لکسمبرگ اور مالٹا نے فلسطین کو تسلیم کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
مالٹا کے وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے بھی کہا کہ ہم فلسطین کی ریاست کو دو ریاستی حل کے لیے اپنے عزم کی علامت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لکسمبرگ اور مالٹا کے وزرائے اعظم نے منگل کی صبح دو ریاستی حل کے کانفرنس میں کہا کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔ فارس نیوز کے مطابق، لکسمبرگ کے وزیر اعظم لوک فریڈن نے کہا کہ دو ریاستی حل واحد راستہ ہے جو پائیدار امن کی ضمانت دیتا ہے۔ لکسمبرگ فلسطین کی سرکاری طور پر تسلیم کرتا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، فریڈن نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ اقدام دو ریاستی حل کے مذاکرات میں امید کی نئی روشنی پیدا کرے گا۔ مالٹا کے وزیر اعظم رابرٹ آبلا نے بھی اعلان کیا کہ ہم فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے اپنے عزم کے نشان کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ غزہ میں بھوک، شہریوں اور بنیادی ڈھانچے پر حملے، اور مغربی کنارے میں آبادکاروں کی تشدد فوراً ختم ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دو ریاستی حل کے کرتے ہیں کہا کہ
پڑھیں:
امن کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں، برطانوی نائب وزیر اعظم
لندن: برطانیہ کے نائب وزیراعظم ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ فوری طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا باعث نہیں بنے گا بلکہ یہ اقدام امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔
ڈیوڈ لیمی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے دن ہی فلسطینی ریاست وجود میں آ جائے گی۔ ان کے مطابق یہ قدم ایک طویل المدتی امن معاہدے کی جانب پیش رفت ہے۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے حل کے لیے عالمی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ تاہم نائب وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس فیصلے سے فوری طور پر سرحدوں یا حکومتی و عسکری ڈھانچے کا قیام عمل میں نہیں آئے گا۔
ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ یہ اقدام فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت ہے، لیکن امن کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں۔ برطانیہ تمام فریقوں کے ساتھ مل کر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔
فلسطینی حکام نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جبکہ اسرائیلی حکومت نے اسے "غیر مفید" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امن کا واحد راستہ براہِ راست مذاکرات ہیں۔ ماہرین کے مطابق فلسطین کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے اقدامات سفارتی دباؤ تو بڑھا سکتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی کے لیے عملی معاہدوں اور اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب یورپی یونین کے کئی ممالک بھی فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے پر غور کر رہے ہیں۔