کراچی کی بلدیاتی قیادت نے وفاقی حکومت کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے پاکستان انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کے کردار پر سوال اٹھایا ہے اور اصرار کیا ہے کہ شہر کی تمام ترقیاتی اسکیمیں بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) کے دائرہ کار میں آنی چاہییں۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی زیرِ قیادت سندھ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ کے ایم سی نے وفاق کے مالی تعاون سے شروع ہونے والے 6 ارب روپے مالیت کے گرین لائن بس توسیعی منصوبے کو روک دیا ہے، کے ایم سی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پی آئی ڈی سی ایل نے کام دوبارہ شروع کرنے سے قبل بلدیاتی حکام سے این او سی حاصل نہیں کیا۔

پاکستان ورکس ڈپارٹمنٹ کے خاتمے کے بعد وفاقی حکومت مختلف علاقوں میں ترقیاتی منصوبے پی آئی ڈی سی ایل کے ذریعے تعمیر کروا رہی ہے، جو کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت قائم کی گئی تھی۔

گرین لائن کے توسیعی حصے پر تقریباً 9 سال بعد دو ہفتے پہلے دوبارہ کام شروع کیا گیا تھا، تاہم گزشتہ ہفتے میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے نمائش چورنگی سے میونسپل پارک (جامہ کلاتھ مارکیٹ کے قریب) تک جاری تعمیرات کو ’عملی خلاف ورزیوں‘ کو جواز بناتے ہوئے روک دیا۔

کے ایم سی حکام کے مطابق این او سی ہمیشہ کے لیے جاری نہیں ہوتا، اور گرین لائن بی آر ٹی کے توسیعی مرحلے کے لیے پی آئی ڈی سی ایل کو دوبارہ منظوری لینا ضروری تھا۔

میئر نے اپنے بیان میں یہ مطالبہ بھی کیا کہ منصوبے کے پہلے مرحلے میں 3 سال قبل ہونے والے کام کے دوران جو بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوا تھا، اس کی بحالی بھی یقینی بنائی جائے، ان کا کہنا تھا کہ ’دیگر اداروں‘ کی غفلت اور بدانتظامی کا خمیازہ کراچی کے شہری اور کے ایم سی بھگت رہے ہیں۔

مگر صورتِ حال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، روزنامہ ڈان سے گفتگو میں میئر کراچی نے کھل کر خواہش ظاہر کی کہ پی آئی ڈی سی ایل کو شہر کے ترقیاتی کاموں سے مکمل طور پر الگ کر دیا جائے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ کراچی کے منصوبوں میں پی آئی ڈی سی ایل کو ’مائنس‘ کر دیا جائے؟ تو انہوں نے بلا جھجک کہا کہ ’جی بالکل‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں کوئی بھی منصوبہ، خواہ اس کی فنڈنگ وفاقی حکومت کر رہی ہو، مقامی اداروں کے ذریعے ہی مکمل ہونا چاہیے، اگر منصوبہ کسی ٹاؤن سے متعلق ہے تو اس ٹاؤن کی انتظامیہ کرے، اگر شہر سے متعلق ہے تو ہم (کے ایم سی) ذمہ داری لیں گے، عوام ہم سے سوال کرتے ہیں، ہمیں جواب دینا پڑتا ہے۔ بیشتر شہریوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ پی آئی ڈی سی ایل کا سربراہ کون ہے‘۔

میئر نے کہا کہ انہیں اس پالیسی پر سندھ حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبے کی سست رفتاری پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں، جو صوبائی حکومت چلا رہی ہے۔

ان کے بقول کہ ’مگر فرق یہ ہے کہ ریڈ لائن بی آر ٹی کے کام پر نظر رکھنے والی مشاورتی کمیٹی کا میں حصہ ہوں، میں اجلاسوں میں سوال کرتا ہوں، وضاحت طلب کرتا ہوں، اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن پی آئی ڈی سی ایل کے تحت گرین لائن منصوبے کے بارے میں مجھے کچھ خبر نہیں ہوتی، پھر بھی جوابدہی مجھے ہی کرنی پڑتی ہے اور عوامی تنقید کا سامنا مجھے ہی ہوتا ہے‘۔

ایسے میں جب کراچی کی بلدیہ اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے، وفاقی حکومت میئر کے اعتراضات سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتی، منصوبے کا کام رکے کئی دن گزرنے کے باوجود وفاق کی جانب سے کے ایم سی کے تحفظات پر باضابطہ ردعمل نہیں دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق جب تعمیرات کو روکا گیا تو پی آئی ڈی سی ایل حکام نے فوری طور پر میئر سے رابطہ کیا اور طے ہوا کہ جمعہ کو دونوں فریق بیٹھ کر مسائل حل کریں گے، لیکن اس کے بعد کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

