عالمی موسمیاتی ادارہ اور سیلاب سے بچاؤ
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
پاکستان میں گزشتہ کئی ماہ سے ہر گاؤں، شہر، قریہ، بستی، پہاڑوں، زمینوں پر ایسے دن اور رات آتے رہے کہ خوب گرج چمک کے ساتھ کہیں بار بار اور ان گنت بار بارش ہوتی رہی، غالباً چکوال میں ’’ کلاؤڈ برسٹ‘‘ ہوا جس سے شہر اور ارد گرد میں خوب پانی جمع ہوا اور سیلابی کیفیت پیدا ہو گئی۔
پھر مختلف شہروں میں کلاؤڈ برسٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہاڑوں پر بارش اور گلیشیئرز بھی پگھل کر ندی نالوں پر ٹوٹنے لگے جس سے نہریں لبریز ہونے لگیں، جس نالے کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ اس مرتبہ اپنی حد میں رہے گا وہ حدوں کو توڑتا ہوا اپنے ساتھ انسان، مال مویشی، سامان حتیٰ کہ کاریں بھی بہا کر لے گیا۔ پھر لاہور شہر میں بار بار موسلا دھار بارش ہوتی رہی۔ یہی حال راولپنڈی اور دیگر شہروں کا بھی تھا۔
ادھر بھارت میں بھی خوب بارشیں ہوئیں۔ بھارت نے عنقریب ایک جنگ ہاری تھی جسے وہ آج تک نہیں بھولا۔ اس نے اپنی باری میں پانی کی طاقت کو بطور ہتھیار استعمال کر ڈالا۔ اپنے ڈیمز بھرنے شروع کر دیے اور اس سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر حملہ آور ہو گیا۔ اب دریاؤں کی روانی میں بے چینی پیدا ہوئی، وہ غضب ناک ہوکر آگے بڑھتے رہے، سانپ چھوڑے گئے، مگرمچھ بھی آتے رہے، یہ سیلابی پانی جب بلا اطلاع چھوڑ دیا گیا تو گاؤں، دیہات، قصبوں میں شہری رات چین کی نیند سو رہے تھے کہ اعلانات سن کر ہڑبڑا کر اٹھے کہ باہر محفوظ جگہوں پر چلے جاؤ، کیوں کہ پانی آ رہا ہے۔
جب وہ باہر نکل ہی رہے تھے کہ پانی اندر آ گیا۔ دیواروں کو توڑنے لگا، دروازے اٹھا کر پھینکنے لگا، باڑوں سے گائے بھینسوں بکریوں کے ساتھ غصے سے ایسا سلوک کیا جیسے ان کو اغوا کرکے لے جا رہا ہو۔ بس پھر گاؤں ڈوب گئے، بستیاں بہہ گئیں، قصبے پانی میں گھر گئے، شہروں میں پانی داخل ہو گیا، کہیں 20 فٹ تک اوپر کہیں 30 فٹ تک اوپر الامان الحفیظ۔
لیکن ہماری اپنی غلطیاں، لاپرواہیاں بھی ہیں عالمی موسمیاتی ادارہ تو 2024 میں ہی خبردار کرچکا تھا کہ نہریں، جھیلیں اور دریا اپنی فطری روانی سے ہٹ گئے ہیں۔ جب بادل ٹوٹ رہے تھے، ندی نالے اژدھے کی طرح پھیل رہے تھے، یہی پانی جو زندگی کا پیغام لاتا تھا اب مکان، مال مویشی، انسان اور سامان سب کچھ اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا۔ یہ وہ عدم توازن ہے جسے عالمی موسمیاتی رپورٹ نے پانی کا غیر مستحکم نظام کہا ہے۔
یہ واویلا کچھ عرصے سے مچایا جا رہا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا اہم شکار ملک بن چکا ہے، کیونکہ ہمارا مافیائی نظام عرصہ دراز سے جنگلات کا صفایا کر رہا تھا۔ ہم شہر پھیلاتے رہے اور دریائی گزرگاہوں پر مکانات بناتے رہے۔ دنیا نے اپنی صنعتوں کو کھولا، دھواں اڑاتے رہے، فضاؤں کو زہر آلود بناتے رہے لیکن ہم بچاؤ کا کوئی نظام نہ بنا سکے۔ پڑوسی ملک سیکڑوں اور چین ہزاروں ڈیمز بنا چکا اور ہم ابھی ایک دو تین کی گنتی گن رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ کراچی سمیت پورے ملک میں درخت اگائیں، ندی نالوں کی صفائی کریں اور جو بھی فیصلہ سازی کریں ان لوگوں کو شامل کریں جو متاثر ہوئے ہیں جیسے کسان، شہری، یونین کونسل کے نمایندے اور دیگر افراد وغیرہ۔
