ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں ملزم عمر حیات پر فرد جرم عائد
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 ستمبر2025ء ) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں عمر حیات پر فرد جرم عائد کردی، ملزم نے صحت جرم سے انکار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد محمد افضل مجوکا نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت جج نے ملزم سے استفسار کیا کہ ’ثناء یوسف کو آپ نے قتل کیا ہے اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘، ملزم عمر حیات نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ایسا کوئی بھی جرم نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے‘، جس پر عدالت نے کہا کہ ’آپ کے اوپر الزام ہے کہ آپ نے ثناء یوسف کا موبائل فون بھی چھینا‘، ملزم نے جواب دیا کہ ’میرے اوپر جو بھی الزامات لگائے گئے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہیں‘، جس پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کردی۔
(جاری ہے)
بتایا جارہا ہے کہ ملزم عمر حیات کے خلاف تھانہ سنبل میں قتل کا مقدمہ درج ہے، قبل ازیں یہ کہا جارہا تھا کہ ملزم کے خلاف درج ایف آئی آر میں قانونی کمزوریاں سامنے آئی ہیں، تمام تر شہادتیں اکٹھی کرلی جائیں تو بھی ملزم عمر حیات کوسزا دلوانا مشکل ہوگا، سب سے پہلی کمزوری نشان زد کی گئی کہ ایف آئی آر میں عینی شہادت موجود نہیں، ایف آئی آر ٹمپرڈ لگتی ہے، مقدمہ کی مدعیہ مقتولہ کی والدہ کا ایک مؤقف میڈیا کی زینت بنا کہ وہ گھر سے باہر تھیں لیکن ایف آئی آر میں انہیں گھر پر ظاہرکیا گیا، علاوہ ازیں ایف آئی آر میں صرف پستول کا لفظ بھی ادھورا ہے، مقدمے میں وجہ عناد کا ذکر نہیں اور ملزم نامعلوم تھا ، ساری شہادتیں تکنیکی بنیادوں پر لی گئیں اور چالان بھی تکنیکی بنیادوں پر تیار ہوگا، بعد ازاں معروف ٹک ٹاکر ثناء یوسف قتل کیس میں فیڈرل پراسیکیوٹر نے 2 رکنی ٹیم مقرر کی تھی۔ خیال رہے کہ معروف انفلوئنسر ثناء یوسف کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا تھا ، ثنا یوسف کو اسلام آباد کے علاقے جی تیرہ میں ان کے عزیزوں کے ہاں نامعلوم ملزم نے گھر میں داخل ہو کر فائرنگ کرکے قتل کیا، ثناء یوسف کا تعلق اپر چترال کے علاقے چوئنج سے تھا اور وہ مشہور سماجی کارکن اور تحریک تحفظ حقوق چترال کے سرگرم رُکن یوسف حسن کی صاحبزادی تھیں جنہوں نے بتایا کہ قتل سے کچھ دیر پہلے ثناء نے والدہ کو یہ کہہ کر مارکیٹ بھیجا تھا کہ عید آ رہی ہے کپڑے دھونے ہیں، آپ مارکیٹ سے سرف لادیں جس کے بعد قاتل نے اسی موقع سے فائدہ اٹھایا اور گھر کے اندر گھس کر ثناء کو گولیاں ماردیں، تاہم قاتل گھر میں کیسے داخل ہوگیا اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں لیکن اس وقت گھر میں کوئی مرد موجود نہیں تھا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملزم عمر حیات اسلام آباد ثناء یوسف
پڑھیں:
آبِ حیات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250920-03-5
ایڈووکیٹ مدثر اقبال
’’اہداف طے کرنا وہ پہلا قدم ہے جو ناممکن کو ممکن میں بدل دیتا ہے‘‘۔ ٹونی رابنز انسانی زندگی میں مقصد نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مقصد کے بغیر گویا زندگی ایک ایسے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی مانند ہو جس کی کوئی منزل ہی نہ ہو۔ جہاں انسانی زندگی کوششوں اور کاوشوں کے جیسے حسین امتزاج سے مزین ہوتی ہے وہیں توکل خلوص نیت اور منزل کا ہونا بھی انتہائی اہم ہے۔ آپ کے پاس توکل کوشش اور خلوص نیت جیسے اوصاف تو موجود ہیں لیکن آپ کے ذہن میں منزل کا خاکہ نہیں ہے تو آپ کی کوششیں رائیگاں اور بے معنی ہو جاتی ہیں۔ اگر فرض کریں کہ منزل کا تصور تو موجود ہے مگر آپ اس تصور سے انحراف کرتے اورآپ ذہنی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں تو یقینا آپ اپنی منزل سے دور ہو جائیں گے آپ اپنے مقصد کو چھوڑ دیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ایک سائیکل ریس میں حصہ لیتے ہیں۔ اس ریس میں مشرق کی جانب ایک منزل مقرر کر دی جاتی ہے تمام سائیکل سوار ایک ہی سمت میں اپنی تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہیں اور پہیے کی گردش کو اپنی طاقت سے تیز سے تیز تر کرنے کی جستجو میں مگن ہیں۔ چند کلومیٹر کے بعد جس شاہراہ پہ آپ چل رہے ہوتے ہیں اسی شاہراہ سے آپ کو چکمہ دینے کے لیے دوسری سمت ایک جاذب نظر، خوشنما اور مسحور کن رستہ مغرب کی جانب نکال دیا جاتا ہے۔ ریس کے کچھ شرکاء اس مغربی رستے کی رعنایوں اور جاذبیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا رخ اس جانب گامزن کر دیتے ہیں تو وہ ناکام ہو جائیں گے وہ اپنی منزل سے بھٹک جائیں گے۔ ان کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔
آپ کا مقصد جو آپ کی منزل کا تعین کرتا ہے جو آپ کا خواب ہے آپ کے منتشر ذہن اور خیالات سے وہ ادھورا رہ جائے گا۔ اگرآپ کا مقصد عظیم ہے اعلیٰ و ارفع ہے آپ کے دل کی تسکین کا باعث ہے تو اپنے مقصد کو معمولی رعنایوں کے لیے قربان مت کریں۔ ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی کی شائع شدہ ریسرچ کے مطابق دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے ہر شخص کوشش کرتا ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت میں شامل ہے۔ لیکن چند ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی گود میں کامیابی آگرتی ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق اگر آپ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل کی جستجو میں ہیں اور آپ کچھ خاص حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو آپ کے ذہن میں اپنے خواب اپنی منزل اپنی جستجو کا ایک خاکہ ایک واضح تصور ہونا چاہے۔ آپ کا ایک مستقل مقصد ہونا چاہے۔ کیونکہ یہ آپ کا مقصد ہی ہوتا ہے جس کے لیے آپ کوشش کرتے ہیں۔
کہاوت ہے اپنے ذہن میں عظیم سے عظیم مقصد، خواب یا منزل کی پرورش کرو کیونکہ آپ کی کوشش بھی آپ کے ذہن میں موجود آپ کے خواب کے مطابق ہی ہو گی۔ جب آپ کے ذہن میں ایک واضح مقصد موجود ہو تو آپ اپنے ذہن کو منتشر نہ ہونے دیں بلکہ مستقل مزاجی، مسلسل محنت اور مرکوز توجہ کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پورے اعتماد اور تسلسل سے اپنے خواب کو پورا کرنے کی کوشش میں مگن رہیں۔ مائیکرو مینجمنٹ کے تحت معمولی معمولی اقدامات کے ذریعے اپنی منزل کی جانب گامزن رہیں۔ اپنی کوششوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کریں اور تقسیم شدہ حصوں کے مطابق انہیں مکمل کریں انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ فرض کریں آپ کرمنالوجی میں کے امتحان میں نمایاں پوزیشن پہ براجمان ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو مستقل مزاجی سے اپنی لگن اور کوشش سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہونا پڑے گا۔ آپ روزانہ اگر دن اور رات کو دو دو گھنٹے کرمنالوجی کے موضوع پہ ورق گردانی کرتے ہیں تو ایک ماہ میں آپ 120 گھنٹے اپنی منزل اپنے مقصد کی خاطر قربان کرتے ہیں۔ یہی چھوٹے چھوٹے اقدامات ایک دن آپ کو اپنی منزل پہ پہنچا دیں گے۔ لیکن اگر آپ یا تو محنت ہی نہیں کرتے یا آپ یہ تہیہ کرتے ہیں کہ میں امتحانات کے دنوں میں پڑھ لوں گا اور اپنے مقصد سے انحراف کرتے ہیں تو پر کامیابی کا حصول ناممکن تو نہیں کٹھن ضرور ہو جائے گا۔ جب آپ کے ذہن میں ایک واضح مقصد ہوتا ہے تو یہ آپ کی زندگی کو ایک نئی جہت اور تحریک دیتا ہے یہ آپ کے شعور اور لاشعور میں براجمان ہو جاتا اور پھر یہ آپ کو اس کے حصول کے لیے اس کی جستجو کے لیے کوششوں کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
