موضوع: دوحہ کانفرنس کا کمزور موقف ۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: دوحہ کانفرنس کا کمزور موقف ۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ
تجزیہ نگار: پروفیسر ڈاکٹر عائشہ طلعت وزارت (سابق چیئرپرسن جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات
زیر گفتگو موضوعات:
1دوحہ کانفرنس کے بارے میں بین الاقوامی مبصرین کمزور موقف کی بات کر رہے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ دوحہ سربراہی اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گاِ قطر کی جانب سے بھی متوقع ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا ، آپ کا کیا تجزیہ ہے؟؟
2اسرائیل کا قطر پر حملہ ، گریٹر اسرائیل کی جانب ایک اور قدم، مسلم ممالک اور خصوصا عرب حکومتوں کو کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
3۔ ڈاکٹر علی لاریجانی)ایران نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری لبنان( اور عراق کے بعد سعودی عرب پہنچے ہیں جہاں ولی عہد اور وزیر دفاع سے ملاقات ہوئی، علی لاریجانی سفر سے پہلے اپنے ٹوئیٹ میں مسلم ممالک کے اسرائیل کے خلاف مشترکہ کمانڈ سینیئر کی بات کر چکے ہیں، کیا کہتے ہیں
4۔ قطر کانفرنس کے فوراً بعد پاکستان اور سعودی عرب کے مابین مشترکہ دفاع کا معاہدہ ہوا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
دوحہ کانفرنس کا اعلامیہ اور موقف نہ تو واضح ہے نہ ہی مضبوط موقف
اگر موقف دلیرانہ ہو جارح ہمیشہ مدافعانہ پوزیشن میں چلا چلاجاتا ہے
کانفرنس کے ذریعے جارح صیہونی حکومت کو لگام دیئے جانے کا موقف ضروری تھا
خدشہ یہ ہے کہ کمزور موقف جارح صیہونی حکومت کو مزید شہ دینے کے مترادف ہے
صیہونی وزیر اعظم کا اقوامِ متحدہ میں گریٹر اسرائیل کا نقشہ پیش کرنا قابلِ تشویش ہے
قطر اور عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت کا فوری جواب دینا صورت حال کو متوازن کرتا
کانفرنس میں جمع ہونے والے ممالک کم ازکم اپنا الائنس ہی بنالیتے
جس سے صیہونی حکومت کے مقابلے میں deterrence بن جاتی
اس خطے اور پوری دنیا میں امن کے لئے صیہونی حکومت کے مقابلے deterrence پیدا کرنا ضروری ہے
دنیا میں نہ ہونے او ر رکنے والی جنگوں کے پیچھے وجہ ہی مقابل deterrence پیدا ہونا ہے
صیہونی حکومت کے مقابل مشترکہ کمانڈ سینٹر بننا ضروری ہے
ایران اور سعودی تعلقات مزید بہتر ہونے کی ضرورت ہے
ایران او ر سعودیہ باہمی ریلیشن شپ چین کی ثالثی سے بہت اچھی ہوتی جارہی ہے
اسرائیل کو بارہ روزہ جنگ کے بعد اندازہ ہوگیا ہے کہ ایرانی کی دفاعی صلاحیت کو ختم کرنا مشکل ہے
پاک سعودی مشترکہ دفاعی معاہدہ میں دیگر مسلم ممالک بھی شامل ہونے چاہیئں
کیونکہ پاکستان کا دشمن بھارت کو لگام ہی مسلم ممالک کی مشترکہ دفاعی الائنس سے ہی دی جاسکتی ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دوحہ کانفرنس صیہونی حکومت مسلم ممالک
پڑھیں:
امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-05-18
ٹنڈوالہیار(نمائندہ جسارت)امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ حکومتِ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے، خطے میں نئی جنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیریہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے، ٹرمپ کی چاپلوسی ناکام ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ہمسایہ ممالک سے برادرانہ تعلقات ناگزیر ہیں ملی یکجہتی کونسل پاکستان اور جمعیت علماء پاکستان کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیرنے امریکہ اور بھارت کے مابین ہونے والے دفاعی معاہدے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کی سفارتی ناکامی اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ وہ ایک ماہ کے دورہ پنجاب سے واپسی پر حیدرآبامیں جے یو پی کے ذمہ داران سے گفتگو کررہے تھے انہوں نے کہا کہ امریکہ، بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں خطہ ایک نئی جنگی دوڑ میں داخل ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیرنے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ان قوتوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو اسلام دشمن ایجنڈا لے کر عالمِ اسلام میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ حکومت کی خوشامد اور چاپلوسی کی پالیسی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتی کہ امریکہ ہمیشہ بھارت کے مفادات کا محافظ اور پاکستان کے دفاعی کردار سے خائف رہا ہے۔لہذا ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ہمیں امریکہ یا مغرب پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ، برادرانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان کو چاہیے کہ چین، ایران، ترکی، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم کرے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ ملک کے اندر افتراق و انتشار، سیاسی انتقام اور نظریاتی تقسیم کو ختم کرے، کیونکہ داخلی کمزوری بیرونی دشمنوں کے لیے سب سے بڑا موقع ہوتی ہے۔ قومی اتحاد، داخلی امن، اور آئینی ہم آہنگی ہی پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کا واحد راستہ ہے۔لہذاملک کے دفاع اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے حکومت کو سنجیدہ، حقیقت پسندانہ اور قومی مفاد پر مبنی کردار ادا کرنا ہوگا۔ وقتی سیاسی فائدے اور بیرونی خوشامد کی پالیسی سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزارتِ خارجہ فوری طور پر عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرے، اور عالمی برادری کو باور کرائے کہ امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ جنوبی ایشیا میں امن کے بجائے جنگ کے شعلے بھڑکانے کا باعث بنے گا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جمعیت علماء پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل ملک کے نظریاتی و دفاعی استحکام، ملی وحدت، اور اسلامی شناخت کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