ہم اپنی زمینوں پر فطرت کے خلاف اور خاص طور پر دریاؤں کے راستوں پر قبضہ کر کے بیٹھ گئے، بس پھر دریا بھی غضب ناک ہوگئے، قیمتی لکڑی کے حصول کے لیے جنگلات کا کٹاؤ کرتے رہے، پہاڑوں سے درخت چھینتے رہے، وہ چیختے رہے کہ ہم سے ہماری چادر نہ کھینچی جائے لیکن اشرافیہ اور مافیا کب ماننے والے تھے۔ شہروں میں آبادی بڑھی لیکن نکاسی آب کا انتظام نہ ہو سکا، اب بہت سے ڈیمز بنانے پڑیں گے، سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے گہرائی والے کنوئیں بنانے ہوں گے، اب ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ اپنے معصوم بچوں اور معاشرے کے ہر فرد کو اب ’’ تیرنا ‘‘ سیکھنا ہوگا۔
اس میں مہارت پیدا کرنی ہوگی تاکہ ضرورت پڑنے پر اپنے مال مویشی اور مال و اسباب بھی کچھ لے کر دور پار جا سکیں۔ دنیا کے کئی ملکوں نے پانی کے ساتھ دوستی کر لی۔ بنگلہ دیش کے ہرگاؤں میں کشتیاں موجود ہوتی ہیں، اسکول کے بچوں کو تیراکی سکھائی جاتی ہے، ہمیں رضاکاروں کی ٹیم تیار کرنا ہوگی، ان کی تربیت کرنا ہوگی، ہر موقع کے لیے کیونکہ کبھی زلزلے آنا شروع ہو جاتے ہیں، کبھی پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے، ہمیں تیراکی، زلزلوں سے بچنے کی تدابیر،کشتی رکھنے اور ایسے مضبوط ترین مکانات کی تعمیر جو کچھ عرصے کے لیے سیلابی پانی کی سفاکیت کو برداشت کرلیں ان کی تعمیرات پر غور کرنا پڑے گا۔ ہر گاؤں دیہات کو بنگلہ دیش کی طرز پر اپنی مدد آپ کے تحت نمٹنے کی تربیت دینا ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم اپنے برادر ملک بنگلہ دیش سے تجربہ اور مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔
اگر ہم نے آج تیراکی کو، کشتیوں کو، رضاکاروں کی تربیت کو، مضبوط پناہ گاہوں کی تعمیرکو اور دیگر امور کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تو سیلاب میں بھی بقا کی نئی کہانی لکھی جائے گی۔
سیلاب آتے رہیں گے گزرتے رہیں گے۔ سانپوں کے کاٹے کا علاج، ویکسین کا استعمال اور ادویات ہر رضاکار کے پاس ہوں، بیماریوں سے، سیلابی وباؤں سے ڈینگی کی وبا سے بچنے کی تدبیر سب کو پتا ہونا چاہیے۔ حکومت جتنے بھی منصوبے بنا لے جب تک ہر فرد کو سیلاب سے نمٹنے کی تربیت نہیں دی جاتی، سیلاب کے نقصانات سے بچنا محال ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ آیندہ اس سے بھی شدید سیلاب آ سکتا ہے۔ ہماری امداد کے لیے باہر ملک سے کوئی نہیں آئے گا، ہمیں خود کو بڑے پیمانے پر قدرتی آفات سے بچنے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ (آمین۔)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی تربیت رہے تھے کے لیے
پڑھیں:
دریائے سندھ، کوٹری بیراج پر پانی کی آمد مزید بڑھ گئی
فائل فوٹودریائے سندھ میں کوٹری بیراج پر پانی کی آمد مزید بڑھ گئی، بہاؤ 4 لاکھ 7 ہزار کیوسک تک پہنچ گیا۔
فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق کوٹری بیراج پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔
کئی ہفوں بعد دریائے ستلج میں بھی پانی کا زور ٹوٹ گیا، گنڈا سنگھ والا اور ہیڈ سلیمانکی پر پانی کا بہاؤ معمول پر آگیا۔
فلڈ فور کاسٹنگ ڈویژن لاہور کے مطابق صرف ہیڈ اسلام پر نچلے درجے کا سیلاب رہ گیا، یہاں بھی پانی کی سطح کم ہو رہی ہے، باقی دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