ڈومینیکن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق تقریباً 70 فی صد لوگ جنہوں نے اپنے مقاصد دوستوں یا خاندان کے ساتھ شیئر کیے، وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے برعکس، صرف 35 فی صد لوگ جنہوں نے اپنے مقاصد کو بنا تحریر اپنے تک محدود رکھا، کامیابی حاصل کر سکے۔ منتشر اور الجھے ہوئے ذہن کبھی اپنی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگ کبھی کامیابی کے رستے پہ گامزن نہیں ہو سکتے جو اپنے مقصد اور منزل کے حصول کی خاطر آدھا سفر طے کرنے کے بعد واپس ہو کر کسی نئی منزل کا انتخاب کر بیٹھیں اور پھر الجھاؤ اور تناؤ کا شکار ہو جائیں۔ جب آپ اپنے مقاصد اپنی جستجو یا خواب کو کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو یقینا آپ پھر اپنے آپ کو اس کواب کے بارے میں جواب دہ بھی تصور کرتے ہیں آپ کے قریبی آپ کی منزل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وہ محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کا من پسند شخص اپنی منزل کی جانب گامزن ہے اور وہ اسے حاصل کر کے ہی رہے گا۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں آپ کو حوصلہ دیتے ہیں اور آپ کی کامیابی پہ تالیاں بھی بجاتے ہیں۔
ریلائی ایبل پلانٹ کی ریسرچ کے مطابق 92 فی صد لوگ اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کر پاتے یہ ریسرچ اس بات کو یوں بیان کرتی ہے کہ لوگ اکثر ناکام اس لیے ہوتے ہیں کہ ان میں عزم کی کمی ہوتی ہے، وہ بہت آسان مقاصد طے کر لیتے ہیں، عمل نہیں کرتے، اور کامیابی یا ناکامی کے خوف کا شکار رہتے ہیں۔ یا پھر منتشر ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلائی ایبل پلانٹ کی ایک تحقیق کے مطابق بہت سے لوگ ایک نفسیاتی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں جسے ’’تجزیاتی مفلوجیت‘‘ (Analysis Paralysis) کہا جاتا ہے۔ یعنی، وہ شکوک و شبہات کی وجہ سے رْک جاتے ہیں اور آگے بڑھنا نہیں چاہتے جب تک کہ ہر ’’اگر ایسا ہو جائے تو؟‘‘ والے سوال کا جواب نہ مل جائے۔ نتائج کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے اپنے اہداف سے آغاز کریں۔
اس ریسرچ کے مطابق محض آٹھ فی صد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصد اپنی منزل کو تعین کر کے اس کو حاصل کر لیتے ہیں آخر ایسی کون سی خوبیاں یا صلاحیتیں ہیں جو یہ ممکن بنا دیتی ہیں کیا ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں کیا یہ لوگ حد سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں کیا یہ عام انسان نہیں ہوتے۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے یہ عام انسان کی طرح ہی ہوتے ہیں یہ بھی نارمل انسانوں کی جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ان میں مستقل مزاجی، مسلسل محنت و لگن اور اپنے مقاصد اپنے خوابوں سے محبت جیسے اوصاف شامل ہوتے ہیں جیسا کہ ان لوگوں کا ایک مخصوص ہدف، مقصد اور خواب ہوتا ہے جو بہت آسان تو نہیں لیکن قابل حاصل ضرور ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے پرجوش ہوتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں اور مستقل مزاج رہتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی ہوتی ہے حاصل کرنے کا جذبہ ہوتا ہے وہ منتشر نہیں ہوتے۔ وہ اپنے مقاصد شیئر کرتے ہیں اپنے پسندیدہ لوگوں کے ساتھ جو انہیں حوصلہ دیتے ہیں ایک امنگ پیدا کرتے ہیں ان میں۔
وہ ایک وقت میں ایک ہی قدم اٹھاتے ہیں اور اسی پہ اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اپنی منزل اپنے خواب کی جانب وگرنہ وہ منزل کو کھو دیتے ہیں۔ اسی طرح کی تحقیق یونیورسٹی آف اسکرینٹن، امریکا نے بھی شائع کی جس کے مطابق آٹھ فی صد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مقاصد اپنی منزل کو تعین کر کے اس کو حاصل کر لیتے ہیں۔ ’’آپ اپنے اہداف حاصل کر کے جو چیز پاتے ہیں، وہ اتنی اہم نہیں جتنے اہم وہ شخص ہیں جو آپ ان اہداف کو حاصل کر کے بنتے ہیں‘‘۔ زگ زگلر۔ ہمارے مقاصد ہمارے خواب اور ہمارا مشن آب حیات کی طرح انتہائی قیمتی ہوتے ہیں۔ انہیں پہچانیں ان کے لیے مستقل مزاجی، محنت اور لگن سے انہیں حاصل کرنے کے لیے کوشش کریں۔ تاکہ دنیا آپ کے لیے آپ کی کامیابیوں پہ تالیاں بجائے نا کہ محض آپ اس دنیا میں ایک تماش بین کی طر ح صرف دوسروں کے لیے تالیاں بجاتے رہیں۔
منزلوں کی جستجو گر تھکا دے تجھے
راستوں کی دشواریاں ہلا دیں تجھے
وقت کی گردشیں اگر بجھا دیں تجھے
تو تلاش کر وہ سائے جو جِلا دیں تجھے