اسلام آباد:

قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ جو وفاقی حکومت کے ٹیکس ریونیو کو صوبوں میں ان کے سالانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے تقسیم کرنے کا آئینی طریقہ کار فراہم کرتا ہے، ان دنوں زیرِ بحث ہے۔ یہ تقسیم وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کیے گئے ایک متعین مشترکہ پول آف ٹیکسز اور ڈیوٹیز سے کی جاتی ہے۔

وفاقی اشرافیہ کے بعض حلقوں میں یہ بیانیہ عام ہے کہ وفاق کا موجودہ حصہ (42.

5 فیصد) قرضوں کے جال کا سبب ہے اور اسے بڑھایا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ صوبے ضرورت سے زیادہ خرچ کررہے ہیں۔ تاہم غربت میں اضافہ اس تصور کو جھٹلاتا ہے، کیونکہ اس وقت 45 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے یعنی ان کی یومیہ فی کس آمدنی 4.2 ڈالر سے بھی کم ہے۔

مزید یہ کہ صحت اور تعلیم، جو دونوں صوبائی مضامین ہیں، پر ریاستی اخراجات بتدریج گھٹ کر جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا کی اوسط صحت پر 3.25 فیصد اور تعلیم پر 4 فیصد ہے۔ملکی قرضہ تقریباً 76 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے اور مالی گنجائش تیزی سے سکڑ رہی ہے۔

 ہم بنیادی طور پر چین، سعودی عرب، یو اے ای سے قرضوں کے رول اوور اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر انحصار کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں اصل وجوہات کو پہچاننا اور ریونیو کے مجموعی حجم کو بڑھانا سب سے بڑی ضرورت ہے۔ریونیو اور ضروریات کے درمیان خلیج کی ایک بڑی وجہ ریاست کی نااہلی اور اشرافیہ پر ٹیکس عائد نہ کرنا ہے۔ سب سے نمایاں مثال پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (PSEs) کے 6 کھرب روپے کے نقصانات ہیں۔

 اسی طرح مقامی گیس کی سستی پیداوار میں کٹوتی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، جو مبینہ طور پر مہنگی درآمدی آر ایل این جی کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ٹیکنیکل اور کمرشل بنیادوں پر درست اقدامات کیے جائیں تو ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔این ایف سی فارمولے میں بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ 2010 کے ساتویں ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھا کر 57.5 فیصد کیا گیا اور آبادی کا وزن 100 فیصد سے کم کر کے 82 فیصد کیا گیا، مگر مجموعی ڈھانچہ زیادہ تبدیل نہ ہو سکا۔

اس فارمولے کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبرپختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد ملتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ ڈھانچہ چھوٹے صوبوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور وفاق کے لیے وجودی خطرہ بن رہا ہے۔صوبے اب بھی اپنی سطح پر بہت کم ٹیکس جمع کرتے ہیں۔ مالی سال 2025 میں صرف 1 کھرب روپے جمع ہوئے جن میں سے 63 فیصد جی ایس ٹی تھا، جبکہ زرعی آمدنی ٹیکس برائے نام رہا، حالانکہ زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 24 فیصد ہے۔

نان ٹیکس ریونیو بھی محض 313 ارب روپے تھا۔کان کنی، ریکو ڈیک اور صوبائی ای اینڈ پی کمپنیاں اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح قیمتی وسائل کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ایوارڈ کے ڈھانچے کو صوبوں کے درمیان افقی تقسیم کے لحاظ سے مکمل طور پر ازسرِنو مرتب کیا جائے۔ زرعی آمدنی ٹیکس کو اس کے حقیقی جی ڈی پی حصہ کے مطابق نافذ کیا جائے، جو اندازوں کے مطابق 0.8 سے 1 کھرب روپے تک ہو سکتا ہے۔

 وفاق کو صوبوں کے ساتھ کارکردگی پر مبنی اہداف طے کرنے چاہئیں اور فنڈز کی فراہمی کو ان سے منسلک کرنا چاہیے۔ ان اہداف میں آبادی کنٹرول اور خواتین کی معاشی خودمختاری شامل ہوں۔ مرکز اور صوبے دونوں سخت پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کمی کا شکار ہیں۔ نجکاری یا پنشن کٹوتی جیسے عارضی اقدامات حل نہیں۔ دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں سے 126 ریاستی ملکیت میں ہیں اور سالانہ 12 کھرب ڈالر کماتی ہیں۔

