WE News:
2025-11-07@14:27:52 GMT

ببرک شاہ نے اداکارہ ریما کو اوور ریٹڈ کیوں قرار دیا؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT

ببرک شاہ نے اداکارہ ریما کو اوور ریٹڈ کیوں قرار دیا؟

پاکستانی فلم اور ٹیلی وژن کے معروف اداکار ببرک شاہ نے ایک حالیہ انٹرویو میں ماضی کی مشہور فلمی اداکارہ ریما خان کے فن سے متعلق کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے، جس کا کلپ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔

یوٹیوب چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ببرک شاہ نے کہا کہ ریما خان کو ہمیشہ ان کی خوبصورتی اور رقص کی وجہ سے سراہا گیا، لیکن فنکار کے طور پر وہ اتنا مضبوط مقام حاصل نہ کر سکیں۔

انہوں نے کہا ریما جی کو اوورریٹڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بلاشبہ بہت خوبصورت تھیں اور بہترین ڈانسر تھیں، لیکن اداکاری میں انہوں نے خود کو اس طرح نہیں منوایا۔ اگرچہ انہوں نے فلم ’نکاح‘ میں اپنی اداکاری کو بہتر بنانے کی کوشش کی، مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ وہ زیادہ تر پرفارمنس آرٹ کی طرف مائل تھیں اور بطور فنکار ان کی پوزیشن کمزور رہی۔

ببرک شاہ نے اداکارہ صائمہ اور میرا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خود کو حقیقی فنکار کے طور پر منوایا۔ ان کے مطابق صائمہ ایک مضبوط اداکارہ کے طور پر ابھریں اور بعد میں میرا نے بھی اپنی اداکاری کے ذریعے خود کو ثابت کیا۔

انٹرویو میں ببرک شاہ نے وینا ملک کے بارے میں بھی رائے دیتے ہوئے کہا کہ وہ اچھی آرٹسٹ تھیں، تاہم ان کا انداز فلمی اداکاری کے بجائے پیروڈی  کے لیے زیادہ موزوں تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اداکاری ببرک شاہ پاکستانی فلمیں ریما صائمہ میرا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اداکاری ببرک شاہ پاکستانی فلمیں ببرک شاہ نے انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

اسلام ٹائمز: طالبان کے سربراہ ملا عمر نے تحریک شروع کرنے سے پہلے دارالعلوم حقانیہ سے گریجویشن کیا۔ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان کی صفوں میں اضافہ کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء بھرتی کیے گئے۔ طالبان کی تشکیل سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی حمایت کی جو پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کی حریف اسلامی سیاسی جماعت ”جماعت اسلامی“ کے ساتھ منسلک تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور بے نظیر دونوں ہی جماعت اسلامی کی قیادت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جماعت اسلامی نے مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی تھی جنہوں نے 1979ء میں بے نظیر کے والد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہءدار پر لٹکایا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس موقع پر بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر طالبان بنانے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو جنہیں 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے قتل کا حکم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہلانے والے طالبان کے پاکستانی ونگ کے سربراہ بیت اللہ محسود نے دیا تھا۔محسود بعد میں 2009ء میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ تحریک طالبان کی داغ بیل ڈالنے میں بینظیر بھٹو اور ان کے دست راس، اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کا اہم کردار ہے۔ 1993-1996ء میں بینظیر کے دور اقتدار میں طالبان منصہء شہود پر آئے۔ طالبان تحریک کی تخلیق میں بینظیر بھٹو کے اسی کردار کی وجہ سے انہیں طالبان کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ بے نظیر اور جنرل بابر کی محنت سے طالبان جلد ہی ایک قوت بن گئے۔ انہوں نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والی افغان جماعتوں کو شکست دی اور صرف چند سالوں میں ہی افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان کی حمایت سے کابل پر برسراقتدار آنے والے طالبان اس قدر پُراعتماد ہوگئے کہ انہوں نے پاکستان کے دباؤ کے باوجود ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی پاک افغان سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ طالبان تحریک کی پیدائش اور اس کی نشوونما میں بینظیر بھٹو کے کردار کو احمد رشید نے اپنی انتہائی قابل اعتماد اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب "دی طالبان: اسلام، آئل اینڈ دی نیو گریٹ گیم ان سنٹرل ایشیا" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کتاب کے صفحہ 90 پر مصنف کچھ طوالت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ کس طرح جمعیت علمائے اسلام (JUI-F) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بے نظیر کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے افغان-پاکستان سرحد کے ساتھ سیکڑوں مدارس قائم کیے، جن میں دارالعلوم حقانیہ بھی شامل تھا۔

