سائبر حملے، کاروباری افراد کیلئے بڑے خطرے کی گھنٹی بج گئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
ویب ڈیسک:پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار تیزی سے سائبر حملوں کی زد میں آرہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ حملے کاروباری ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں جس میں مالی خسارہ، حساس معلومات کی چوری اور کاروباری ساکھ کو دھچکا لگنا شامل ہے۔
ایک معروف عالمی سائبر سکیورٹی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں ایسے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جن میں جائز سافٹ ویئر کو ہیکنگ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ سکیورٹی سسٹمز کو چکمہ دیا جا سکے۔ ان حملوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ انتہائی پوشیدہ طریقے سے کیے جاتے ہیں اور عام حفاظتی نظام انہیں پہچاننے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
مجسٹریٹ کافوڈاتھارٹی کی قبضےمیں لی گئی اشیاملزم کوسپرداری پردینےکاآرڈرکالعدم قرار
تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے اکثر کاروبار نہ تو جدید سکیورٹی سسٹمز کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس تربیت یافتہ ماہرین کی ٹیمیں ہوتی ہیں۔ یہی کمزوریاں سائبر حملہ آوروں کے لیے موقع بن چکی ہیں۔
صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سکیورٹی کمپنی نے دو نئے اور نسبتاً کم لاگت والے حل پیش کیے ہیں، Kaspersky Next XDR Optimum اور MXDR Optimum۔ یہ سسٹمز خودکار نگرانی، خطرے کی فوری شناخت اور فعال ردعمل جیسے فیچرز کے ذریعے کاروباروں کو ایک مضبوط دفاعی لائن فراہم کرتے ہیں۔
ایف آئی اے کراچی زون کی کارروائی ؛حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث 2 ملزم گرفتار
یہ سسٹمز کلاؤڈ اور مقامی سسٹمز دونوں پر کام کرسکتے ہیں جس سے کاروباروں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ خاص طور پر XDR Optimum اُن اداروں کے لیے موزوں ہے جن کا آئی ٹی نظام موجود تو ہے لیکن مکمل سکیورٹی کیلئے ابھی بھی بہتری کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سائبر خطرات صرف ایک وقتی چیلنج نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں یہ حملے اور بھی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں جن کاروباروں نے ابھی تک اپنی ڈیجیٹل حفاظت کو سنجیدگی سے نہیں لیا وہ مستقبل میں سنگین نقصان اٹھا سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت سموگ کا مقابلہ کرنےکیلیے تیار؛ اینٹی سموگ گنز لاہور پہنچ گئیں
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
گروسی امریکہ و اسرائیل کیلئے جاسوسی میں مشغول ہے، دنیا کی سب سے بڑی صیہونی لابی کا برملاء اعتراف
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ایران سے متعلق صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) کے زیر اہتمام منعقدہ ایک خصوصی اجلاس میں صیہونی ماہرین نے برملاء اعتراف کیا ہے کہ سربراہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے ہی ایران کیخلاف امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں موثر کردار ادا کرتے ہوئے ایران کی کمزوریوں کی نشاندہی میں امریکہ کو خصوصی مدد پہنچائی ہے اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے قریب آنے پر، دنیا کی سب سے بڑی صیہونی لابی فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) نے واشنگٹن میں ایک اہم اجلاس منعقد کیا ہے کہ جس کا مقصد اُن طریقوں کا جائزہ لینا تھا کہ جن کے ذریعے امریکہ، ایران پر دباؤ بڑھانے کے لئے بین الاقوامی اداروں کو استعمال میں لا سکتا ہے۔ اس اجلاس میں؛ سی ای او ایف ڈی ڈی جوناتھن شینزر، سینئر مشیر رچرڈ گولڈ برگ، چین کے پروگرام ڈائریکٹر کریگ سنگلٹن اور ڈائریکٹر آف دی ٹیکنالوجی اینڈ سائبر لیب مارک مونٹگمری نے شرکت کی جبکہ صیہونی ماہرین کی اس ٹیم نے ایران کو، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے، خاص طور پر عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسی کثیر الجہتی تنظیموں کے میدان میں، نہ صرف ٹیکٹیکل بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایک "تزویراتی چیلنج" قرار دیا!
اس بحث کے اہم موضوعات میں سے ایک سیکرٹری جنرل آئی اے ای اے رافائل گروسی کا کردار بھی تھا جبکہ وہاں موجود اسرائیلی ماہرین کے مطابق، اسی "ایران مخالف کردار" کے سبب رافائل گروسی کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لئے بھی ممکنہ امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔ ایف ڈی ڈی کے ماہرین کے مطابق اس تشخیص کی اہم وجہ "رافائل گروسی کی جانب سے امریکی ایجنڈے کے عین مطابق اور واشنگٹن کی پالیسیوں کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگی کے ساتھ، ایرانی جوہری کیس کا انتظام و انصرام" ہے۔ صیہونی ماہرین نے رافائل گروسی کو ایک ایسا فرد قرار دیا کہ جو غیر ضروری تناؤ پیدا کئے بغیر ہی، انتہائی مؤثر طریقے سے ایران کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب رہا کہ جسے امریکی نقطہ نظر سے "اسٹریٹیجک فائدہ" قرار دیا جا رہا ہے۔
ایرانی خبررساں ایجنسی فارس نیوز کے مطابق اس اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ایران کی "جوہری عقب نشینی" درحقیقت واشنگٹن کے لئے ایک کامیابی ہے جبکہ رافائل گروسی ہی کی "سفارتکاری" نے ایران کی محدودیتوں کو نمایاں کیا اور یہی امر امریکہ کے لئے ایک قسم کی "نرم فتح" یا "نرم طاقت پر مبنی اہم کامیابی" کا سبب بنی ہے۔
-
اس حوالے سے صیہونی ماہرین نے مزید تاکید کی کہ امریکہ کو خصوصی ایجنسیوں پر اثر انداز ہونے پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے نہ کہ صرف سیکرٹری جنرل پر کیونکہ ایرانی جوہری معاملے کا براہ راست طور پر، اس ایجنسی کے ریگولیٹری فنکشن کے ساتھ تعلق ہے لہذا اس جیسے عالمی اداروں میں "مغرب نواز قیادت" کو یقینی بنانا ہی بالواسطہ طور پر ایران کو محدود کرے گا۔ ایف ڈی ڈی کے ماہرین نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے چینی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی موجودگی کے بارے میں بھی "تشویش" کا اظہار کیا اور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چین اور روس جیسی طاقتوں کہ جن کے مفادات ایران کے ساتھ منسلک ہیں، کے زیر اثر کثیر الجہتی ریگولیٹری ڈھانچے کا وجود، اس عمل کو پیچیدہ بنا سکتا ہے لہذا امریکہ ان اداروں کی مالی امداد کے ذریعے اپنا مطلوبہ اثر و رسوخ استعمال کرے کیونکہ اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اربوں ڈالر خرچ ہونے جا رہے ہیں تو اس مالیاتی فائدے کو "مطلوبہ اصلاحات" یا "ایران سے متعلق پابندیوں کے نفاذ" کے لئے استعمال کیا جانا چاہیئے!