کینسر کے خطرات: موروثی جینیاتی تغیرات اور ماحولیاتی اثرات کا گہرا تعلق
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کینسر دنیا بھر میں انسانی صحت کے لیے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے اور ماہرین کے مطابق اس کے خطرے میں جینیات کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ بعض خاندانوں میں یہ مرض موروثی طور پر منتقل ہونے والے جینیاتی تغیرات کی وجہ سے زیادہ عام ہے۔ مثال کے طور پر BRCA1 اور BRCA2 جیسے جین بریسٹ اور اووری کینسر کے امکانات کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں جب کہ لنچ سنڈروم کولون کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے سے جڑا ہوا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جینیاتی تغیرات کی مختلف اقسام کینسر کے خطرے پر الگ الگ انداز میں اثرانداز ہوتی ہیں۔ گریملن تغیرات وہ تبدیلیاں ہیں جو پیدائش کے وقت ہی وراثت میں ملتی ہیں اور پورے جسم کے خلیوں پر اثر ڈالتی ہیں، اسی لیے انہیں بنیادی خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس سومیٹک تغیرات زندگی کے دوران ماحول، عمر یا طرزِ زندگی کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا اثر بھی اہم ہے مگر یہ وراثتی جینیات سے مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کینسر صرف ایک یا دو بڑے جینیاتی عوامل کا نتیجہ نہیں بلکہ بعض اوقات درجنوں چھوٹے چھوٹے جین مل کر اس کے امکانات بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ ماحولیاتی اثرات بھی شامل ہو جائیں تو یہ خطرہ مزید شدید ہو جاتا ہے۔
سگریٹ نوشی، آلودگی، غیر متوازن خوراک اور تابکاری جیسے عوامل جینیاتی وراثت کے ساتھ مل کر بیماری کے امکانات بڑھا سکتے ہیں۔ اسی طرح صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنے سے خطرات کو کسی حد تک کم بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جینیاتی وراثت اگرچہ کینسر کی بنیاد ہے لیکن ماحولیاتی اثرات اس خطرے کو یا تو بڑھا دیتے ہیں یا کم کر دیتے ہیں۔
ماہرین نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ اگر خاندان میں کسی قسم کے کینسر کی تاریخ موجود ہو تو بروقت اسکریننگ اور جینیاتی ٹیسٹ کروانا نہایت ضروری ہے تاکہ مرض کو ابتدائی مرحلے میں ہی پہچانا جا سکے۔ ساتھ ہی صحت مند طرزِ زندگی اور ماحول دوست عادات اختیار کرنے سے بھی بڑی حد تک بچاؤ ممکن ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سائبر حملے، کاروباری افراد کیلئے بڑے خطرے کی گھنٹی بج گئی
ویب ڈیسک:پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار تیزی سے سائبر حملوں کی زد میں آرہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ حملے کاروباری ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں جس میں مالی خسارہ، حساس معلومات کی چوری اور کاروباری ساکھ کو دھچکا لگنا شامل ہے۔
ایک معروف عالمی سائبر سکیورٹی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں ایسے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں جائز سافٹ ویئر کو ہیکنگ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ سکیورٹی سسٹمز کو چکمہ دیا جا سکے۔ ان حملوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ انتہائی پوشیدہ طریقے سے کیے جاتے ہیں اور عام حفاظتی نظام انہیں پہچاننے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
مجسٹریٹ کافوڈاتھارٹی کی قبضےمیں لی گئی اشیاملزم کوسپرداری پردینےکاآرڈرکالعدم قرار
تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے اکثر کاروبار نہ تو جدید سکیورٹی سسٹمز کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس تربیت یافتہ ماہرین کی ٹیمیں ہوتی ہیں۔ یہی کمزوریاں سائبر حملہ آوروں کے لیے موقع بن چکی ہیں۔
صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سکیورٹی کمپنی نے دو نئے اور نسبتاً کم لاگت والے حل پیش کیے ہیں، Kaspersky Next XDR Optimum اور MXDR Optimum۔ یہ سسٹمز خودکار نگرانی، خطرے کی فوری شناخت اور فعال ردعمل جیسے فیچرز کے ذریعے کاروباروں کو ایک مضبوط دفاعی لائن فراہم کرتے ہیں۔
ایف آئی اے کراچی زون کی کارروائی ؛حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث 2 ملزم گرفتار
یہ سسٹمز کلاؤڈ اور مقامی سسٹمز دونوں پر کام کرسکتے ہیں جس سے کاروباروں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ خاص طور پر XDR Optimum اُن اداروں کے لیے موزوں ہے جن کا آئی ٹی نظام موجود تو ہے لیکن مکمل سکیورٹی کیلئے ابھی بھی بہتری کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سائبر خطرات صرف ایک وقتی چیلنج نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں یہ حملے اور بھی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں جن کاروباروں نے ابھی تک اپنی ڈیجیٹل حفاظت کو سنجیدگی سے نہیں لیا وہ مستقبل میں سنگین نقصان اٹھا سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت سموگ کا مقابلہ کرنےکیلیے تیار؛ اینٹی سموگ گنز لاہور پہنچ گئیں