وفاقی حکام کا اب ماننا ہے کہ معاملہ کراچی کے میئر اور کنٹریکٹر کے درمیان ہے، این او سی کے حوالے سے ان کا مؤقف ہے کہ پی آئی ڈی سی ایل کے پاس پہلے سے ہی اکتوبر 2017 میں جاری کردہ کے ایم سی کا این او سی موجود ہے، اس لیے موجودہ بحث غیر متعلقہ ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: وفاقی حکومت گرین لائن کے ایم سی

پڑھیں:

سینیٹ قائمہ کمیٹی نے دو وزراء کے پی ایس ڈی پی میں منصوبوں کو مسترد کر دیا

فائل فوٹو 

سینیٹر قراۃ العین مری کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی کے اجلاس میں کمیٹی نے دو وفاقی وزراء کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں منصوبوں کو مسترد کر دیا۔

قائمہ کمیٹی نے شيخوپورہ میں بین الاقوامی ادارے نے سینٹر آف ایکسیلنس بنانے پر اظہار تشویش کیا۔

چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ ادارہ فنڈز بھی نہیں دے رہا اور سینٹر آف ایکسیلنس بنایا جا رہا ہے، وفاقی حکومت کےفنڈز وہاں استعمال کرنےکا پلان ہے جہاں دو زرعی تحقیقی ادارے ہیں۔

کمیٹی نے نارووال کے ان دو منصوبوں کے لیے فنڈز نہ دینے کی ہدایت کر دی۔

کمیٹی رکن سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ہمارے دو ریسرچ ادارے موجود ہیں نئے ادارے کی ضرورت نہیں ہے، ایسے ادارے کی ضرورت نہیں ہے پہلے سے موجود اداروں کی استعداد بڑھائی جائے۔

سینیٹر جام سیف اللہ نے کہا کہ کچھ اپنے دوستوں کو خوش کرنے کیلئے منصوبے وزیر منصوبہ بندی لے کر آتے ہیں، سارے منصوبے نارووال میں شروع کیے جا رہے ہیں یہ فنڈز احسن اقبال کے ذاتی نہیں، پاکستان کے عوام کے فنڈز کو عوام پر خرچ کرنا چاہیے، وزیر منصوبہ بندی آکر بتائیں وہ صرف چند لوگوں کو کیوں خوش کررہے ہیں؟

چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ وزیر منصوبہ بندی اور وزیر مملکت کو کمیٹی میں آنا چاہیے، جام سیف اللّٰہ بولے کمیٹی اجلاس میں وزیر منصوبہ بندی نہ آئے تو وزیر اعظم اور چیئرمین سینیٹ کو لکھیں گے۔

سیکریٹری نے کہا کہ وزیر منصوبہ بندی ملک سے باہر ہیں ان کو کمیٹی کی تشویش پہنچائی جائے گی، جس پر چیئرپرسن کمیٹی بولیں کہ آج کمیٹی کا 10واں اجلاس ہے اور وزیر نہیں آئے، وزیر مملکت پہلے آتے تھے اب وہ بھی نہیں آتے۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں: وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • حکومت کا نیب ترمیمی بل 2023واپس لینے کا فیصلہ، سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاسوں کا ایجنڈا جاری
  • حکومت کا نیب ترمیمی بل 2023 واپس لینے کا فیصلہ، سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاسوں کا ایجنڈا جاری
  • حکومت کا نیب ترمیمی بل 2023 واپس لینے کا فیصلہ، اجلاسوں کا ایجنڈا جاری
  • سینیٹ قائمہ کمیٹی نے دو وزراء کے پی ایس ڈی پی میں منصوبوں کو مسترد کر دیا
  • پاکستان قطر کیساتھ دفاعی اور تزویراتی شراکت کو مزید فروغ دینے کیلئے پُرعزم ہے؛ صدرِ مملکت
  • کراچی کے بعد نیویارک نے بھی نوجوان میئر چنا، کراچی کی تبدیلی نیویارک تک پہنچ گئی ہے: مراد علی شاہ
  • مولانا فضل الرحمان ائمہ کرام کے لیے پنجاب حکومت کے وظیفہ میں رکاوٹ نہ بنیں، علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی
  • مصروف ترین شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر گرین لائن منصوبے پر سڑک کو اکھاڑنے کے بعد تعمیراتی کام روک دیا گیا
  •  پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کیلیے عذاب بنے ہوئے ہیں‘حافظ نعیم الرحمن