Jasarat News:
2025-11-05@15:25:57 GMT

انسان کے روپ میں وحشی درندہ

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اے ابن آدم آج سے چند سال پہلے کی بات ہے کہ پنجاب کے شہر قصور میں ایک معصوم لڑکی زینب کے ساتھ زیادتی ہوئی پھر اس پھول کا قتل کردیا جاتا ہے، اس وقت بھی میں نے ایک کالم تحریر کیا تھا جس کا عنوان تھا ’’قصور کی بے قصور زینب‘‘۔ اس وقت بھی میں نے حکمرانوں سے اپیل کی تھی کہ اس فعل کے مرتکب کو سرے عام پھانسی دی جائے تا کہ وہ ایک نشان عبرت بن جائے مگر ایسا نہیں ہوا اور یہ سلسلہ چلتا رہا پھر اچانک اخبار کی ایک خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ قیوم آباد کے علاقے میں بچیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا۔ درندہ صفت ملزم کے موبائل فون اور یو ایس بی ڈرائیو سے معصوم بچیوں کی 200 سے زائد ویڈیوز ملی ہیں۔ ڈیفنس تھانے کی حدود قیوم آباد سی ایریا گلی نمبر 18 میں شربت کی ریڑھی لگانے والا بھیڑیا صفت ملزم عوام کے ہتھے چڑھ گیا۔ ملزم شیر احمد کو علاقہ مکینوں نے پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ڈیفنس پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس کے مطابق ملزم سے تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملزم شبیر احمد کئی کم عمر بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے اور وہ زیادتی کرتے ہوئے معصوم بچیوں کی ویڈیوز بھی بناتا تھا۔ ایس ایس پی سائوتھ نے بتایا کہ دوران تفتیش ملزم کے موبائل فون اور یو ایس بی سے 200 سے زائد معصوم بچیوں کی ویڈیوز ملی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے اور وہ سال 2016ء میں کراچی آیا اور قیوم آباد میں کرائے کے کمرے میں رہتا ہے۔ ملزم نے 7 سے 13 سال کی عمر کی بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی بچیاں اس علاقے کی ہیں اور کئی بچیوں کو وہ متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنا چکا ہے۔ ملزم پیسوں اور چیز کا لالچ دے کر بچیوں کو اپنے کمرے میں لے جاتا تھا، کئی بچیاں پیسوں کی لالچ میں اس کے پاس آتی تھیں اور پھر وہ انہیں مزید پیسوں کا لالچ دے کر ان کی بہنوں اور کزنز کو بھی بلاتا تھا۔ ملزم نے دو بہنوں سمیت کئی کم عمر بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ کئی ویڈیوز میں ملزم خود بھی نظر آرہا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ اس کا ایک دوست آصف جس کا انتقال ہوچکا ہے اس نے ملزم کو اس لت میں لگایا۔ پولیس نے دو بہنوں سمیت 5 بچیوں کے ساتھ زیادتی کے چار مقدمات اب تک درج کرلیے ہیں، بچیوں کی عمریں 7 سے 13 برس ہے۔ متاثرہ بچیوں کا میڈیکل چیک اپ بھی کروایا جارہا ہے۔ موبائل اور یو ایس بی سے ملنے والی ویڈیوز کے ذریعے دیگر بچیوں کے حوالے سے معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔

علاقہ مکینوں نے بتایا کہ ملزم کی یو ایس بی ایک بچی کے ہاتھ لگی جسے وہ مقامی موبائل کی دکان پر فروخت کے لیے آئی جس کے بعد یہ درندہ صفت ملزم بے نقاب ہوگیا۔ ملزم کے قبضے سے بچیوں کے اسکول کے کپڑے اور اسکول کارڈ بھی برآمد ہوئے۔ ملزم شیر تنولی 2016 میں کراچی آیا۔ ملزم کی ہوس کا نشانہ بننے والی سب سے کم عمر بچی 7 سال کی ہے جبکہ بقول ملزم کے اس نے 8 سال سے لے کر 14 سال تک کی لڑکیوں کو پامال کیا۔ گرفتاری تک 100 سے زائد بچیوں کے ساتھ زیادتی کی، ملزم شبیر تنولی نے حوانیت، درندگی اور سفاکیت کی تمام حدوں کو پار کردیا۔ ویڈیوز کے حوالے سے ملزم نے بتایا کہ یہ ویڈیوز اس نے کبھی کسی کو نہیں دیں بلکہ وہ اپنی تسکین کے لیے یہ ویڈیوز بناتا تھا۔ ملزم ساتویں پاس ہے، 2016ء سے 2025ء تک 100 سے زیادہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے اور ان کی زندگی تباہ کرنے والا یہ وحشی درندہ کہتا ہے کہ اس کو اپنے اس فعل پر شرم نہیں آتی تھی۔ مجھے جو سزا ملے گی قبول کروں گا۔

اے ابن آدم خدا کے واسطے اپنی بچیوں کی تربیت کریں یہ ان کی مائوں کا کام ہے کہ انہیں اکیلے نہ نکلنے دیں، ہمارے معاشرے میں یہ لعنت بڑھتی جارہی ہے، کچھ والدین تو عزت کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کی شکایت تک نہیں کرتے۔ میری اسکول کے استادوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ بھی بچیوں کی تربیت کریں اگر کسی بچی کے ساتھ ایسا کوئی شرمناک واقعہ ہو تو وہ اس کے بارے میں اپنے گھر والوں کو بتائے، میں پھر سچ لکھوں گا تو حکمرانوں کو اور انصاف فراہم کرنے والوں کو برا لگ جاتا ہے، ہماری عدالتیں اگر بروقت اس طرح کے مقدمات کا فیصلہ سنادیں اور سزا کم سے کم پھانسی ہو تو پھر جا کر اس طرح کے واقعات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے مگر ہمارے حکمرانوں کو آزاد عدلیہ بھی نہیں پسند۔ اپنی مرضی کے جج لے کر آتے ہیں، من پسند فیصلے کرواتے ہیں۔ آخر کب تک یہ نظام چلے گا؟ اس فرسودہ اور جاگیردارانہ نظام کو بدلنا ہوگا نہیں تو آنے والی نسلیں بھی تباہ و برباد ہوجائیں گی۔ میری آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ ملزم شبیر تنولی کا کیس کھلی عدالت میں چلایا جائے اور ایسے وحشی درندے نما انسان کو سرے عام پھانسی دی جائے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے ساتھ زیادتی نے بتایا کہ یو ایس بی بچیوں کو بچیوں کی بچیوں کے کا نشانہ نے والی کہ ملزم ملزم کے

پڑھیں:

کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔

امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔

ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔

متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔

امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔

ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔

امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: خوفناک واقعہ، سابق شوہر کے کزن نے ساتھیوں کے ساتھ خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا
  • لاہور، سابق شوہر کے کزن کی 2 دوستوں کے ساتھ خاتون سے اجتماعی زیادتی
  • ہر ڈس آنر چیک فوجداری جرم نہیں ہوتا جب تک بدنیتی ثابت نہ ہو، لاہور ہائیکورٹ
  • ملزم مقتول اور بے گناہ قاتل کی روداد
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • سہیل آفریدی کسی طور پر وزارتِ اعلیٰ کےاہل نہیں رہے، اختیار ولی
  • سہیل آفریدی کا جرم 9 مئی کے دیگر مجرموں سے زیادہ سنگین ہے، وزارت اعلیٰ کے اہل نہیں، اختیار ولی