ماہرنگ بلوچ کو نوبل انعام کے لیے کس نے نامزد کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
دنیا بھر میں علمی اور سماجی خدمات کے حوالے سے نوبل انعام کو دنیا کا سب سے بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے لیکن وقتاً فوقتاً اس اعزاز کو حاصل کرنے والوں کی قابلیت پر سوال اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔
اِس سال نوبل انعام برائے امن کے لیے پاکستان سے ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور چین میں ایغور لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے جنوبی منگولیا جمہوری اتحاد نامی تنظیم کے صدر مسٹر ہاڈا کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ اور مسٹر ہاڈا کو نیدرلینڈ کے شہر ہیگ میں قائم ایک تنظیم ’اَن۔ریپریزنٹڈ نیشنز اینڈ پیپلز آرگنائزیشن‘ نے نامزد کیا ہے۔
1980 کی دہائی میں سرد جنگ کے زمانے میں بعض ایسی قومیتیں جنہیں سوشلسٹ بلاک میں تفریق کا سامنا تھا، ایسی کمیونٹیز کے نمائندگان نے یہ تنظیم 1991 میں قائم کی تھی۔
کیا ماہرنگ بلوچ کی نوبل انعام کے لیے نامزدگی کنفرم ہے؟نوبل انعام برائے امن کمیٹی جو حتمی طور پر یہ اعزاز حاصل کرنے والوں کا اعلان کرتی ہے، یہ کمیٹی اپنے پاس موجود تمام نامزدگیوں کو خفیہ رکھتی ہے۔ کچھ ممالک اور تنظیموں کی جانب سے نامزد کئے جانے والے افراد کے نام سامنے آ جاتے ہیں لیکن وہ حتمی نہیں ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں:ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟
ایسی نامزدگیاں ایسی ہوتی ہیں جو کہ عوامی طور پر سامنے آتی ہیں۔ مثلاً اس سال کے نوبل انعام برائے امن کے لیے پاکستان اور اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نامزد کر رکھا ہے، پوپ فرانسس اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرس کو نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خاتون جیزیل پیلکو کو برطانیہ میں رائے عامہ کے ذریعے سے نامزد کیا گیا ہے اور اسی طرح مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے سابق سربراہ جینز سٹولٹنبرگ کو نامزد کیا گیا ہے۔
اسی طرح سے اوسلو میں قائم ایک نجی ادارہ پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ اوسلو نے اپنے ماہرین کی بنیاد پر ایک فہرست مرتب کی ہے جس میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی 5 تنظیوں کے نام شامل ہیں۔
لیکن یہ نامزدگیاں صرف نامزدگیوں کی حد تک ہوتی ہیں جبکہ اصل لسٹ صرف نوبل انعام برائے امن کمیٹی کے پاس ہوتی ہے جسے پبلک نہیں کیا جاتا۔
ماہرنگ بلوچ کا بھارتی پریس میں بیانبھارتی اخبار دی ٹرائیبیون نے اپنی خبر میں کہا ہے ماہرنگ بلوچ نے اپنی نامزدگی پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ لاپتا بلوچوں کے لیے ہے۔
چند ذرائع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مہرنگ بلوچ کی نامزدگی کے عمل کے گرد کچھ معاملات سوالیہ ہیں، جن میں یہ کہ مئی 2024 میں مہرنگ بلوچ نے یورگن واٹنے فریڈنس (جو نوبل کمیٹی کے رکن ہیں) سے ملاقات کی تھی، اور اس ملاقات کا اہتمام کِیا بلوچ نامی صحافی نے کیا تھا۔
ماہرنگ بلوچ اور مسٹر ہاڈا میں مماثلتماہرنگ بلوچ کو پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کا سوفٹ چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اِس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر اور سال 22 مارچ سے زیرحراست ہیں۔
بلوچستان حکومت نے کوئٹہ میں ایک دھرنے سے اُنہیں گرفتار کیا تھا۔ بعد میں اُن پر دہشت گردی میں معاونت کے الزامات کے تحت بھی مقدمات درج کئے گئے۔
