این ایف سی ایوارڈ کے ڈھانچے کو صوبوں میں افقی تقسیم کے لحاظ سے مکمل ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
اسلام آباد:
قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ جو وفاقی حکومت کے ٹیکس ریونیو کو صوبوں میں ان کے سالانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے تقسیم کرنے کا آئینی طریقہ کار فراہم کرتا ہے، ان دنوں زیرِ بحث ہے۔ یہ تقسیم وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کیے گئے ایک متعین مشترکہ پول آف ٹیکسز اور ڈیوٹیز سے کی جاتی ہے۔
وفاقی اشرافیہ کے بعض حلقوں میں یہ بیانیہ عام ہے کہ وفاق کا موجودہ حصہ (42.
مزید یہ کہ صحت اور تعلیم، جو دونوں صوبائی مضامین ہیں، پر ریاستی اخراجات بتدریج گھٹ کر جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا کی اوسط صحت پر 3.25 فیصد اور تعلیم پر 4 فیصد ہے۔ملکی قرضہ تقریباً 76 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے اور مالی گنجائش تیزی سے سکڑ رہی ہے۔
ہم بنیادی طور پر چین، سعودی عرب، یو اے ای سے قرضوں کے رول اوور اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر انحصار کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں اصل وجوہات کو پہچاننا اور ریونیو کے مجموعی حجم کو بڑھانا سب سے بڑی ضرورت ہے۔ریونیو اور ضروریات کے درمیان خلیج کی ایک بڑی وجہ ریاست کی نااہلی اور اشرافیہ پر ٹیکس عائد نہ کرنا ہے۔ سب سے نمایاں مثال پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (PSEs) کے 6 کھرب روپے کے نقصانات ہیں۔
اسی طرح مقامی گیس کی سستی پیداوار میں کٹوتی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، جو مبینہ طور پر مہنگی درآمدی آر ایل این جی کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ٹیکنیکل اور کمرشل بنیادوں پر درست اقدامات کیے جائیں تو ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔این ایف سی فارمولے میں بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ 2010 کے ساتویں ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھا کر 57.5 فیصد کیا گیا اور آبادی کا وزن 100 فیصد سے کم کر کے 82 فیصد کیا گیا، مگر مجموعی ڈھانچہ زیادہ تبدیل نہ ہو سکا۔
اس فارمولے کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبرپختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد ملتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ ڈھانچہ چھوٹے صوبوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور وفاق کے لیے وجودی خطرہ بن رہا ہے۔صوبے اب بھی اپنی سطح پر بہت کم ٹیکس جمع کرتے ہیں۔ مالی سال 2025 میں صرف 1 کھرب روپے جمع ہوئے جن میں سے 63 فیصد جی ایس ٹی تھا، جبکہ زرعی آمدنی ٹیکس برائے نام رہا، حالانکہ زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 24 فیصد ہے۔
نان ٹیکس ریونیو بھی محض 313 ارب روپے تھا۔کان کنی، ریکو ڈیک اور صوبائی ای اینڈ پی کمپنیاں اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح قیمتی وسائل کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ایوارڈ کے ڈھانچے کو صوبوں کے درمیان افقی تقسیم کے لحاظ سے مکمل طور پر ازسرِنو مرتب کیا جائے۔ زرعی آمدنی ٹیکس کو اس کے حقیقی جی ڈی پی حصہ کے مطابق نافذ کیا جائے، جو اندازوں کے مطابق 0.8 سے 1 کھرب روپے تک ہو سکتا ہے۔
