کیا پاکستان میں واقعی طلاق کی شرح بڑھ گئی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ یہ مصرعہ خواتین کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے اور حقیقی زندگی میں دیکھا جائے تو خواتین انسانی معاشرے کا جزو لازم ہیں بقاء انسانی ان کے بنا نامکمل ہے۔
ایک عورت ہی نسل کو پروان چڑھاتی ہے مکان کو گھر بناتی ہے اور مرد کوا س قابل بناتی ہے کہ وہ گھر اور بچوںکی فکر سے آزادہو کر حصول معاش کے لئے جدوجہد کر سکے۔یہ سمجھنا اور قبول کرنا بے حد ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں ہی بقاء معاشرہ اور خاندان کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
دونوں کو مل کر گھر بسانے اور شادی چلانے میں برابر حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی اور کس نے کیسا کردار ادا کرنا ہے اس کا تعین وہ مل کر کریں گے اور دونوں میں سے نہ تو کوئی ادنٰی ہے نا کوئی اعلٰی لیکن یہ افسوسناک پہلو ہے کہ عورت کو معاشرے میں کم تر اور کمزور سمجھا جاتا ہے۔
خصوصاً اس صورت میں تو اس کا جینا محال ہوجاتا ہے اگر وہ ایک طلاق یافتہ عورت ہو۔ معاشرہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اُس طلاق کے پیچھے کیا وجوہات تھیں، کن حالات نے اس نہج تک پہنچایا کہ وہ عورت طلاق لینے پر مجبور ہو گئی ، معاشرہ اس کا سارا الزام عورت کو دیتا ہے خواہ اس کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو۔
ہمارے ہاں ہونے والی طلاقوں میں اکثر جو وجوہات سامنے آتے ہیں وہ معاشرتی اور معاشی مسائل سے جڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں طلاق کی شرح میںمسلسل اضافہ ہونے کے باوجود یہ شرح دنیا کے مقابلے میںکم ہے، آئیے اس کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
کم شرح طلاق والے ملکوں میں کونسے عوامل کارفرما ہیں؟
دنیا میں طلاق کی کم ترین شرح والے ممالک پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس میں انڈیا میں 0.
یہ شرح ہر ہزار شادی شدہ جوڑوں کی ترجمانی کرتی ہے۔سن 2022ء میں ہندوستان دنیا میں سب سے کم طلاق کی شرح رکھنے والا ملک تھا۔ کسی بھی ملک میں کم شرح طلاق کے لئے کسی ایک وجہ کو حتمی نہیں جانا جاسکتا اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
جن میں مذہب، مقامی قوانین اور طلاق لینے والوں کے لئے ناسازگار معاشرتی اور معاشی مواقع اہم ہوتے ہیں۔خاص طور پر وہاں کی بنیادی روایات اور اقدار۔ جیسے کے ذیلی صحارائی افریقا میں طلاق اس لئے بھی نہیں ہونے دی جاتی کے انھیں ’دلہن کی قیمت‘ جو خاوند کے گھر والے شادی سے قبل ادا کرتے ہیں وہ واپس کرنا پڑتی ہے۔
دنیا میں کن ممالک میں طلاق کی شرح سب سے بلند ہے؟
زیادہ شرح والے ممالک میں مالدیو، کزکستان، روس، جیورجیا، لیتھونیا، امریکہ، برلاس، چین، کیوبا، فن لیند، سویڈن،ڈینمارک ، یوکرائن اور کینیڈا شامل ہیں۔ اعدادوشمار کے حساب سے مالدیو بلند ترین شرح رکھنے والا ملک ہے اور اس کے پیچھے متعدد عوامل کارفرما ہیں جیسے وہاں طلاق کا پروسس بلکل آسان ہے اور قدرے سستا ہے۔
خواتین معاشی طور پر نسبتاً زیادہ خود مختار ہیں اورمعاش کے لئے شوہر کے بنا بھی گزارہ کر سکتی ہیں۔وہاں کی جدید ثقافتی روایات کے مطابق طلاق کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ دیکھا جائے تو مغربی انڈسٹریلائز ممالک میں ایشیائی اور افریقی مذہبی یا قدامت پسند ممالک کی نسبت طلاق کی شرح بہت بلند ہے۔خصوصاً جہاں پر صنفی عد م مساوات ور سماجی بدنامی کو طلاق سے منسوب کیا جاتا ہے۔
یورپ کی بات کی جائے تو وہاں کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت وہاں بھی طلاق کا رحجان پروان چڑھ رہا ہے۔ملڈووا، لکسمبرگ،برلاس، لیتھونیا، سویڈن ، یوکرین ، برطانیہ اور فن لینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اس کی شرح کئی زیادہ ہے۔اعدادو شمار سے پتہ چلتاہے کہ طلاق کی شرح شمالی یورپ اور روسی فیڈیشن میں زیادہ جبکہ دوسرے حصوں میںکم ہے۔سب سے زیاد ہ شرح ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈاور لکسمبرگ میں ہے۔کچھ محقیقین کے خیال میں جہاں مذہب کا اثر ہے ان معاشروں میں خاندان کی جڑیں مضبوط ہیں۔ جیسے آئرلینڈ اور اٹلی میں رومن کیتھولک عقائد رکھنے والوں میں طلاق کی شرح کم ہے۔
یہ درست بھی ہوسکتا ہے لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف مذہب ہی ایک وہ عنصر نہیں جو شادی کے رشتے کو محفوظ بناتا ہے بلکہ اس کا ایک بڑا اہم پہلو یہ بھی ہے کے ڈنمارک اور سویڈن جیسے ممالک میں صرف سو ڈالر میں طلاق لی جاسکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں برطانیہ میں طلاق کا کیس فائل کرنے کے لئے چھ سو ڈالر کے قریب لاگت آتی ہے۔ تاہم طلاق کے لئے کم لاگت کا آنا بھی اضافے کی حتمی وجہ نہیں ہے۔ لیکن بہر حال اسے اس ضمن میں نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ۔
معاشی خود مختاری نہ ہونے کی وجہ سے طلاق کی شرح کم ہے؟
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستان کے صوبہ پنجاب میں طلاق کی شرح 34فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں رواں برس راولپنڈی کی عدالت میں خلع کے کیسسز میں ریکارڈ اضافہ ہوا جہاں ڈسٹرکٹ کورٹ میں گھریلو ناچاقی پہ 4,980 طلاق کے کیس فائل ہوئے۔ تاحال ڈسٹرکٹ کورٹ میں 26,980 کیسز ٹرائل میں ہونے کے باوجود نئے فائل ہونے والے مقدمات میں 1,170 خلع کے لئے خواتین کی جانب سے دائر کئے گئے۔
ایک سروے کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ طلاق کے زیادہ کیسز بیرون ملک مقیم شادی کرنے والوں کی جانب سے دائر ہوئے ۔بہت سی شادیوں کے بعد لڑکیوںکو معلوم ہوتاہے کہ جن معاشی اور معاشرتی بنیادوں پر ان کے والدین نے بندھن جوڑا تھا یا تو وہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتیں یا ان میںجھول ہوتے ہیں۔
شادیوں کے ٹوٹنے کے پیچھے کئی عوامل درپیش ہوتے ہیں جن میں برداشت کی کمی، رابطے میں تعطل اور غیر ازدواجی تعلقات شامل ہیں۔ایک گیلپ سروے کے مطابق بڑی وجہ عدم برداشت ہے جبکہ لوگوں کے نزدیک اس کی مزید وجوہات میں مذہب سے دوری، مغربی اثرات، عورتوں کا گھر کے بجائے کیرئیر کو ترجیع دینا اور مردوںکی شادی میں عدم دلچسپی ہے۔