ماہرنگ بلوچ بنیادی طور پر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف 2020 سے کام کر رہی ہیں اور اُن کے کام کو مُلکی اور بین الاقوامی میڈیا میں خاصی کوریج دی جا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟
مبیّنہ طور پر ماہرنگ بلوچ کے والد کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد 2009 میں ماہرنگ نے مظاہروں میں جانا شروع کیا وہ جبری طور پر گمشدہ افراد کی رہائی کے لیے گوادر اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک کئی لانگ مارچ اور کئی بڑے مظاہروں کی قیادت کر چُکی ہیں۔ جبکہ 2020 میں وہ اِن مظاہروں کی قیادت کرنے لگیں۔
جبکہ مسٹر ہاڈا چین میں موجود ایغور لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں جو کہ چینی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
ایغور لوگوں کی آزادی سے جُڑی عسکری تنظیم ایسٹ ترکستان موومنٹ کے خلاف چین نے افغان طالبان حکومت سے بھی بات چیت کی ہے۔
2 ایسے لوگوں کا انتخاب جو پاکستان اور چین کے خلاف بات کرتے ہیں، اس انتخاب کے بارے میں سوالیہ نشان ہے۔
ماہرنگ بلوچ پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟بہت سے حکومتی اور سرکاری ادارے ماہرنگ کی جانب سے پیش کئے جانے والے لاپتہ افراد کے اعداد و شمار کو گمراہ کُن قرار دیتے ہیں۔
اس سال جنوری کے اواخر میں جب ماہرنگ بلوچ کوئٹہ سے احتجاجی مظاہرہ لے کر اِسلام آباد آ رہی تھیں تو اِس نمائندے نے جبری طور پر لاپتا افراد کے لیے قائم کمیشن کے اُس وقت سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا۔
ایک شخص کوئٹہ سے لاپتا افراد کا مقدمہ لے کر چلا اور اس کا دعوٰی تھا کہ کل 55 ہزار افراد لاپتا ہیں تاہم جب وہ راولپنڈی ریلوے اسٹیشن اترا تو یہ تعداد 7 ہزار رہ گئی اور جب مجھ سے ملا تو تعداد 4 ہزار تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس سے 10 مرتبہ گمشدہ افراد کے شناختی کارڈز اور رہائشی پتے کے بارے میں دریافت کیا لیکن اس نے کچھ نہیں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی المیے پر سیاست کرنا افسوسناک ہے ہم نے ملکی مفاد اور اداروں کے تقدس کا خیال رکھا ہے لیکن کبھی بھی شکایت کنندہ کے حقوق پر سمجھوتا نہیں کیا۔
یہ بھی پرھیں:ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی مبینہ نامزدگی، والد کے دہشتگردوں سے تعلق نے نئی بحث چھیڑ دی
جنوری 2024 میں جب پاکستان نے ایران میں موجود بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف آپریشن مرگ بر سرمچار کیا تو اُس میں مرنے والوں کی تصویریں ماہرنگ بلوچ کے دھرنے میں موجود لوگوں نے اُٹھا رکھی تھیں۔
عام تاثر یہ ہے اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ لاتعداد بار اس بارے میں بات کر چکے ہیں کہ بلوچ لوگ جو اپنی مرضی سے وہاں کی عسکری تنظیموں میں شامل ہو کر غائب ہو جاتے ہیں اُن کے بارے میں مسنگ پرسن ہونے کا دعوٰی کر دیا جاتا ہے۔
اپریل 2025 کے جعفر ایکسپریس حملے کے بعد یہ الزام سامنے آیا کہ بی وائے سی کے کارکنوں نے ہلاک دہشت گردوں کی لاشیں اسپتال سے زبردستی اُٹھائیں اور ہنگامہ آرائی کی۔
بعض مبصرین کے مطابق، یہ عمل اس تاثر کو مضبوط کرتا ہے کہ بی وائے سی عسکریت پسندوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔
حکومتی اور سیکورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ ماہرنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی سرگرمیاں صرف انسانی حقوق تک محدود نہیں بلکہ ان کے ذریعے ریاست مخالف بیانیہ کو فروغ دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ماہرنگ بلوچ کس طرح دہشتگرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہی ہیں؟
ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بلوچ مسلح تنظیموں (جیسے بی ایل اے، بی ایل ایف وغیرہ) کے بیانیے سے ہم آہنگ بات کرتی ہیں
