این آئی سی وی ڈی ، پلمبر کو ایڈمنسٹریٹر تعیناتی کا فیصلہ غیر قانونی قرار
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
مصطفی حسن عہدے پر رہتے ہوئے 8کروڑ 32لاکھ سے زائد کی مراعات وصول کرچکے
ایڈمنسٹریٹر کو عہدے سے ہٹانے ،حکومت کو چار ہفتوں میں اہل امیدوار کی تقرری کا حکم
این آئی سی وی ڈی میں پلمبر کو ایڈمنسٹریٹر تعیناتی کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈیزیزز کراچی میں ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کے خلاف دائر آئینی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر سید مصطفی حسن کو عہدے سے ہٹانے اور صوبائی حکومت کو چار ہفتوں میں اہل امیدوار کی تقرری کا حکم دے دیا ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں وکیل درخواست گزار ارشد خان تنولی نے مؤقف اختیار کیا گیا کہ سید مصطفی حسن کی ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تقرری غیر قانونی، خلافِ قواعد اور اقربا پروری پر مبنی ہے ۔ وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ قواعد کے مطابق گریڈ 18 کے ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر تقرری کے لئے صرف ایم بی اے کی ڈگری اور کم از کم دس سالہ متعلقہ تجربہ رکھنے والے امیدوار ہی اہل ہے لیکن سید مصطفی حسن اس معیار پر پورا نہیں اترتے ، ان کے پاس صرف بی اے کی ڈگری ہے اور کوئی انتظامی تجربہ نہیں ہے ۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سید مصطفی حسن اس عہدے پر رہتے ہوئے 8 کروڑ 32 لاکھ روپے سے زائد مراعات وصول کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ افسر کی اصل ذمہ داری مکینیکل ڈیپارٹمنٹ تک محدود تھی جہاں وہ لفٹس، جنریٹرز اور ایئرکنڈیشننگ پلانٹس کی نگرانی کرتے تھے ۔ این آئی سی وی ڈی کے وکیل محمد ذیشان عبداللہ نے مؤقف اختیار کیا کہ سید مصطفی حسن کو باقاعدہ طور پر ایڈمنسٹریٹر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ صرف عارضی طور پر چارج دیا گیا ہے تاکہ ادارے کے روزمرہ امور چلتے رہیں تاہم عدالت نے اس وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ ایک سال دس ماہ اور بیس دن کا عرصے کے دوران اہل امیدوار کی تقرری ہوجانی چاہیے تھی۔ جسٹس فیصل کمال عالم اور جسٹس جواد اکبر سرورانا پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چونکہ سید مصطفی حسن تعلیمی قابلیت کے معیار پر پورا نہیں اترتے اس لیے وہ ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے ۔ عدالت نے صوبائی حکومت اور این آئی سی وی ڈی کی انتظامیہ کو ہدایت دی کہ چار ہفتوں کے اندر اندر کسی اہل شخص کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے یا پھر کسی دوسرے اہل افسر کو چارج دیا جائے ، عدالت نے درخواست کو جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے صرف تقرری سے متعلق استدعا پر فیصلہ دیا۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کہ سید مصطفی حسن ا ئی سی وی ڈی کی تقرری
پڑھیں:
جسٹس طارق موقع ملنے کے باوجود کمرہ عدالت سے چلے گئے، سندھ ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
کراچی:سندھ ہائیکورٹ نے اسلام آباد کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق درخواستوں کی گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
فیصلہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس کے کے آغا نے تحریر کیا، عدالت نے 7 درخواستوں کے فیصلے علیحدہ پیراگراف کی صورت میں شامل کیے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے وکیل درخواست گزاروں سے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کیے۔ وکلا درخواست گزاروں کا اصرار تھا کہ پہلے اعتراضات پر فیصلہ کیا جائے۔ وکلا درخواست گزاروں نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل سے انکار کیا۔
جسٹس کے کے آغا نے تحریری فیصلے میں کہا کہ وکلا کو سماعت کا موقع دیا گیا تھا تاہم انہوں نے موقع ضائع کیا۔ درخواست گزاروں کے وکلا دوران سماعت کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے، اس لیے تمام درخواستوں کو عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کیا جاتا ہے۔
