مسئلہ فلسطین،کیا عالمی ضمیر زندہ ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
جنرل اسمبلی اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی تقریروں میں فلسطین ، امن اور موسمیاتی بحران پر اظہار خیال کیا گیا۔ پاکستان کا کہنا تھا عالمی برادری فلسطینی عوام کی قربانیوں کو تسلیم کرے۔ اردوان کا کہنا تھا غزہ پر اسرائیلی بمباری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے8اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے ملاقات کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی تقاریر نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ دنیا اب محض خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔
خاص طور پر غزہ میں اسرائیلی بمباری، فلسطینی عوام پر بدترین مظالم اور اس ساری صورتحال پر عالمی برادری کا رد عمل ایک ایسا موضوع بن گیا ہے جو صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ انسانی، اخلاقی اور عالمی ضمیر کے امتحان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
اس اجلاس کے دوران جس شدت اور جذباتی انداز میں دنیا بھر کے سربراہان نے اپنے خیالات کا اظہارکیا، اس سے یہ بات عیاں ہے کہ اب فلسطین کا مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ کا نہیں رہا بلکہ پوری دنیا کے ضمیرکو جھنجھوڑنے والا ایک عالمی بحران بن چکا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان کی تقریر اس حوالے سے سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنی۔ انھوں نے غزہ میں اسرائیلی بمباری کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا اور کہا کہ جو طاقتور ریاستیں اس ظلم پر خاموش ہیں وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی نسل کشی جاری ہے اور اگر عالمی برادری نے اس پر فوری اور مؤثر اقدام نہ کیا تو یہ مجرمانہ خاموشی تاریخ کا سیاہ باب بن جائے گی۔
اردوان کا یہ بیان نہ صرف سفارتی محاذ پر ایک جرات مندانہ موقف تھا بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی عالمی رہنماؤں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش تھی۔ اسی طرح قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے بھی غزہ کے محاصرے کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور واضح کیا کہ ان کا ملک صرف اپنے مفادات کے لیے نہیں بلکہ انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے آواز بلند کر رہا ہے۔
انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ جنگ روکنے اور قیدیوں کو واپس لانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اس موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خلیجی ممالک اب غزہ میں جاری بحران کو محض عرب مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے انسانی المیہ تصور کرتے ہوئے اس کے حل کے لیے پیش پیش ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اگرچہ جنگ بندی کی حمایت کی اور حماس پر زور دیا کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرے تاکہ امن قائم ہو سکے، مگر ان کے بیانات میں وہ سنجیدگی اور غیر جانب داری نظر نہیں آئی جس کی عالمی برادری کو امید تھی۔
ان کا یہ کہنا کہ ’’ سب کا خیال ہے کہ انھیں نوبیل امن انعام ملنا چاہیے‘‘ ایک غیر سنجیدہ اور خود ستائشی پر مبنی بیان تھا، جو ایک ایسے وقت میں آیا جب ہزاروں بے گناہ فلسطینی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بجا طور پر کہا کہ ٹرمپ صرف اس صورت میں امن انعام کے مستحق ہو سکتے ہیں جب وہ غزہ میں جنگ بندی کرا دیں اور اسرائیل و فلسطین کے درمیان پائیدار امن قائم کرنے میں کردار ادا کریں۔
فرانس اور برازیل کے سربراہان کا فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرنا اور اسرائیلی بمباری کو امن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یورپ اور لاطینی امریکا میں بھی اب اسرائیل کی جارحیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
برازیلی صدر ڈا سلوا کا فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کرنا اس بات کی علامت ہے کہ جنوبی امریکا کی قیادت بھی اب انسانی حقوق اور انصاف کی بنیاد پر خارجہ پالیسی تشکیل دے رہی ہے۔ کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے بھی فلسطین کے مسئلے کو عالمی ضمیر کا امتحان قرار دے کر وہ بات کہی جو کئی مغربی ممالک کی زبان پر آنے سے قاصر ہے۔
یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری سے نہ صرف عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں اور جنگی ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ، میڈیا دفاتر اور دیگر بنیادی انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنانا واضح کرتا ہے کہ یہ کوئی دفاعی جنگ نہیں بلکہ ایک جارحانہ نسل کشی ہے، جس کا مقصد فلسطینی عوام کی آواز، شناخت اور وجود کو مٹانا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہزاروں بچوں، خواتین اور معمر افراد کی جان لینا کسی بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتا ہے؟ کیا بے گناہ شہریوں کو اجتماعی سزا دینا کسی مہذب دنیا میں قابل قبول ہے؟ اگر نہیں تو پھر عالمی طاقتیں خاموش کیوں ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج دنیا کے ہر باضمیر انسان کے ذہن میں گونج رہے ہیں۔
اسی دوران ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک خط بھیجا ہے جس میں 60 دن کی جنگ بندی کے بدلے اسرائیل کے نصف یرغمالیوں کی رہائی کی پیشکش کی گئی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو یہ خطے میں پائیدار امن کی جانب ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ صرف ابتدا ہے۔ مستقل امن صرف اس وقت ممکن ہے جب فلسطینی عوام کو ان کا بنیادی حق، یعنی ایک خود مختار ریاست، حاصل ہو اور اسرائیلی مظالم کا خاتمہ کیا جائے۔
’’ گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر اسرائیلی حملے اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی قانون یا انسانی اصول کا احترام نہیں کرتا۔ برازیلی کارکن تھییاگو ایویلا کے مطابق فلوٹیلا کے قریب مسلسل دھماکے اور ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نہ صرف زمینی بلکہ سمندری اور فضائی راستوں سے بھی انسانی امداد کو روکنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک کھلا چیلنج بھی ہے۔
پاکستان نے بھی جنرل اسمبلی اجلاس میں بھرپور انداز میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور مطالبہ کیا کہ عالمی برادری فلسطینی قربانیوں کو تسلیم کرے۔ پاکستان کی یہ پالیسی برسوں پر محیط ہے، اور حالیہ بحران کے دوران بھی پاکستان نے نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ انسانی امداد کے ذریعے بھی فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھی ہے۔ اس موقع پر پاکستانی قیادت کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت ایک مثبت سفارتی قدم تھا۔
غزہ میں جاری جنگ اب صرف ایک علاقائی تنازع نہیں رہا، بلکہ یہ عالمی ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دینا جاری رکھی تو یہ ادارہ اپنی افادیت کھو بیٹھے گا۔ وہ وقت آ چکا ہے جب اقوام متحدہ کو محض قراردادیں منظور کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ فلسطین کی مکمل خودمختاری، اسرائیلی مظالم کا خاتمہ، جنگی جرائم پر احتساب اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی وہ بنیادی نکات ہیں جن پر فوری عمل ہونا چاہیے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ عالمی نظام، جو طاقتور کو حق اور کمزور کو جرم کے کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ جب تک طاقتور ریاستیں صرف اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرتی رہیں گی، تب تک دنیا میں نہ تو پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اس عالمی نظام کی سب سے بڑی ناکامی بن چکا ہے، اور اگر اس کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو یہ بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔
آج وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک اپنی وقتی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر فلسطین کے لیے مشترکہ موقف اپنائیں۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ میں ایک مؤثر اور مربوط آواز بن کر ابھرے، تاکہ فلسطینی عوام کی آواز کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر مؤثر انداز میں اٹھایا جا سکے۔
صرف مذمتی بیانات، قراردادیں یا جذباتی تقریریں کافی نہیں، اب وقت ہے عملی سفارتی دباؤ کا، عالمی عدالتوں سے رجوع کا، اور بین الاقوامی برادری کو مجبور کرنے کا کہ وہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کارروائی کرے۔اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسے فلسطینی عوام کو ان کا حق دینا ہو گا۔ اگر عالمی ضمیر زندہ ہے تو اسے غزہ میں بہنے والا خون نظر آنا چاہیے اور اگر اقوام متحدہ کو واقعی ’’ اقوام‘‘ کی نمایندہ تنظیم بننا ہے تو اسے طاقتور کے آگے نہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ یہی وقت کا تقاضا ہے، یہی انسانیت کا امتحان ہے، اور یہی دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی بمباری فلسطینی عوام کی عالمی برادری جنرل اسمبلی اقوام متحدہ بلکہ انسانی اور اسرائیل کہ اسرائیل عالمی ضمیر فلسطین کے کے خلاف اور اس چکا ہے کے لیے
پڑھیں:
دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