ناقدین کا کہنا ہے کہ ماہرنگ بلوچ کی تحریک کو بیرونِ ملک سے فنڈنگ اور پشت پناہی ملتی ہے، خصوصاً یورپ اور بھارت میں سرگرم بلوچ قوم پرست حلقوں سے۔
ان پر الزام ہے کہ وہ انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بلوچستان کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں
نوبل انعام پر تنازعات2014 میں جب 17 سالہ ملالہ یوسفزئی کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو نوبل انعام کمیٹی کے اِس فیصلے پر مختلف وجوہات کی بنا پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ سماجی خدمات کے شعبے میں اُن سے کہیں زیادہ کام کرنے والے لوگ پہلے سے موجود ہیں۔
اِس سال مارچ اپریل میں جب ناروے کی ایک سیاسی جماعت نے نوبل انعام کے لیے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو نامزد کیا تو اُس فیصلے پر نہ صرف اُس سیاسی جماعت کو ناروے کے اندر سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور پھر پاکستان نے نوبل انعام کمیٹی کو خطوط لکھے جس کے بعد نامزدگی کو ہٹا دیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان لاپتا افراد ماہرنگ بلوچ نوبیل امن انعام نوبیل انعام، یورگن واٹنے فریڈنس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان لاپتا افراد ماہرنگ بلوچ نوبیل امن انعام نوبیل انعام یورگن واٹنے فریڈنس ماہرنگ بلوچ کی نوبل نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے ماہرنگ بلوچ اور افراد کے کے خلاف جاتا ہے اور اس یہ بھی کام کر
پڑھیں:
’نوبیل انعام چاہیے تو غزہ جنگ رکواؤ‘: فرانسیسی صدر کا ٹرمپ کو مشورہ
فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے کہا ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی نوبیل امن انعام پانا چاہتے ہیں تو انہیں غزہ کی جنگ فوری طور پر ختم کرانی ہوگی۔
نیویارک سے فرانسیسی ٹی وی ”بی ایف ایم“ کو انٹرویو دیتے ہوئے میخواں نے کہا کہ دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو اس جنگ کو روک سکتا ہے اور وہ ہے امریکی صدر، کیونکہ اصل دباؤ ڈالنے کی طاقت صرف امریکا کے پاس ہے۔
میخواں نے کہا کہ ہم ہتھیار یا وہ آلات فراہم نہیں کرتے جن سے غزہ میں جنگ جاری ہے، یہ سب کچھ امریکا کی طرف سے دیا جا رہا ہے، اس لیے ٹرمپ کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ روکنے پر مجبور کریں۔
قبل ازیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ غزہ کی جنگ فوری طور پر بند ہونی چاہیے اور امن کے لیے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ تاہم انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا حماس کے لیے انعام دینے کے مترادف ہوگا۔
میخواں نے ٹرمپ کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے امریکی صدر کو دیکھ رہے ہیں جو امن چاہتا ہے اور جو بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے سات تنازعات حل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نوبیل امن انعام چاہتے ہیں لیکن یہ انعام اسی وقت ممکن ہے جب وہ غزہ کی جنگ بند کرائیں۔
واضح رہے کہ کمبوڈیا، اسرائیل اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے ٹرمپ کو امن معاہدے اور سیزفائر کرانے پر نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس اعزاز کے مستحق ہیں کیونکہ ان کے چار پیش رو صدور بھی یہ انعام حاصل کر چکے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان اینا کیلی نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں موجود سب ممالک سے زیادہ امن کے لیے کام کیا ہے، اور صرف وہی اس قابل ہیں کہ دنیا کو مستحکم بنا سکیں کیونکہ انہوں نے ’امریکا کو دوبارہ طاقتور بنایا ہے۔‘
Post Views: 1