طالبان کے سربراہ ملا عمر نے تحریک شروع کرنے سے پہلے دارالعلوم حقانیہ سے گریجویشن کیا۔ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان کی صفوں میں اضافہ کرنے کے لیے دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلباء بھرتی کیے گئے۔ طالبان کی تشکیل سے پہلے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مجاہدین رہنما گلبدین حکمت یار کی حمایت کی جو پاکستان میں مولانا فضل الرحمان کی حریف اسلامی سیاسی جماعت ”جماعت اسلامی“ کے ساتھ منسلک تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور بے نظیر دونوں ہی جماعت اسلامی کی قیادت کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جماعت اسلامی نے مرحوم جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی تھی جنہوں نے 1979ء میں بے نظیر کے والد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو  تختہءدار پر لٹکایا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اس موقع پر  بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر  طالبان بنانے اور انہیں پروان چڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔

رشید اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1992ء میں مجاہدین کے کابل پر قبضے کے بعد  مولانا فضل الرحمن کی JUI کے جنوبی پشتونوں پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نظر انداز کیا گیا۔ جے یو آئی اس وقت تک پاکستان میں سیاسی طور پر الگ تھلگ تھی اور بھٹو کی حکومت میں اپوزیشن میں رہی۔ تاہم جے یو آئی نے  بینظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ اتحاد کیا۔ یوں پہلی بار جے یو آئی کو اقتدار کی راہداریوں تک اجازت دی گئی اور اسے موقع دیا گیا کہ وہ فوج اور وزارت داخلہ کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب پاکستان کے حکام نے ایک ایسے نئے پشتون گروپ کی تلاش شروع کی جو افغانستان میں پشتونوں کو برسر اقتدار لا کر ان کے ذریعے افغانستان میں پاکستان کے لیے ایک ”اسٹریٹیجک ڈیپتھ “ قائم کرے نیز جنوبی افغانستان کے راستے پاکستانی تجارت کو افغانستان تک رسائی فراہم کر سکے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا چیئرمین بنا دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ پہلی بار یورپی ممالک کے دورے کے لیے پاکستانی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوگئے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو طالبان کی مالی معاونت کے لیے تیار کیا گیا۔

11 ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد یہ دیکھنا آسان ہے کہ بے نظیر بھٹو کا مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کے ساتھ اتحاد اور طالبان کی تشکیل اور پرورش کی ان کی مشترکہ پالیسی نہ صرف بینظیر کے لیے بلکہ لاکھوں افغانوں اور پاکستانیوں کے لیے بھی مہلک تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا تھا جو اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے شروع میں ان لوگوں کے دام میں آ گئے جنہوں نے بعد میں ان کو تختہء دار تک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج طالبان ایک بار پھر اپنے ان محسنوں کے خلاف نبرد آزما ہیں جنہوں نے کبھی اس پودے کی تخم ریزی کی تھی اور پھر اس کی آبیاری کر کے اسے تن آور درخت کی صورت دی تھی۔ آج وہ درخت اپنے باغبانوں کو سایہ دینے کی بجائے ان کے سروں پر عذاب کی صورت میں منڈلا رہا ہے۔
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے

متعلقہ مضامین

  • شادی ختم ہونے کے بعد منفی ماحول سے بچنے کیلئے بیرون ملک منتقلی کا فیصلہ کیا، آمنہ شیخ
  • معروف بھارتی گلوکارہ و اداکارہ انتقال کر گئیں
  • معروف گلوکارہ و اداکارہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئیں
  • سیدہ اسماء بنت صدیقؓ
  •  سابق ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے کی پراسرار موت؛ والد کی آرمی چیف سے شفاف تحقیقات کی اپیل
  • عفت عمر کا انڈسٹری میں کوئی دوست کیوں نہیں؟
  • ’میری کپتانی میں بھی شاہین آفریدی کپتان ہی تھے‘ محمد رضوان نے ایسا کیوں کہا؟
  • جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
  • ’’میرے ہی شاگرد نے شادی کی پیشکش کی تھی‘‘؛ رومیسہ خان کا انکشاف
  • آمنہ شیخ اور محب مرزا کی علیحدگی کیوں ہوئی؟ اداکارہ کا انکشاف