حماس کا خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر اسلحہ حوالے کرنے کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ،نیویارک،جنیوا(آن لائن،صباح نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)حماس کے سینئر رہنما غازی حمد نے کہا کہ غزہ میں حماس کو منظر نامے سے ہٹانے کی کسی بھی کوشش کو قبول نہیں کریں گے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو میں کیا۔حماس رہنما نے اعتراف کیا کہ اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد سے ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن یہ قیمت ہمیں ادا کرنی ہی تھی کیونکہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔غازی حمد نے کہا کہ اگر مستقبل میں ایک باضابطہ فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو حماس اپنے ہتھیار قومی فوج کے حوالے کرنے پر تیار ہوگی۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الحال حماس کو کمزور یا ختم کرنے کی کسی بھی بیرونی تجویز کو نہیں مانتے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے تسلیم کیا کہ غزہ میں ہزاروں معصوم شہریوں کے جانوں کا نقصان ایک المیہ ہے لیکن ان کے بقول یہ قربانیاں فلسطینی کاز کو مزید نمایاں کرنے کا باعث بنی ہیں۔خیال رہے کہ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے لیے ایک 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے۔جس میں تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی، مستقل جنگ بندی، اسرائیلی افواج کا بتدریج انخلا اور غزہ کے امور چلانے کے لیے ایک نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل شامل ہے۔اس انتظامی ڈھانچے کی سربراہی ممکنہ طور پر سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کریں گے جب کہ 10 رکنی بورڈ میں عرب اور اسلامی ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں تعمیر نو کے لیے فنڈنگ اور محدود سطح پر فلسطینی اتھارٹی کی شمولیت کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بعض شقوں پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے خاص طور پر فلسطینی اتھارٹی کی شمولیت اور حماس کے فوری غیر مسلح نہ ہونے پر اعتراض اٹھایا ہے۔علاوہ ازیںاسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز ایک بیان میں اعلان کیا کہ اس نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی میں تقریبا 120فضائی حملے کیے ہیں۔ادھر اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق 8 لاکھ سے زیادہ فلسطینی غزہ شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کے وحشیانہ حملوں میں 77 فلسطینی شہید اور 356زخمی ہوئے۔ شہدا میں 3افراد ایسے بھی شامل ہیں جن کی لاشیں ملبے تلے سے نکالی گئیں۔ وزارت صحت کے مطابق گذشتہ روز صرف امداد کی تلاش میں نکلنے والوں پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 17 فلسطینی شہید اور 89 زخمی اسپتالوں میں لائے گئے۔ یوں روزی روٹی کے متلاشی شہدا کی مجموعی تعداد بڑھ کر 2 ہزار 560 ہو گئی جبکہ زخمیوں کی تعداد 18 ہزار 703 سے تجاوز کر گئی ہے۔بیان میں مزید بتایا گیا کہ شہدا کی مجموعی فہرست میں مزید 300 افراد کے نام شامل کیے گئے ہیں جن کے بارے میں عدالتی کمیٹی نے مکمل معلومات اکٹھی کر کے انہیں باضابطہ طور پر شہدا کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔وزارت صحت کے مطابق 18 مارچ 2025 سے آج تک قابض اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں 13 ہزار 60 فلسطینی شہید اور 55 ہزار 742 زخمی ہو چکے ہیںجبکہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اس وسیع اسرائیلی جارحیت میں مجموعی طور پر شہدا کی تعداد 65 ہزار 926 اور زخمیوں کی تعداد 167 ہزار 783 تک پہنچ گئی ہے،وزارت صحت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اب بھی بڑی تعداد میں فلسطینی لاشیں ملبے تلے اور سڑکوں پر پڑی ہیں، تاہم قابض اسرائیل کے حملوں اور محاصرے کے باعث ایمبولینسیں اور سول ڈیفنس کی ٹیمیں ان تک پہنچنے سے قاصر ہیں، جس سے انسانی المیہ مزید سنگین ہو رہا ہے۔دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے ایک معاہدہ جلد طے پانے والا ہے۔ واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایسے فریم ورک کے قریب پہنچ گئے ہیں جو نہ صرف جنگ کے خاتمے بلکہ یرغمالیوں کی واپسی کا ضامن ہوگا، تاہم انہوں نے معاہدے کی تفصیلات پر بات کرنے سے گریز کیا۔غیرملکی خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ بیان پیر کو اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ممکنہ ملاقات سے قبل سامنے آیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق، دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں معاہدے کے بنیادی خدوخال پر تبادلہ خیال متوقع ہے۔امریکی صدر نے مزید بتایا کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے اہم رہنماؤں سے غزہ کی صورتحال پر مثبت بات چیت کی ہے۔دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے اعلان کیا کہ اس کے مجاہدین نے مغربی غزہ کے ساحلی پٹی میں واقع الشاطی کیمپ کے علاقے میں مسجد اسامہ کے قریب قابض اسرائیل کے ایک میرکاوا ٹینک اور ایک فوجی بلڈوزر کو نشانہ بنایا ہے۔القسام بریگیڈز نے اپنی ٹیلیگرام سائٹ پر جاری بیان میں کہا کہ محاذوں سے لوٹنے والے ہمارے جانباز مجاہدین نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے مسجد اسامہ کے اطراف ایک صہیونی میرکافہ ٹینک کو الیاسین 105 راکٹ اور العمل الفدائی دھماکا خیز آلے سے نشانہ بنایا اور ایک D9 بلڈوزر کو تاندوم میزائل سے کامیابی کے ساتھ تباہ کیا۔مزید یہ کہ القسام بریگیڈز نے اپنی آپریشنل سیریز “عصا موسیٰ کے تحت جاری کردہ فوٹیج میں دکھایا ہے کہ کس طرح تل الہوا کے علاقے میں ایک اور میرکافہ ٹینک کو الیاسین 105 سے نشانہ بنایا گیا۔واضح رہے کہ القسام بریگیڈز اور فلسطینی مزاحمتی دھڑے معرکہ طوفان الاقصی کے تحت قابض اسرائیل کی گھس بیٹھی فوج اور ان کی جارحانہ مشینری کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں اور اس درندہ صفت دشمن کی جانب سے دو برس سے زائد عرصے سے جاری خونریز اور تباہ کن جنگ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔قبل ازیںبین الاقوامی طبی تنظیم “ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز نے اعلان کیا کہ اس نے غزہ شہر میں اپنی تمام سرگرمیاں معطل کر دی ہیں کیونکہ قابض اسرائیل کی درندگی اور مسلسل بڑھتے ہوئے فوجی حملوں نے طبی سہولیات کو مفلوج کر دیا ہے۔جنیوا سے جاری بیان میں تنظیم کے ایمرجنسی امور کے کوآرڈینیٹر جیکب گرنجیہ نے کہا کہ قابض فوج کی طرف سے ہماری عیادت گاہوں کا محاصرہ اور حملے ہمیں اپنے کام روکنے پر مجبور کر گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو ہم کبھی نہیں لینا چاہتے تھے مگر اب ہمارے پاس کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ غزہ میں لاکھوں افراد جن میں نوزائیدہ بچے، شدید زخمی مریض اور زندگیاں بچانے کے منتظر افراد شامل ہیں، سخت خطرے میں ہیں کیونکہ وہ نہ تو علاج کی سہولت تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ ہی سفر کر سکتے ہیں۔تنظیم کے مطابق وہ اسپتال اور وارڈز جو نوزائیدہ بچوں کے رونے اور طبی آلات کی آوازوں سے گونجنے چاہیے تھے اب سنسان اور ویران پڑے ہیں کیونکہ قابض اسرائیل کی درندگی نے ہمیں اپنا آخری فعال طبی مرکز بھی خالی کرنے پر مجبور کر دیا۔علاوہ ازیںامریکا نے نیویارک کی سڑکوں پر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے میں شرکت پر کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو کا ویزا منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کولمبیا کے صدر نے احتجاج میں امریکی فوجیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو نہ مانیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی آفیشل پوسٹ میں کہا کہ گستاوو پیٹرو کے غیر ذمہ دار اور اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے ویزا منسوخ کیا جا رہا ہے۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے باہر فلسطین کے حق میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پیٹرو نے عالمی مسلح فورس بنانے کا مطالبہ کیا، جس کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کی آزادی ہو اور جو امریکا کی فوج سے بھی بڑی ہو۔انہوں نے امریکی فوجیوں سے کہا، اپنی بندوقیں عوام کی طرف نہ کریں، ٹرمپ کے احکامات کو نہ مانیں بلکہ انسانیت کے احکامات کی پیروی کریں۔پیٹرو، کولمبیا کے پہلے بائیں بازو کے صدر، نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی صدر ٹرمپ کو غزہ میں نسل کشی کا شریک جرم قرار دے چکے ہیں اور امریکی میزائل حملوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ادھرترک صدر طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل کو نہ روکا گیا تو فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں ادھوری ہی رہیں گی۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدر طیب اردوان نے اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو، ان کی کابینہ اور ان کے ساتھ کھڑے “نسل کْش ٹولے” کے فوری ٹرائل کا مطالبہ بھی کیا۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے استنبول میں منعقدہ بوسفرس ڈپلومیسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ترک صدر نے غزہ کی تباہی پر سو ارب ڈالر اسرائیلی حکومت سے وصول کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مظلوموں کی آہیں نیتن یاہو کو ایک دن ضرور پکڑیں گی۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ متعدد ریاستوں نے فلسطین کو تسلیم کرنے میں تاخیر سے کام لیا لیکن دیر آید درست آید، یہ ایک اہم قدم ہے۔