روزگار کے زیادہ مواقع اور آمدنی خواتین کے مالی لحاظ سے ایک غیر تسلی بخش شادی کے بندھن میں بندھے رہنے کے امکان کو کم کر دیتے ہیں ۔گزشتہ چند دہائیوںسے ایشیائی خطے میں خواتین کی تعلیم اور معاشی دھارے میں ان کی شمولیت نے بہت حد تک بدلاؤ کے امکانات پیدا کر دیئے ہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ طلاق کی شرح کو متاثر کرنے والے عوامل میں پہلی شادی کے وقت زیادہ عمر، طلاق کے سول قوانین میں تبدیلیاں اور طلاق یافتہ افراد کی حمایت شامل ہیں۔اور یہ شرح مختلف ممالک کی جغرافیائی حدود پہ انحصار کرتی ہے جیسے مشرقی ایشیائی مماک کوریا، چین، جاپان میں طلاق کی شرح جنوبی اور مشرقی خطے سے زیادہ ہے۔
گاؤں میں شہروں کی نسبت طلاق کا تناسب کم کیوں؟
دیکھا جائے تو خواتین ابھی بھی پاکستان میں سماجی دباؤ اور معاشی خود مختاری نہ ہونے کے باعث ایسی شادیوں کو چلانے پر مجبور ہیںجو نہ تو ان کی مرضی سے ہوئیں اور نہ ہی ان کی مرضی سے ختم ہوسکتی ہیں۔اس میںایک بنیادی وجہ خواتین کو اپنی مرضی سے شادی کا فیصلہ نا کرنے دینا بھی شامل ہے جس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق گاؤں اور دیہاتوں میں طلاق کی شرح شہروں کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے جس کی وجہ خاندانی نظام، برادری کلچر اور طلاق کے بعد خواتین کے حوالے سے منفی سوچ ہے۔
جبکہ اس کے مقابلے میں شہروں میں محتاط سماجی میل جول ، معاشی خودمختاری اور کسی حد تک تعلیم کی وجہ سے لوگ طلاق کے حوالے سے زیادہ محتاط نہیں ہوتے۔گاؤں اور دیہاتوں میں روایتی انداز اور سوچ کی بنا پر رشتے استوار کئے جاتے ہیں جہاں لڑکی لڑکے کی پسند ناپسند کو خاندانی روایات کی نسبت ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔اور اکثر جائداد اور زمینوں کو کسی دوسرے خاندان میں تقسیم نہ ہونے دینے سے بچانے کے لئے قریبی رشتوں میں ہی شادی کی جاتی ہے تاکے کنٹرول ان کے ہاتھ میں رہے۔ اور ایسی شادیاں جو بنا کسی قلبی لگاؤ کی جائیں ان کا تادیر چلنا قدرے مشکل ہوتاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچاسی فیصد سے زیادہ شادیاںخاندان کی مرضی سے کی جاتی ہیں اور صرف پانچ فیصد لوگ پسند کی شادی کرتے ہیں۔
کیا پاکستان میں واقعی طلاق کی شرح میں خوفناک اضافہ ہو ا ہے؟
دنیا بھر میں طلاق کی وجوہات کے حوالے سے بات کی جائے تو سب اس میں دھوکہ ، بے وفائی، باہمی رابطے میں کمی، معاشی مسائل، غیر وابستگی، گھریلو ناچاقی اور مار پیٹ شامل ہیں۔
طلاق کے پیچھے کارفرما عوامل میں سے ایک تاریک پہلو خواتین پر تشدد بھی ہے۔شہروں میں رہنے والی خواتین بھی اس کا سامنا کرتی ہیں لیکن گاؤںمیں خواتین کو اس حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ کم پڑھے لکھے ہونے اور معاشی خود مختاری سے محروم ہونے کی وجہ سے وہ ایسی شادی میں گزارہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیںکیونکہ اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات اٹھانے کے قابل نہیںہوتیں۔ اور ڈومسٹک وائلسن کا شکار ہونے کے باوجود قانونی مدد لینے سے گریزاں ہوتی ہیں کیونکہ سماجی دباؤ اور خاندانی نظام انھیں ایسا قدم اٹھانے سے باز رکھتا ہے۔