 پاکستان کو بھی اپنے اداروں میں پروفیشنل بورڈز اور آزاد مانیٹرنگ سسٹم نافذ کرنا چاہیے۔ معیشت کو کم از کم 10 فیصد سالانہ جی ڈی پی گروتھ کا ہدف طے کرنا ہوگا اور اسے کم از کم ایک دہائی تک جاری رکھنا ہوگا۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کھرب روپے کو صوبوں جی ڈی پی کیا جا

پڑھیں:

ملک میں ہفتہ وار مہنگائی بڑھنے کی شرح میں 1.34 فیصد کی کمی واقع ہوئی. ادارہ شماریات

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 ستمبر ۔2025 )وفاقی ادارہ شماریات نے دعوی کیا ہے کہ ملک میں 18 ستمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مہنگائی بڑھنے کی شرح میں 1.34 فیصد کی کمی واقع ہوئی جس کی وجہ ٹماٹر اور پیاز جیسی جلد خراب ہونے والی اشیاءکی فراہمی میں بہتری ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں معمولی ردوبدل میں حکومتی اقدامات کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ اس کی وجہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مون سون کا خاتمہ اور متاثرہ علاقوں میں سیلابی پانی واپس جانا ہے جس کے باعث سبزیوں اور پھلوں کی سپلائی معمول پر آرہی ہے.

(جاری ہے)

ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہفتہ وار بنیاد پر قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے ٹماٹر کی قیمتیں 23.11 فیصد، چکن 12.74 فیصد، پہلی سہ ماہی کے بجلی چارجز 6.21 فیصد، کیلے 5.07 فیصد، گندم کا آٹا 2.60 فیصد، پیاز 1.17 فیصد، مسور کی دال 0.64 فیصد، چنے کی دال 0.47 فیصد اور لہسن 0.46 فیصد کم ہوئے ہیں دوسری جانب ڈیزل کی قیمتوں میں 1.06 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، انڈے 0.91 فیصد، باسمتی ٹوٹا ہوا چاول 0.84 فیصد، جارجٹ 0.83 فیصد،اری-6/9 چاول 0.78 فیصد، لکڑی 0.59 فیصد، مٹن اور بیف 0.31 فیصد، سبزیوں کا گھی (1 کلو) 0.25 فیصد، انرجی سیور 0.23 فیصد اور مونگ کی دال 0.10 فیصد بڑھ گئی ہیں.

ادارہ شماریات کے مطابق حالیہ ہفتے کے دوران 18 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، 14 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی اور19 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران حساس قیمتوں کے اعشاریہ کے لحاظ سے سالانہ بنیاد پر 17 ہزار 732 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار1.43 فیصد کمی کے ساتھ 3.82فیصد رہی 17 ہزار 733 روپے سے 22 ہزار 888 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار 1.59 فیصد کمی کے ساتھ 4.02 فیصد اور 22 ہزار 889روپے سے 29 ہزار 517 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار1.34 فیصد کمی کے ساتھ4.89 فیصد ریکارڈ کی گئی.

ادارہ شماریات کے مطابق 29 ہزار 518روپے سے 44ہزار 175 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار1.31 فیصد کمی کے ساتھ 4.97 فیصد رہی اور 44 ہزار 176روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے کے لیے مہنگائی میں اضافے کی رفتار1.23فیصد کمی کے ساتھ 3.47فیصد رہی ہے. 

متعلقہ مضامین

  • بینک کھاتوں، مختصر قرضوں اور سرمایہ کاری میں 12فیصد اضافہ ریکارڈ
  • این ڈی آر ایم ایف کے 6.5 ارب روپے کے منصوبے مکمل، قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ
  • ملک میں ہفتہ وار مہنگائی بڑھنے کی شرح میں 1.34 فیصد کی کمی واقع ہوئی. ادارہ شماریات
  • او آئی سی علامتی بلاک‘ پاکستان‘ سعودیہ میں امہ کی قیادت کی صلاحیت ہے: فضل الرحمن 
  • ہفتہ وار مہنگائی میں 1.34 فیصد کمی، ادارہ شماریات کی رپورٹ
  • مہنگائی کے اعداد وشمارجاری ، 18 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
  • مہنگائی میں معمولی کمی، 18 اشیاء مہنگی، 14 سستی
  • بی آئی ایس پی صارفین کو رقم نکلوانے پر کتنے روپے بینک چارجز ادا کرنا ہونگے؟
  • سپر 4 ٹیموں کا انتخاب مکمل، پاکستان اور بھارت ایک بار پھر آمنے سامنے