ای او بی آئی ، مستقل چیئرمین کی عدم تعیناتی ، افرادی قوت کی شدید قلت
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 ستمبر2025ء) وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل، حکومت پاکستان کے ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) میں بدانتظامی اور بے قاعدگیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں جہاں گزشتہ ایک برس سے کوئی مستقل چیئرمین تعینات نہیں، ادارہ میں افرادی قوت کی شدید قلت کے باوجود خالی اسامیوں پر 250 افسران کی بھرتیوں کا خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
ای او بی آئی کی منظور شدہ افرادی قوت 1476 ہے لیکن گزشتہ 11 برسوں سے نئی بھرتیاں نہ ہونے اور بڑے پیمانے پر افسران اور اسٹاف کی ریٹائرمنٹ کے باعث ادارہ میں سینکڑوں اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت ادارہ میں صرف 38 فیصد عملہ باقی رہ گیا جو کام کے شدید دبا کا شکار ہے۔(جاری ہے)
لہذا نئیافسران کی فوری بھرتیاں ادارہ کی بقا کے لئے ناگزیر ہیں۔ اس سلسلہ میں ای او بی آئی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق افسر تعلقات عامہ اسرار ایوبی نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ای او بی آئی کو یکم جولائی 1976 کو ایک فلاحی ادارہ کی حیثیت سے ملک کے ایک کمزور طبقے بزرگوں،معذورین،بیوگان اور یتامی کو ماہانہ پنشن کے ذریعہ مالی کفالت کی اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
لیکن ادارہ میں طویل عرصہ سے مستقل چیئرمین نہ ہونے،افرادی قوت کی شدید قلت اور بعض اعلی افسران کے بے لگام ہو جانے اور ذاتی مفادات کے لئے گروہی سیاست کے نتیجہ میں محنت کشوں کی فلاح و بہبود کا اہم فریضہ پس پشت چلا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملک بھر میں سینکڑوں ریٹائرڈ بزرگ اور معذور ملازمین، بے سہارا بیوگان اور یتامی اپنی ای او بی آئی پنشن کے لئے مہینوں مہینوں ریجنل آفسوں کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ای او بی آئی میں آخری بار 2014 میں این ٹی ایس کے ذریعہ 295 افسران اور اسٹاف ملازمین کی بھرتیاں عمل میں آئی تھیں لیکن حیرت انگیز طور پر ان بااثر امیدواروں کے انٹرویوز نہیں کئے گئے تھے۔ ایک کثیر تعداد پر مشتمل افسران کے اس طاقتور گروپ کو ادارہ میں غلبہ حاصل ہے اور 2007 اور 2014 بیچ کے بعض بااثر افسران نے ادارہ میں کلیدی عہدوں پر فائز رہتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور اب یہ طاقتور گروپ در پردہ نئے افسران کی بھرتیوں کی مخالفت میں بھی پیش پیش ہے۔ پچھلے برس ای او بی آئی کے چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر)خاقان مرتضی نے ادارہ میں افرادی قوت کی شدید قلت پر قابو پانے کے لئے ادارہ کے سہ فریقی بورڈ آف ٹرسٹیز کی منظوری سے مختلف کیڈرز کے 250 افسران کی بھرتیوں کا فیصلہ کیا تھا۔ جن میں ڈپٹی ڈائریکٹر لا کیڈر کی ایک،ڈپٹی ڈائریکٹر آئی ٹی کیڈر کی 2، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کیڈر کی 108،اسسٹنٹ ڈائریکٹر آفس کیڈر کی 13،اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس/اکانٹس/ آڈٹ اور انوسٹمنٹ کی 56،اسسٹنٹ ڈائریکٹر لا کیڈر کی 8،اسسٹنٹ ڈائریکٹر آئی ٹی کیڈر کی 21، ایگزیکٹیو افسر آپریشنز کیڈر کی37 اور ایگزیکٹیو افسر آفس کیڈر کی 4 اسامیاں شامل ہیں ۔امیدواروں کی تحریری ٹیسٹ کی فیس 2،500 روپے مقرر کی گئی تھی اور ان سے 21 جولائی سے 5 اگست 2024 تک درخواستیں وصول کی گئی تھیں۔ خودمختار وفاقی ادارہ ہونے کی حیثیت سے ای او بی آئی کی تمام ملازمتوں میں وفاقی کوٹہ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ لہذا میرٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والے اصول پسند چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضی نے بھرتیوں کے عمل میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لئے لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز (LUMS)، لاہور کے ذریعہ امیدواروں کے تحریری ٹیسٹ منعقد کرانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ جس کے تحت 21 اور اور 22 اگست 2024 کو LUMS کے زیراہتمام ملک کے پانچ بڑے شہروں کراچی،کوئٹہ، لاہور،اسلام آباد اور پشاور میں امیدواروں کے تحریری ٹیسٹ منعقد ہوئے تھے ۔