ایک سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ بتایا ہے کہ ان کے پاس آنے والی بہت سی خواتین شوہروں کی بے وفائی اور غیر عورتوں سے ناجائز تعلقات کی وجہ سے وہ طلاق لینا چاہتی ہیں لیکن جب ان کو لیگل پروسس کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو نہ ہی ان کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں نا ہی وہ ایک پیچیدہ سسٹم سے لڑنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عورت اس کے بعد بھی اپنے لئے ڈٹ جائے تو معاشرہ اسے بالکل سپورٹ نہیںکرتا اور ہر طلاق کے بعد عورت کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرے کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں بہت سے مسائل کے ساتھ یہ حقیقت افسوسناک ہے کے شادی شدہ افراد کی ایک بڑی تعداد شادی سے خوش نہیں ہے اور جہاں جس کو موقع ملتا ہے وہ بد عہدی کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس میںاکثریت مردوں کی ہے کیونکہ انھیں خواتین کی نسبت کئی زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں اور پکڑے جانے کی صورت میں ان کے معاشرتی رتبے میںکوئی خاص فرق بھی نہیں آتا۔ اس کے برعکس اگر کسی عورت پر بد کرداری کا جھوٹا الزام بھی لگا دیا جائے تو بدنامی آنے والی نسلوں تک پیچھا کرتی ہے۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کے بدلتے ہوئے تناظر میں پاکستان کے اندر طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ رواں برس ہونے والے ایک گیلپ سروے میں یہ سوا ل کیا گیا کے گزشتہ چھ ماہ میں کسی قریبی کو طلاق ہوئی ہے یا اس کے بارے میں سنا ہے تو صرف اکیس فیصد لوگوں کا جواب ہاں میں تھا۔سندھ میں 2020میں سات سو فیصد اضافے کی رپورٹس آئیں۔
پنجاپ کے علاوہ باقی صوبوں کی بات کی جائے توطلاق کی شرح سے متعلق کوئی ٹھوس اعداد و شمار کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے شادیاں اس وقت ٹوٹنے کے دہانے پر ہیں لیکن خواتین کی معاشی و سماجی حیثیت ان کے لئے وینٹی لیٹر کا کام کر رہی ہے ۔ اگر معاشرے کی فلاح کو مدنظر رکھا جائے تو پھر وسیع بنیادوں پر شعور اور آگاہی کے ساتھ خواتین کو سماجی دھارے میں شامل، ان کی خودمختاری کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بحرین میں ہونے والی ایشین یوتھ گیمز میں پاکستان کا 99 رکنی دستہ حصہ لے گا
لاہور:بحرین میں ہونے والی ایشین یوتھ گیمز میں پاکستان کا ننانوے رکنی دستہ حصہ لے گا۔
وزیراعظم یوتھ پروگرام کے سربراہ رانا مشہود احمد چیف ڈی مشن ہوں گے، مناما بحرین میں ایشین یوتھ گیمز کا میلہ بائیس اکتوبر سے شروع ہوگا۔
ایونٹ میں چودہ سے اٹھارہ سال کے پینتالیس ممالک کےچار ہزار تین سو کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے، پاکستان اٹھارہ کھیلوں میں شریک ہوگا۔
ایک سو دو ارکان میں سے چھپن کے اخراجات پاکستان اسپورٹس بورڈ برداشت کرے گا، باقی ارکان خود ٹکٹ اور رہائش کا خرچہ کریں گے، قومی دستے کی مختلف گروپس میں روانگی سترہ اکتوبر سے متوقع ہے۔