علی امین گنڈاپور کے خلاف وفاق کے کتنے مقدمات ہیں؟ تفصیلات عدالت میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 23rd, September 2025 GMT
پشاور:
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف وفاق کے مقدمات کے حوالے سے تفصیلات عدالت میں پیش کردی گئیں۔
پشاور ہائی کورٹ میں جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس محمد اعجاز خان کے روبرو کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کی حفاظتی ضمانت میں 3 ہفتوں کی توسیع کردی۔
عدالت نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو درج مقدمات میں گرفتار نہ کرے کا حکم دیتے ہوئے فریقین سے رپورٹ طلب کرلی۔
دورانِ سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف وفاق کے 48 مقدمات ہیں۔ یہ وزیراعلیٰ ہیں، ان کی درخواست نمٹا دیں، اچھا نہیں لگتا کہ بار بار آئیں۔ ایف آئی اے کی 2 انکوائریاں بھی ہیں۔
جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے ریمارکس دیے کہ کاش آپ یہ بات خلوص دل سے کرتے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اینٹی کرپشن کی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔ جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ کو ہم پیشی سے استثنا دیتے ہیں۔ ان کے وکیل پیش ہوں۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور
پڑھیں:
اے این پی نے تعلیمی بورڈ وفاق کے حوالے کی تجویز مسترد کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور ( آئی این پی)عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین نے صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی بورڈز کے امتحانی معاملات وفاقی ادارے انٹر بورڈ کوآرڈینیشن کمیشن (IBCC) کے حوالے کرنے کی تجویز پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے پختونخوا کی تعلیمی خودمختاری پر ڈاکہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی تعلیمی بورڈز کو وفاق کے سپرد کرنے کی تجویز کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ یہ فیصلہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی روح کے منافی اور صوبائی خودمختاری پر براہِ راست حملہ ہے۔ میاں افتخار حسین نے کہا کہ چھوٹے صوبوں سے اختیارات واپس لینے کے معاملے میں صوبائی اور وفاقی حکومت ایک پیج پر ہیں۔ خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کو وفاق کے زیرِ اثر لانے کی کوشش دراصل صوبے کے اختیارات سلب کرنے کے مترادف ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم نے صوبوں کو تعلیمی پالیسی سازی کا حق دیا تھا، مگر پی ٹی آئی حکومت اس اختیار کو واپس کر کے وفاق کے سپرد کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 13 برسوں میں پہلے ہی تعلیمی ادارے بدانتظامی، مالی بحران اور حکومتی عدم توجہی کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اب تعلیمی بورڈز کو وفاقی ادارے کے سپرد کرنے کی کوشش دراصل صوبے کے تعلیمی نظام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی سازش ہے۔ اے این پی کے صوبائی صدر نے سوال اٹھایا کہ اگر امتحانی نظام میں شفافیت کا مقصد واقعی بہتر گورننس ہے، تو پھر تعلیمی بورڈز کو مضبوط کیوں نہیں کیا جا رہا؟ وفاقی ادارے کے ذریعے ای مارکنگ اور امتحانی مواد کی تیاری نہ صرف مالی بوجھ بڑھائے گی بلکہ صوبے کے آٹھ بورڈز کے انتظامی اختیارات بھی محدود کر دے گی۔ انہوں نے صوبائی کابینہ سے مطالبہ کیا کہ اس سمری کو فوری طور پر مسترد کیا جائے اور تعلیمی نظام پر صوبائی کنٹرول برقرار رکھا جائے۔ تعلیم ہمارے بچوں کا مستقبل ہے، اسے وفاقی تجربات کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی صوبائی خودمختاری، تعلیم پر صوبوں کے اختیار اور اٹھارویں ترمیم کے تحفظ کی جدوجہد ہر فورم پر کرتی رہے گی۔ میاں افتخار حسین کا مزید کہنا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی صوبائی و تعلیمی خودمختاری پر کسی قسم کی سودے بازی نہیں کرے گی۔ اٹھارویں ترمیم ملک کی وفاقی روح کا ضامن ہے، اور جو قوتیں اس ترمیم کے ثمرات واپس لینا چاہتی ہیں، دراصل وہ صوبوں کے حقوق، جمہوریت اور وفاق کی مضبوطی کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اٹھارویں آئینی ترمیم کو کبھی رول بیک نہیں ہونے دے گی۔