وفاق کو صوبوں کے ساتھ کارکردگی پر مبنی اہداف طے کرنے چاہئیں اور فنڈز کی فراہمی کو ان سے منسلک کرنا چاہیے۔ ان اہداف میں آبادی کنٹرول اور خواتین کی معاشی خودمختاری شامل ہوں۔ مرکز اور صوبے دونوں سخت پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کمی کا شکار ہیں۔ نجکاری یا پنشن کٹوتی جیسے عارضی اقدامات حل نہیں۔ دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں سے 126 ریاستی ملکیت میں ہیں اور سالانہ 12 کھرب ڈالر کماتی ہیں۔
پاکستان کو بھی اپنے اداروں میں پروفیشنل بورڈز اور آزاد مانیٹرنگ سسٹم نافذ کرنا چاہیے۔ معیشت کو کم از کم 10 فیصد سالانہ جی ڈی پی گروتھ کا ہدف طے کرنا ہوگا اور اسے کم از کم ایک دہائی تک جاری رکھنا ہوگا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کھرب روپے کو صوبوں جی ڈی پی کیا جا
پڑھیں:
سال کا سب سے بڑا چاند آج نظر آئے گا، پاکستان میں واضح طور پر دیکھنا ممکن ہوگا؟
دنیا بھر میں آج رات سال 2025 کا سب سے بڑا اور روشن چاند آسمان پر جلوہ گر ہوگا۔ نومبر کا یہ مکمل چاند، جسے نومبر سپر مون یا بیور مون کہا جاتا ہے، آج 5 نومبر کی رات اپنے عروج پر ہوگا۔
یہ سال 2025 کے لیے 3 سپر مونز میں سے دوسرا ہے اور زمین کے سب سے قریب آنے والا مکمل چاند ہونے کے باعث یہ چاند سب سے بڑا اور زیادہ چمکدار دکھائی دے گا۔
سپر مون کیا ہوتا ہے؟سپر مون اس وقت بنتا ہے جب چاند اپنے مدار میں زمین کے سب سے قریب (Perigee) ہوتا ہے اور اسی وقت مکمل چاند (Full Moon) بھی ہوتا ہے۔ چونکہ چاند کا مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہے، اس لیے بعض اوقات وہ زمین سے قریب اور بعض اوقات دور ہوتا ہے۔
جب مکمل چاند قریبی مدار میں آتا ہے، تو وہ عام چاند کی نسبت 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن نظر آتا ہے۔
اس بار نومبر سپر مون زمین سے صرف 3,57,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوگا — یعنی عام مکمل چاند کے مقابلے میں تقریباً 17,000 میل زیادہ قریب۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان میں سپر بلیو مون کے دلفریب نظارے
یہ قربت چاند کے سائز اور روشنی کو نمایاں طور پر بڑھا دیتی ہے، یہاں تک کہ زمین پر ہلکے سائے بھی پڑ سکتے ہیں۔
’بیور مون‘ نام کیوں؟’بیور مون‘ کا نام قدیم امریکی قبائل اور یورپی آبادکاروں کی روایات سے جڑا ہے۔ اس مہینے کے دوران بیور (Beavers) سردیوں کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں، وہ اپنے بند باندھتے ہیں اور شکاری اس موسم میں ان کی کھال کے لیے جال لگاتے تھے۔
سپر مون دیکھنے کا بہترین طریقہچاند کو دیکھنے کے لیے مشرق کے افق کا واضح منظر والا مقام منتخب کریں۔
شہری روشنیوں سے دور پارک، کھلے میدان یا سمندر کے کنارے بہترین جگہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے سپر مون پاکستان میں کتنے بجے اپنے جوبن پر ہوگا؟
آنکھ سے دیکھنا کافی ہے، لیکن دوربین سے سطحی خدوخال زیادہ واضح نظر آ سکتے ہیں۔
چاند طلوع ہونے کے فوراً بعد اور رات کے ابتدائی حصے میں سب سے زیادہ روشن دکھائی دے گا۔
کہاں سپر مون واضح طور پر نہیں دیکھا جاسکے گا؟دنیا کے تقریباً تمام ممالک اور شہروں میں سپر مون دیکھا جا سکے گا، بشرطیکہ موسم صاف ہو۔ تاہم، جن شہروں میں اسموگ اور آلودگی زیادہ ہے، وہاں چاند کا منظر دھندلا ہو سکتا ہے۔
یہ شاندار آسمانی منظر زمین اور چاند کے درمیان موجود خوبصورت اور سائنسی تعلق کی یاد دلاتا ہے، فطرت کی ایک ایسی جھلک جو دلوں کو مسحور کر دیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپر مون