تحریری فیصلے میں جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے عدالت کی اجازت سے باوقار انداز میں بات کی لیکن جسٹس طارق محمود جہانگیری نے درخواست کے کسی نکتے پر بات نہیں کی اور موقع دیے جانے کے باوجود جسٹس طارق محمود جہانگیری کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔
جسٹس کے کے آغا نے تحریری فیصلے میں کہا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی فریق بننے کی درخواست بھی عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے، درخواست گزار اور فریق نے جان بوجھ کر سماعت سے انکار کیا اور واک آوٹ کیا۔ دانستہ عدم دلچسپی کی بنیاد پر عدالتی کارروائی کو نقصان پہنچایا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے پاس عدم پیروی یا عدم تعمیل کی صورت میں درخواستوں کو مسترد کرنے کا اختیار ہے۔ عدم پیروی پر عدالت کو مجبوراً درخواستوں کو مسترد کرنا پڑا۔ بیرسٹر صلاح الدین اور فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا، عدالتی کارروائی کس طرح چلانی ہے یہ طے کرنے کی مجاز عدالت ہے۔ وکلا کی خواہش کے مطابق عدالتی کارروائی طے نہیں کی جا سکتی۔
عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ اعتراضات اور قابل سماعت ہونے کا فیصلہ مشترکہ آرڈر کے ذریعے کیا جائے گا۔ اعتراضات درست ثابت ہونے کی صورت میں قابل سماعت ہونے کا معاملہ ثانوی ہو جاتا لیکن بدقسمتی سے وکلا درخواست گزاروں نے اصرار کیا کہ پہلے اعتراضات پر فیصلہ کیا جائے، عدالت نے وکلا درخواست گزاروں کو آگاہ کیا کہ تمام معاملات ایک ساتھ سنے اور طے کیے جائیں گے۔ تمام درخواست گزاروں کے وکلا کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ وکلا درخواست گزاروں کا رویہ واضح عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہے، وکیل درخواست گزاروں نے دانستہ طور پر سماعت کا موقع استعمال نہیں کیا۔ وکلا نے عدالت کے خلاف نعرے بازی کی اور عدالتی وقار کو مجروح کیا۔ ایسا طرز عمل سینیئر وکلا کے لیے نامناسب اور ان کے شایان شان نہیں، عدالت نے زیادہ سے زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوٹس جاری نہیں کیا۔ امید ہے وکلا آئندہ عدالتی وقار کا خیال رکھیں گے۔
عدالت کی تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر صلاح الدین اور فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کے اعتراضات 22 ستمبر کے عدالتی آرڈر سے متعلق تھے وار یہ عدالتی آرڈر اب تک برقرار ہے۔ عدالتی آرڈر پر اعتراض کی صورت میں درست طریقہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنا تھا۔ ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا۔
بینچ کی جانبداری سے متعلق طے شدہ اصول ہے کہ یہ جج کا خود کو الگ کرنا یا نا کرنا جج کے ضمیر یا مرضی پر منحصر ہے۔ بینچ کے دونوں ججز اس نتیجے پر پہنچے کہ خود کو الگ کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں۔
طے شدہ اصول ہے کہ کسی درخواست کے قابل سماعت کا سوال موجود ہو تو پہلے اس کا فیصلہ کیا جانا چاہیئے۔ عدالت سمجھتی ہے کہ درخواستوں میں مانگے گئے ریلیف کی بنیاد پر درخواستیں آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔
وکلا درخواست گزاروں نے سماعت کا موقع ضائع کیا اور عدالت کے باہر جاتے ہوئے شور شرابہ کیا۔ وکلا کی جانب سے ایسا رویہ قابل مذمت ہے۔ رجسٹرار ہائیکورٹ سماعت کے دوران کمرہ عدالت کے اندر اور باہر کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگز اور آڈیو ریکارڈنگ فوری طور پر محفوظ کریں۔ عدالت اپنی کارروائی کو خود ریگولیٹ کرے گی۔ عدالتی کارروائی کو وکلا کے خواہش کے سامنے یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا۔
درخواستیں عارف اللہ خان، اسلام آباد ہائیکورٹ بار، ڈاکٹر ریاض احمد، قادر راجپر، عامر نواز وڑائچ صدر کراچی بار ایسوسی ایشن، ملیر کورٹ بار ایسوسی ایشن، محمد عابد حسین ساقی و دیگر وکلا کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں۔