تاہم انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ فلسطینی ریاست کو 65 ہزار بے گناہ جانوں کے ضائع ہونے سے پہلے کیوں نہیں تسلیم کیا گیا؟ترک صدر نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نسل کْشی کے نیٹ ورک کے سربراہ کی جھوٹی باتوں اور دھمکیوں کو سننے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ خالی نشستوں سے خطاب کر رہے تھے۔ترک صدر طیب اردوان نے اقوامِ متحدہ اور دوسری عالمی تنظیموں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والا عالمی نظام اپنی افادیت اور ساکھ کھو بیٹھا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ جو عالمی ادارے انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لیے بنائے گئے تھے وہ مسائل کے حل کے بجائے خود مسئلے کا حصہ بن چکے ہیں۔ترک صدر نے کہا کہ غزہ میں بھوک کو بے دردی سے تباہ کن ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ غزہ کے مسئلے کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے تھے، اب آہستہ آہستہ اصل حقیقت جاننے لگے ہیں۔انھوں نے خبردار کیا کہ عالمی برادری چاہے خاموش رہے۔ ترکیہ خطے میں مظلوموں کی تکالیف سے منہ نہیں موڑ سکتا۔صدر اردوان نے کہا کہ جیسے جنگ کے سوداگر آج آگ پر تیل ڈال رہے ہیں۔ ترکیہ نے ہمیشہ امن کے لیے کوشش کی ہے اور آج فلسطین و غزہ میں بھی یہی کر رہا ہے۔ترک صدر طیب اردوان نے ورلڈ کپ 2026 سے اسرائیل کو باہر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بتایا کہ ترک فٹبال فیڈریشن نے اپنا مؤقف ظاہر کر دیا ہے اور حکومت بھی اس پر نظر ثانی کرے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ترک صدر طیب اردوان نے قابض اسرائیل کے القسام بریگیڈز فلسطینی ریاست کہ غزہ میں نیتن یاہو اعلان کیا کا مطالبہ کرتے ہوئے کیا کہ اس نے کہا کہ انہوں نے کے مطابق انھوں نے چکے ہیں کرنے کا شہدا کی کیا ہے کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
غزہ، فلسطین کا اٹوٹ انگ ہے؛ اسرائیل یہودی آبادکاری سے باز رہے؛ محمود عباس
فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکا کی جانب سے ویزا فراہم نہ کرنے پر ویڈیو لنک کے ذریعے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پُرجوش خطاب کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اپنی تقریر میں اسرائیلی مظالم، یہودی بستیوں کی آبادکاری کے منصوبوں اور حماس کے حملوں کی بھی مذمت کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے اور ناکہ بندی محض جارحیت نہیں بلکہ سنگین جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے جسے تاریخ انسانی کی بدترین المیوں میں شمار کیا جائے گا۔
فلسطینی صدر نے کہا کہ غزہ کے عوام تقریباً 2 برس سے نسل کشی، تباہی، بھوک اور جبری بے دخلی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا جا چکا ہے جن میں اکثریت نہتے شہری، بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں۔
صدر محمود عباس نے اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آبادکار ہمارے گھروں اور کھیتوں کو جلا دیتے ہیں، درخت اکھاڑتے ہیں، دیہات پر حملے کرتے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی سرپرستی میں قتل کرتے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ غزہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور ہم وہاں کی حکمرانی اور سلامتی کی پوری ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں لیکن اس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حماس اور دیگر گروہوں کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے تاکہ ایک ریاست، ایک قانون اور ایک ملکی فوج کے اصول کے تحت حکومت قائم ہوسکے۔
انھوں نے حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حماس کی یہ انفرادی کارروائی فلسطینی عوام یا ان کی آزادی کی منصفانہ جدوجہد کی نمائندگی نہیں کرتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس، ہیبرون اور غزہ میں مساجد، گرجا گھروں اور قبرستانوں پر حملے کیے گئے جو بین الاقوامی قانون اور تاریخی حیثیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
محمود عباس نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے "گریٹر اسرائیل منصوبے" کی کال کو مسترد کرتے ہوئے قطر پر حملے کو بھی "سنگین اور کھلی خلاف ورزی" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کا حصہ ہے جو نہ صرف فلسطین بلکہ خود مختار عرب ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔
فلسطینی صدر نے اسرائیلی حکومت کو "انتہا پسند" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہودی بستیوں کے پھیلاؤ اور نئے منصوبوں کے ذریعے مغربی کنارے کو تقسیم کرنے اور بیت المقدس کو اس کے اردگرد کے علاقوں سے الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے اسرائیل کے ای 1 (E1) منصوبے کو "دو ریاستی حل کے خاتمے" کے مترادف قرار دیا۔