بھرتیوں کے تحریری ٹیسٹ میں شمولیت کے لئے 6،819 امیدواروں نے درخواستیں جمع کرائی تھیں جبکہ 5،676 نے تحریری ٹیسٹ میں شرکت کی تھی اور کل 1،316 امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن پچھلے برس 18 ستمبر کو چیئرمین خاقان مرتضی کی ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے ان کی جگہ کسی مستقل چیئرمین کی تعیناتی نہ کرنے اور بعض اعلی افسران کی گروہی سیاست کے باعث ادارہ کی بقا کے لئے بھرتیوں کا ناگزیر منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔ جبکہ ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی جانب سے تشکیل شدہ ڈپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی پچھلے برس دسمبر میں کامیاب امیدواروں سے انٹرویوز بھی مکمل کرچکی ہے اب محض سینکڑوں کامیاب امیدواروں کے نتیجہ کا اعلان ہونا باقی ہے۔ جس کے لئے بورڈ آف ٹرسٹیز نے رواں برس 26 مئی کو بھرتیوں کے نتائج کی سفارشات اور نتیجہ مرتب کرنے کے لئے سات رکنی ڈپارٹمنٹل سیلکشن کمیٹی بھی تشکیل دی تھی لیکن اس کمیٹی میں جان بوجھ کر نئی بھرتیوں کے عمل میں روڑے اٹکانے والے بااثر افسران بھی شامل کر دیئے گئے ۔کمیٹی کے ہیڈ آفس کراچی میں کئی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں لیکن کمیٹی کے لاڈلے ارکان اپنی پرکشش مراعات، سیر سپاٹوں سے لطف اندوز ہوکر اور بھاری ٹی اے ڈی اے سمیٹ کر اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن ان اجلاسوں کا ابھی تک کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ باخبر ذرائع کے مطابق ای او بی آئی میں ہونے والی 250 افسران کی بھرتیوں پر فلاحی ادارہ کے کروڑوں روپے کے بھاری اخراجات آئے ہیں۔ جن میں قومی اخبارات میں خالی اسامیوں کے اشتہارات کی اشاعت، LUMS کو پانچ شہروں میں تحریری ٹیسٹ کے انعقاد کے لئے تقریبا 69 لاکھ روپے کی بھاری فیس کی ادائیگی، پانچ شہروں میں امیدواروں کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کے نام پر قائم کردہ من پسند جونیئر افسران اور اسٹاف پر مشتمل خود ساختہ اسکروٹنی کمیٹی اور پانچ شہروں میں امیدواروں کے تحریری ٹیسٹ اور انٹرویوز کے انعقاد کے لئے سات اعلی افسران پر مشتمل سلیکشن کمیٹی کے لئے دو طرفہ فضائی سفر،اعلی ہوٹلوں میں طعام و قیام،سیر سپاٹوں، ادارہ کی گاڑیوں، پٹرول اور وسائل کا بے تحاشہ استعمال اور ان افسران کو فی کس لاکھوں روپے کے ٹی اے ڈی اے کی ادائیگی شامل ہے، بتایا جاتا ہے کہ ان ملک گیر دوروں کی کثرت کے باعث افسران کے لئے مختص لاکھوں روپے کا ٹی اے ڈی اے بجٹ تک ختم ہوگیا ہے۔ اس دوران بھرتیوں کے عمل میں غیر معمولی تاخیر سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی میں 2017 میں ادارہ میں 328 افسران اور اسٹاف کی خالی اسامیوں پر بھرتیوں کے عمل میں رکاوٹیں ڈالنے والا انتہائی بااثر افسران کا گروپ ایک بار پھر متحرک ہوگیا ہے جنہیں مبینہ طور پر بااثر افسران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان مفاد پرست افسران کے آلہ کار بنے ہوئے 25 اسٹاف ملازمین نے ان افسران کی ایما پر صوبہ پنجاب کے ایک بدعنوان ملازم کی سرکردگی میں 250 نئے افسران کی بھرتیوں کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کردی ہے۔ لیکن ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اس پٹیشن کی جانچ پڑتال کے دوران پٹیشن دائر کرنے والے اکثر اسٹاف ملازمین کے دستخط جعلی ہونے کا انکشاف ہوا اور ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران پٹیشن دائر کرنے والے بیشتر ملازمین اس پٹیشن پر اپنے دستخطوں اور بھرتیوں کے خلاف فریق بننے سے منحرف ہوگئے ہیں۔ انتظامیہ نے بھرتیوں کے خلاف جعلسازی کے ذریعہ پٹیشن دائر کرنے کی رپورٹ ثبوتوں کے ساتھ معزز عدالت میں جمع کرادی ہے اور ان اسٹاف ملازمین کے خلاف جلد تادیبی کارروائی متوقع ہے۔ای او بی آئی میں مستقل چیئرمین کی عدم تعیناتی کے نتیجہ میں ای او بی آئی میں 250 افسران کی بھرتیوں کے عمل میں ایک برس کی غیر معمولی تاخیر اور بااثر افسران کی جانب سے اس عمل کو سبوتاژ کئے جانے کے باعث کامیاب ہونے والے سینکڑوں بے روزگار اور باصلاحیت امیدواروں میں یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں 2017 کی طرح یہ اسامیاں بھی منسوخ نہ کردی جائیں جس کے باعث امیدواروں میں اپنے مستقبل کے حوالہ سے سخت بے چینی پائی جاتی ہے لیکن اس ضمن مین ای او بی آئی کی انتظامیہ انہیں کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہے جس سے ان نوجوانوں کی مایوسی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھرتیوں کے عمل میں افسران کی بھرتیوں افسران اور اسٹاف اسسٹنٹ ڈائریکٹر او بی آئی میں کے تحریری ٹیسٹ مستقل چیئرمین اسٹاف ملازمین امیدواروں کے بااثر افسران پٹیشن دائر کی جانب سے افسران کے ہوگیا ہے کے ذریعہ ادارہ کی کے نتیجہ کیڈر کی کے باعث اور ان کے لئے میں ای
پڑھیں:
این سی سی آئی اے کو جنوری 2026 تک ملازمین کو مستقل کرنے کیلیے رولز بنانے کا حکم
این سی سی آئی اے کو جنوری 2026 تک ملازمین کو مستقل کرنے کیلیے رولز بنانے کا حکم WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کو جنوری 2026 تک ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے رولز بنانے کا حکم دے دیا۔
نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کے ملازمین کو مستقل کرنے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت تک رولز نہ بنے تو ڈی جی این سی سی آئی اے کو طلب کریں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ رولز بنائیں نہیں تو ہمارے پاس ہائیکورٹ میں رولز بنانے والے انتہائی قابل افسر موجود ہیں، ہمارے ہائیکورٹ کے افسر آپ کو ایک رات میں ایسے زبردست رولز بنا دیں گے۔
دوران سماعت، جسٹس محسن اختر کیانی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ تین ماہ بعد سماعت ہو رہی ہے، اب تک رولز کیوں نہیں بنے، اگر ملازمین کو مستقل کرنے کے رولز ہی نہیں تو ایجنسی کیوں بنائی تھی۔ سب اداروں نے رولز بنائے ہوئے ہیں اور آپ بغیر رولز کے لوگوں کی نوکریاں کروا رہے ہیں، کوئی پابندی ہے تو بتا دیں۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ معاملہ پراسس میں ہے کچھ وقت دیا جائے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آپ پچھلے سات مہینوں سے یہی کہانی سنا رہے ہیں، کوئی ٹائم لائن بتائیں آخری سماعت کے بعد تین مہینے ہوگئے ہیں، آپ کا کام ہے اپنے ادارے کے رولز بنانا، اگلی سماعت میں اگر ملازمین کو مستقل کرنے کے رولز نہ بنے تو آپ کے ڈی جی کو طلب کریں گے۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن وار اسسٹنٹ ڈائریکٹر این سی سی آئی اے شیخ عامر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے رولز بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 13 جنوری تک ملتوی کر دی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلامی معیشت کے ماہر اور تاریخ کے پہلے ڈگری یافتہ امام کعبہ: سعودی عرب کے نئے مفتی اعظم کون ہیں؟ سیلاب متاثرین کی مدد کو انا کا مسئلہ کیوں بنالیا گیا، وفاق کو عالمی مدد مانگنی چاہیے تھی، بلاول اسلام آباد بار کونسل نے بھی جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا فیصلہ چیلنج کردیا وزیراعظم سے بل گیٹس کی ملاقات: صحت، ڈیجیٹل تبدیلی کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق زلفی بخاری کی 800 کنال زرعی اراضی کی نیلامی کا اشتہار جاری سونے کی قیمت میں آج بڑی کمی ریکارڈ ہائیکورٹ کا جج ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑا ہے: جسٹس طارق جہانگیریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم