ایشیا کپ میں صائم ایوب کا دلچسپ کردار، بیٹنگ پر سوالات مگر باولنگ میں دھوم
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
دبئی میں جاری ٹی20 ایشیا کپ میں پاکستان کے نوجوان آل راؤنڈر صائم ایوب نے ایک انوکھا کردار اختیار کر لیا ہے۔ جہاں ایک طرف اُن کی بیٹنگ کارکردگی نے شائقین کو مسلسل مایوس کیا ہے، وہیں دوسری جانب گیند کے ساتھ ان کی کامیابیاں سب کو حیران کر رہی ہیں۔
صائم ایوب نے پاور پلے میں اب تک 5 وکٹیں حاصل کی ہیں جن کا اوسط صرف 5.
یہ بھی پڑھیے: صفر کی بہار، صائم ایوب نے ایشیا کپ میں کتنے ناپسندیدہ ریکارڈ اپنے نام کرلیے؟
لیکن جب بات بیٹنگ کی ہو تو صائم ایوب کی کارکردگی مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔ 2023 میں ڈیبیو کے بعد اُن سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئیں۔ مگر 44 میچز کھیلنے کے باوجود وہ کم ہی بار اپنی صلاحیتوں کو نتائج میں بدل سکے ہیں۔ اُن کے کیریئر میں اب تک 4 نصف سنچریاں اور اتنی ہی بار پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہونے کے ریکارڈ شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صائم ایوب بیٹنگ میں عدم تسلسل کے شکار ہیں لیکن اُن کی باولنگ نے اس ایشیا کپ میں پاکستان کو نئی جہت فراہم کی ہے۔ بھارت کے خلاف گزشتہ میچ میں انہوں نے شبھمن گل اور تلک ورما سمیت 3 اہم وکٹیں حاصل کیں اور میچ میں سب سے مؤثر بولر ثابت ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک بھارت ٹاکرا: توجہ صرف ایک میچ پر نہیں بلکہ پورا ٹورنمنٹ جیتنے پر ہے، صائم ایوب
پاکستانی شائقین کے لیے ایوب کی کہانی کسی حد تک شاہد آفریدی کی یاد تازہ کر رہی ہے جو بیٹنگ میں غیر یقینی مگر باولنگ میں کمال دکھا کر ٹیم میں جگہ بنائے رکھتے تھے۔ ایوب کی موجودہ فارم بتا رہی ہے کہ وہ بیٹنگ سے زیادہ بولنگ میں ٹیم کے لیے اہم ہتھیار بن رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایشیا کپ صائم ایوب کرکٹذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایشیا کپ صائم ایوب کرکٹ ایشیا کپ میں صائم ایوب ایوب نے کے لیے
پڑھیں:
عمارت کا انہدام ،شہری سلامتی کے بحران پر سوالات اٹھ گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی( اسٹاف رپورٹر)4 جولائی کی صبح کراچی کے پسماندہ علاقے لیاری میں ایک کثیر المنزلہ رہائشی عمارت گرنے سے کم از کم 27 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے ۔محفوظ پاکستان کے مطابق ریسکیو ٹیموں کو ملبے سے لاشیں نکالنے میں تین روز لگے جبکہ گنجان علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔یہ عمارت، جو مبینہ طور پر 25 سال سے زیادہ پرانی تھی، واضح طور پر ڈھانچے کی کمزوریوں کا شکار تھی۔ مقامی مکینوں کے مطابق اسے کئی بار غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا مگر کوئی عملی اقدام نہ کیا گیا۔ سستی رہائش کی کمی کے باعث کئی خاندان اسی عمارت میں رہائش پذیر رہے۔ کراچی میں تیز رفتار ہجرت، بلند کرائے اور کمزور منصوبہ بندی نے نچلے طبقے کے لیے مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔یہ سانحہ کراچی میں عمارتوں کے انہدام کے سلسلے کی ایک اور کڑی ہے، جو غیر منظم شہری توسیع اور حفاظتی معیارات پر عملدرآمد نہ ہونے کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے۔ ماہرین شہری منصوبہ بندی کے مطابق شہر کی ترقی اس کے ضابطہ جاتی ڈھانچے سے کہیں آگے نکل گئی ہے۔ لیاری جیسے علاقوں میں تنگ گلیاں، بوجھل انفراسٹرکچر اور بے ہنگم تعمیرات عمارتوں کی نگرانی اور ہنگامی کارروائی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔لیاری، جو کراچی کے قدیم اور گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے، طویل عرصے سے خستہ حال انفراسٹرکچر، غیر قانونی تعمیرات اور کمزور نگرانی کا شکار ہے۔ بیشتر عمارتیں بغیر سرکاری منظوری، غیر معیاری سامان اور انجینئرنگ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ برسوں کی سیاسی مداخلت، سرکاری محکموں میں بدانتظامی اور بدعنوانی نے غیر قانونی تعمیرات کو فروغ دیا ہے۔ اگرچہ کراچی میں تعمیراتی قوانین کاغذوں پر موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔شہری ماہرین اور سول سوسائٹی نے خطرناک عمارتوں کا فوری آڈٹ کرنے، سخت قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے اور عوام کو محفوظ و سستی رہائش کی فراہمی پر زور دیا ہے۔یہ سانحہ ایک بار پھر واضح کرتا ہے کہ اگر شہری منصوبہ بندی اور ضابطہ سازی میں فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو سب سے زیادہ قیمت کراچی کی نچلی آبادیوں کو ہی چکانی پڑے گی۔