اترپردیش تشدد معاملے میں مولانا توقیر رضا گرفتار، 14 روزہ عدالتی حراست میں
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 8 افراد کو گرفتار کیا، جن میں مولانا توقیر رضا بھی شامل ہیں، اسکے علاوہ 39 افراد کو حراست میں لیکر پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اترپردیش کے بریلی شہر میں نماز جمعہ کے بعد پیش آئے تشدد کے واقعے میں اتحادِ ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور عدالت کے حکم پر انہیں 14 دن کی عدالتی حراست میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق اس معاملے میں مجموعی طور پر 10 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جن میں سے 7 میں براہِ راست مولانا توقیر کا نام شامل ہیں۔ بریلی پولیس نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جمعہ کی نماز کے بعد ہجوم نے پولیس فورس کے ساتھ دھکا مکی کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 8 افراد کو گرفتار کیا، جن میں مولانا توقیر رضا بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 39 افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
پولیس نے الزام لگایا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ 7 دنوں سے اس واقعے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اور اس سازش میں بیرونی عناصر بھی شامل ہیں۔ پولیس نے مختلف مقامات سے چاقو، تمباکو کے دیسی اسلحے، بلیڈ اور پٹرول کی بوتلیں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ بریلی کے ایس ایس پی انوراگ آریہ نے کہا کہ یہ واقعہ محض اتفاقی نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سازش رچنے والوں نے سوشل میڈیا اور مختلف اجلاسوں کے ذریعے ماحول کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ یہ احتجاج کانپور میں عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر نصب کئے گئے "آئی لو محمد (ص)" کے پوسٹر کے بعد متعدد افراد کے خلاف پولیس کے ذریعے کی گئی کارروائی پر ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے کیا جا رہا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مولانا توقیر رضا پولیس نے افراد کو شامل ہیں
پڑھیں:
بھارت میں عقیدتِ رسول جرم بن گیا، ’آئی لو محمد ﷺ‘ کہنے پر مسلمانوں پر پولیس کا تشدد
بھارت میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کے اظہار کو جرم بنا دیا گیا اور ’آئی لَو محمد ﷺ‘ کہنا مسلمانوں کے لیے مشکل بنا دیا گیا ہے۔
ریاست اترپردیش کے مختلف شہروں میں پولیس نے جلوسوں اور ریلیوں پر دھاوا بول دیا، درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کرلیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق کانپور میں 12 ربیع الاول کے جلوس کے دوران مسلمانوں نے ’’آئی لَو محمد ﷺ‘‘ کا بینر آویزاں کیا۔ اس پر انتہاپسند ہندو بھڑک اٹھے، ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی، جبکہ پولیس نے الٹا کئی دن بعد 20 مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا۔
اس اقدام پر بھارت بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ رائے بریلی میں اعلیٰ حضرت درگاہ اور اتحاد ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان کی رہائش گاہ کے باہر ’’آئی لَو محمد ﷺ‘‘ ریلی نکالی گئی جسے روکنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔
اسی طرح سہارنپور میں جمعے کی نماز کے بعد نکلنے والی ریلی بھی پولیس تشدد کی نذر ہوگئی۔ کئی مظاہرین کو حراست میں لیا گیا اور احتجاج کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی۔
ادھر بھوپال، ممبئی اور دیگر شہروں میں بھی مسلمانوں نے عقیدتِ رسول ﷺ کے اظہار کے لیے جلوس نکالے جن میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ ان مظاہروں نے بھارت میں مذہبی آزادی اور مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ریاستی سختیوں پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