ویسے تو اس وقت پوری دنیا پر ہی جنگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ روس یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل حماس جنگ، حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں، ہرچند کہ ان کے درمیان جنگ بندی ہوچکی ہے اور موجودہ پاک افغان تنازعہ کہ جس میں روزانہ ہی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
اب اگر اس میں معاشی جنگ کو بھی شامل کر لیا جائے جو امریکا کی چین اور تقریباً پوری دنیا سے جاری ہے۔ اس وقت تو ان کی معاشی جنگ ان کے قریب ترین پڑوسی کینیڈا سے بھی شدت اختیار کرگئی ہے۔
تقریباً ہر روز ہی اس فہرست میں کوئی نہ کوئی تبدیلی ضرور ہوتی رہتی ہے، اس صورتحال میں یہ بات یقینی طور پرکہی جاسکتی ہے کہ دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔
ہر جنگ کا آغاز اور اختتام معاشیات پر ہی ہوتا ہے، چاہے اس کے لیے کوئی بھی کہانی کیوں نہ گھڑی گئی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگیں وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بٹوارے کے لیے ہوتی ہے تاکہ اپنے اپنے ملک کو معاشی فائدہ پہنچایا جاسکے۔
امریکا کی تو پوری معیشت کی بنیاد ہی جنگ پر ہے، بس فرق اتنا ہے جنگ دیگر ممالک میں ہوں اور داخلی طور پر راوی چین چین ہی لکھے حالانکہ امریکا چین کو بالکل پسند نہیں کرتا بلکہ اب تو وہ چین کے ساتھ معاشی جنگ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ عسکری جنگ کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسنجر ویسے ہی یہ بات اپنی زندگی میں کہہ چکے ہیں کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہ جنگ مسلمانوں کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوگی اور ان کے خیال کے مطابق اس کا آغاز ایران سے ہوگا۔
اسرائیل زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر کے مشرق وسطیٰ کے ایک وسیع و عریض رقبے پر قابض ہوجائے گا۔ ان کے کہنے کے مطابق مشرق وسطی میں تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بج چکا ہے اور جو اسے سن نہیں رہے وہ یقیناً بہرے ہیں۔
یہ خیال رہے کہ ہینری کیسنجر ایک کٹر یہودی تھا اسی لیے انھوں نے اسرائیل اور امریکا کے جنگ جیتنے کی بھی پیش گوئی کی تھی۔ ہم ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی بہت سی باتیں درست بھی ثابت ہوئی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ تو طے ہوگیا تھا کہ اب اگلی عالمی جنگ یورپ میں نہیں لڑی جائے گی۔ عام خیال یہ تھا کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطیٰ میں لڑی جائے گی لیکن عرب ممالک کی حکمت عملی اور عالمی ساہوکار کی مشرق وسطی میں سرمایہ کاری نے اس جنگ کو مشکل اور مہنگا کردیا ہے۔
اس لیے اس صورتحال میں قوی امکان ہے کہ اس کا آغاز جنوب مشرقی ایشیا سے کیا جائے، اس لیے اب ہم اپنے خطے کی جانب آتے ہیں۔ہماری حکومت نے اب باضابطہ طور پر اس بات کا اقرارکر لیا ہے کہ استنبول سے اچھی اور امید افزا خبریں نہیں آرہی ہے۔
ہرچند کے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے مگر طالبان بار بار اپنے موقف کو تبدیل کررہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ جہاں سے ان کی ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں، وہاں سے یہی احکامات آرہے ہیں۔
طالبان حکومت دہشتگردی کے خاتمے میں سنجیدہ کوششوں سے دامن چھڑا رہی ہے اور اب یہ راستہ تصادم کی طرف جارہا ہے جو کہ خطے کے حق میں نہیں ہے۔ماضی میں بھی ان مذاکرات کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔ ہمارے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اگر افغانستان سے معاملات طے نہیں پاتے تو پھر کھلی جنگ ہوگی۔
ہندوستان کی پوری کوشش ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور وہ اس پر ہر طرح کی سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور یہ بات ہمارے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ ہندوستان ابھی تک اپنی شکست پر تلملا رہا ہے اور اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔
ہندوستان نے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کی بڑی مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے نوٹم (NOTAM Notice to Air Missions) جاری کیا اور یہ مشقیں 30 اکتوبر سے 10 نومبر 2025 تک پاکستان کی سرحد کے قریب ہونا طے پایا۔
اس وقت یہ مشقیں جاری ہیں۔ ہندوستان کب ان مشقوں کو حقیقت میں آزمائے گا، یہ کسی کو نہیں پتہ لیکن آزمائے گا ضرور، یہ بات حتمی ہے اور ان کا وزیر اعظم اور فوجی سربراہ دونوں اس کی کھلی دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے وسائل کی طلب اور رسد کے عدم توازن کو ٹھیک کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ توازن دنیا کی آبادی کو کم کرکے ہی بہتر کیا جاسکے گا۔ اب آبادی کہاں زیادہ ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ مغربی ممالک تو ویسے بھی آبادی کے معاملے میں منفی نمو کا شکار ہے۔ آنیوالا وقت غیر یقینی ہی نہیں بلکہ مشکل بھی ہوگا۔