالک چین، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش سے بدظن اور الگ تھلگ کر دیا ہے۔ چین کے ساتھ لداخ کے محاذ پر تناؤ اور سرحدی جھڑپوں نے بھارت کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کے ساتھ ٹیکنیکل وارفیئر میں برتری حاصل کرنے کی کوششیں بھی محدود نتائج ہی دے سکیں۔
راجہ کامران کے مطابق امریکا اور بھارت کے تعلقات میں بھی سرد مہری واضح ہے، خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے پس منظر میں۔ حالانکہ یہ دوری وقتی ہو سکتی ہے، تاہم ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں امریکا خاص طور پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک بار پھر افریقہ اور بھارت کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ادھر ایران کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ چابہار بندرگاہ، جسے بھارت نے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے ایک اسٹریٹیجک گیٹ وے کے طور پر اپنایا، امریکی پابندیوں کی نئی لہر کے سبب متاثر ہو رہی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ چابہار کو چین پاکستان اقتصادی راہداریکا حصہ بنایا جائے، لیکن تجزیاتی سطح پر چابہار، گوادر کا متبادل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
یہ بھی پڑھیے: گوادر شپ یارڈ کی تعمیر میں مقامی سطح پر روزگار کو مرکزی حیثیت دی جائے گی، اسحاق ڈار
راجہ کامران نے کہا کہ چابہار ایک کم گہرے پانی کی بندرگاہ ہے، جہاں بڑے بحری جہازوں کی آمد محدود ہے، جبکہ گوادر ایک قدرتی ڈیپ سی پورٹ ہے، جہاں بیک وقت کئی بڑے کارگو جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ گوادر کی اسٹریٹیجک اہمیت کو قومی ترجیح بناتے ہوئے اس کی فعالیت، انفراسٹرکچر اور عالمی شراکت داری پر تیزی سے کام کرے۔ علاقائی دشمنیوں اور سفارتی تنازعات کو قومی مفاد کے زاویے سے دیکھنے اور ان سے بلند ہو کر فیصلے کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ گوادر، پاکستان کے لیے صرف ایک بندرگاہ نہیں بلکہ عالمی تجارت اور اثر و رسوخ کا دروازہ بن سکتا ہے بشرطیکہ اسے عملی طور پر فعال بنانے میں سیاسی سنجیدگی دکھائی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
CHABAHAR PORT GWADAR PORT چابہار پورٹ گوادر پورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چابہار پورٹ گوادر پورٹ افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی امریکی پابندیوں گوادر بندرگاہ ہے کہ چابہار بھارت کے لیے راجہ کامران پاکستان کے بندرگاہ کے کی بندرگاہ ان کا کہنا بھارت نے سے بھارت بھارت کو بھارت کی ایران کی کے ساتھ سکتا ہے
پڑھیں:
سلامتی کونسل :ایران پر پابندیوں میں نرمی کی قرارداد مسترد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-01-9
نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پر اقتصادی پابندیاں مستقل طور پر اٹھانے کے خلاف ووٹ دے دیا، جو تہران کے لیے ایک بڑا اقتصادی دھچکا ہے، جسے ایران نے سیاسی جانبداری قرار دیا۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل میں پابندیوں کو روکنے کی قرارداد 4 کے مقابلے میں 9 ووٹ سے ناکام ہو گئی، جس کا مطلب ہے کہ اگر اس سے پہلے کوئی بڑا معاہدہ نہ ہوا تو یورپی پابندیاں 28 ستمبر تک دوبارہ نافذ ہو جائیں گی۔روس، چین، پاکستان اور الجزائر نے پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو روکنے کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ سلامتی کونسل کے 9 اراکین نے پابندیوں میں نرمی کے خلاف ووٹ دیا، 2 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔واضح رہے کہ اگست کے آخر میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے کہا تھا کہ اگر تہران مطالبات پورے نہ کرے تو پابندیاں دوبارہ نافذ کر دی جائیں، جس کے بعد 30 روز کے بعد یہ عمل شروع ہوا۔دوسری جانب ایرانی حکام نے الزام لگایا ہے کہ3 یورپی ممالک پر 2015ء کے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے معاہدے کو غلط استعمال کر رہے ہیں، جو ’اسنیپ بیک میکانزم‘ کے تحت پابندیاں لگانے کی اجازت دیتا ہے۔ایران کے نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے کہا کہ جو کچھ یورپی کر رہے ہیں وہ سیاسی جانبداری اور سیاسی مقاصد پر مبنی ہے اور وہ کئی حوالے سے غلط ہیں کیونکہ وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان (جے سی او پی اے) میں شامل میکانزم کو غلط استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