روسی خاتون کا 3 لاکھ 41 ہزار روپے میں اپنی روح بیچنے کا دعویٰ، خون سے دستخط
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو : روس میں ایک غیر معمولی اور متنازع واقعہ سامنے آیا ہے جس نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا ہے۔
ایک خاتون نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے محض 100,000 روبلز، یعنی تقریباً 3 لاکھ 41 ہزار پاکستانی روپے کے عوض اپنی روح بیچ ڈالی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک شخص نے ٹیلی گرام پر ایک عجیب و غریب اشتہار دیا کہ جو بھی اپنی روح اسے فروخت کرے گا، اسے نقد رقم دی جائے گی۔
اس اعلان کے بعد خاتون نے نہ صرف معاہدے پر دستخط کیے بلکہ ان دستخطوں کے لیے اپنے خون کا استعمال بھی کیا۔ بعدازاں اس معاہدے کی تصویر اس نے سوشل میڈیا پر شیئر کردی، جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ خاتون کے مطابق رقم ملنے کے بعد اس نے اس پیسے سے کھلونے کی گڑیاں خریدیں اور ایک کنسرٹ کا ٹکٹ بھی حاصل کیا۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کئی رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ کسی “سوشل ایکسپیرمنٹ” یا مذاق کا حصہ بھی ہوسکتا ہے اور حقیقت میں نہ تو روح کی خرید و فروخت ممکن ہے اور نہ ہی اس کی کوئی قانونی حیثیت ہے، تاہم سوشل میڈیا پر یہ کہانی بڑے پیمانے پر زیرِ بحث ہے اور کئی صارفین اس پر طنزیہ تبصرے کر رہے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسے انسانی نفسیات اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش سے جوڑ رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق “روح بیچنا” جیسی اصطلاحات عموماً استعارہ یا تشبیہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں، جیسے کوئی شخص اپنے مفاد کے لیے اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹ جائے، لیکن اس کیس نے آن لائن دنیا میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ انسان کس حد تک توجہ حاصل کرنے یا تجربے کے نام پر حدیں عبور کرسکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اس طرح کے غیر معمولی معاہدے نے عالمی میڈیا اور انٹرنیٹ صارفین کو حیران کیا ہو، مگر اس بار خاتون کے خون سے کیے گئے دستخط نے معاملے کو مزید سنجیدہ اور خوفناک رنگ دے دیا ہے۔ اس واقعے کی سچائی اب بھی مشکوک ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس نے روس سے باہر دنیا بھر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خوب شہرت حاصل کر لی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا
پڑھیں:
صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں نوجوانوں کے لیے یہ خبر کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں کہ صرف 22 سال کی عمر میں تین دوستوں نے اپنی ذہانت، محنت اور ٹیکنالوجی کے شوق سے ارب پتی بننے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔
ان تینوں نے امریکی شہر سان فرانسسکو میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے متعلق اپنی کمپنی Mercor کی بنیاد رکھی، جو چند ہی برسوں میں دنیا کی معروف اے آئی ریکروٹنگ کمپنیوں میں شمار ہونے لگی۔
فوربز کی تازہ رپورٹ کے مطابق Mercor کے شریک بانی برینڈن فوڈی، آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ اب دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئرز بن چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کی عمر صرف 22 برس ہے، یعنی اس عمر میں جب زیادہ تر لوگ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں، یہ تینوں نوجوان اپنے خوابوں کی سلطنت قائم کر چکے ہیں۔
Mercor نے حال ہی میں 35 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے، جس کے بعد کمپنی کی مجموعی مالیت 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کمپنی کی اس زبردست ترقی نے نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا کو حیران کیا بلکہ ان تینوں بانیوں کو براہِ راست ارب پتیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔
آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ کی دوستی سان فرانسسکو کے Bellarmine College Preparatory میں ہوئی تھی، جہاں دونوں نے تقریری مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ سوریا کے والدین بھارت سے امریکا منتقل ہوئے تھے جب کہ ان کی پیدائش امریکا میں ہوئی۔ دوسری جانب آدرش تعلیم کے لیے بھارت سے امریکا گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ان دونوں کی ملاقات بعد میں برینڈن فوڈی سے اس وقت ہوئی جب آدرش ہارورڈ یونیورسٹی اور سوریا جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہے تھے۔ تینوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر Mercor کی بنیاد رکھی اور چند ہی برسوں میں اپنی محنت سے دنیا کو حیران کر دیا۔
انہیں معروف سرمایہ کار پیٹر تھیل نے اپنی فیلوشپ کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی، جس کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم کے بجائے عملی اختراع کی ترغیب دینا تھا۔ آدرش کے مطابق میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند ماہ قبل میں محض ایک طالب علم تھا اور آج میری زندگی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
ان سے پہلے 27 سالہ پولی مارکیٹ کے بانی شین کوپلن دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئر قرار پائے تھے جب کہ اس سے قبل اسکین اے آئی کے بانی الیگزینڈر وانگ یہ اعزاز 18 ماہ تک سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی شریک بانی لوسی گیو 30 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین سیلف میڈ خاتون ارب پتی بنی تھیں۔
کامیابیوں کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ تخلیقی سوچ، ٹیکنالوجی اور جرات مندانہ فیصلے نوجوان نسل کے لیے دنیا کے دروازے کھول سکتے ہیں ۔