بلتستان داستان (پہلی قسط)
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
دور پہاڑوں میں ایک بڑا سا گھونسلا تھا جسے سب ترشنگ کے نام سے جانتے تھے۔ نہ جانے ترشنگ میں ایسی کیا بات تھی کہ جب بھی کوئی اجنبی پرندہ اس طرف کا رخ کرتا تو اسی گھونسلے میں کچھ دیر سستانا پسند کرتا اور پھر اپنی آگے کی منزلوں پر روانہ ہوجاتا۔ بڑے بڑے پرندے ہوں یا پھر کوئی اور ذی روح، سب ہی کا مسکن یہی ایک گھونسلا ترشنگ تھا۔
زیادہ تر پرندے یہیں ترشنگ میں آتے، نہاتے دھوتے، کچھ دیر وادی کا نظارہ کرتے اور پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ اُس دن بھی ایک قافلہ ترشنگ کی طرف نکلا۔ قافلے میں طرح طرح کے پرندے تھے۔ کچھ بدبو دار اور غلیظ اور کچھ لومڑی کی طرح چالاک مگر سب پرندے تو ایک جیسے نہ تھے۔
کچھ منفرد بھی تھے جن میں سے ایک ’’سی مرغ‘‘ تھا۔ چپ چاپ مگر شاطر سی مرغ جو اندر کی باتیں صرف اندر ہی رکھتا تھا۔ بے قدروں کو اپنے آپ سے دور رکھتا تھا مگر جہاں اسے اپنا سچ جاننے والے پرندے نظر آتے، وہ خود ان کے پاس جاتا، انھیں بتاتا کہ جہاں تم لوگوں نے ڈیرا ڈالا ہے، یہ تم لوگوں کی منزل نہیں۔ کوئی تم سب کو غلط بتا رہا ہے کہ بس ترشنگ ہی یہاں کا آخری سچ ہے۔ ترشنگ تو صرف ایک فریب تھا جو وہ خود بہت سے لوگوں کو دیتا تھا اور جو کوئی بھی ترشنگ کے اس فریب میں آ جاتا تھا، ترشنگ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک پردہ ڈال دیتا، جس سے دیکھنے والے کو ترشنگ کا سچ ہی دنیا کا آخری سچ دکھائی دیتا تھا۔
سی مرغ ترشنگ کے فریب سے واقف تھا۔ سی مرغ جس کے سینے میں دل تو سی مرغ کا ہی تھا مگر دماغ میں لومڑی کی سی چالاکی ضرور تھی۔ جب سب پرندوں کا قافلہ ترشنگ کے گھونسلے میں ترشنگ کے سچ کو ہی وادی کا سچ مان رہا تھا تو سی مرغ نے ہدہد، فاختہ، چکور اور عقاب کو اپنے پاس بلایا اور بتانے لگا کہ اے ناداں پرندوں تم جس سچ کو وادی کا آخری سچ سمجھ رہے ہو، وہ ایک فریب سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔ اس وادی کا آخری سچ تمھیں یہاں سے بہت دور ملے گا جس کے لیے تم سب کو خود سے محنت کرنا پڑے گی۔
وہ چاروں پرندے نہ جانے کیوں سی مرغ کی باتوں میں آ گئے اور صبح سویرے ہی انھوں نے انجان راہوں پر سفر کرنا شروع کردیا۔ سی مرغ انھیں وادی کی مختلف باتیں بتاتا اور سارا سفر انھیں یہ یقین دلواتا رہا کہ وادی کا اصل سچ ابھی ان سے بہت دور ہے اور یہ بھی کہ وادی کا اصل سچ جاننے کے لیے انھیں خود سے بہت محنت کرنا ہو گی۔ اُدھر ترشنگ گھونسلے کو خبر ملی کہ کچھ پرندے ترشنگ کو دھوکہ دینے میں کام یاب ہوچکے ہیں۔
انھوں نے ترشنگ کے بتائے ہوئے سچ کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور وہ پانچ پرندے خود ہی وادی کا سچ دیکھنے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ ترشنگ پہلے تو غصے سے لال پیلا ہوا، پھر فوراً ہی اس نے کچھ ایسے منتر پڑھے کے پانچوں پرندوں کے راستے میں بڑے بڑے پتھر گرنے لگے، طوفان آنے لگے مگر سب پرندے متحد رہے۔ سی مرغ سمجھ چکا تھا کہ یہ سب ترشنگ گھونسلے کی چالیں ہیں۔
چاروں پرندے سمجھ دار تھے، انھوں نے بھی سی مرغ کی ہاں میں ہاں ملائی کہ ہم سب آگے بڑھیں گئے اور ترشنگ کی سب چالوں کو ناکام بنا دیں گے۔ جب ترشنگ ہر طرف سے ناکام رہا تو اس نے ان پانچوں پرندوں کے راستے میں بڑے بڑے فریب کھڑے کردیے۔ سیاہ چادروں میں لپٹے ہوئے فریب جو گھوڑوں پر سوار تھے اور ان پانچوں کو وادی کے اصل سچ کو جاننے سے روکنا چاہتے تھے۔
سی مرغ نے بھی یہاں اپنی چال چلی۔ اس نے اپنے بنائے ہوئے منتر سے گھوڑوں کو فریب سے آزاد کروایا اور انھیں اپنا اسیر کر کے، اپنے ساتھ وادی کا اصل سچ دیکھنے کے لیے قائل کر لیا۔ اب پانچوں پرندے، دو گھوڑے اپنے اپنے فریب کے ساتھ ہی وادی کا اصل سچ دیکھنے کے واسطے نکل پڑے۔ سی مرغ نے عقاب اور چکور کو سب سے آگے روانہ کیا، گھوڑوں کو ان کے فریب سے آزاد کروایا اور ہدہد اور فاختہ کو گھوڑوں پر بٹھا کر خود سب سے پیچھے رہا کہ وہ دیکھے کون کون وادی کا اصل سچ کہاں کہاں سے دیکھ پاتا ہے۔ سی مرغ وادی کا اصل سچ پہلے ہی دیکھ چکا تھا، اس لئے اس کا پیچھے رہنا ضروری تھا۔ تمام پرندے چلتے گئے کیوں کہ اس وادی میں اڑنے کی اجازت نہیں تھی۔
سی مرغ انھیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ راستے میں سب پرندوں کو مختلف فریب ملیں گے۔ اگر سب نے ان فریبوں کو دھوکہ دے دیا تو وہ اس وادی کا اصل سچ دیکھنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔ چاروں پرندوں نے راستے میں ایک سنہری مچھلی کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھا۔ ایک شیر کو بکری کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا، سانپ کو نیولے کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے دیکھا تو چاروں پرندے پکار اٹھے کہ یہ تو وہی فریب ہیں جن کا ذکر سی مرغ نے ہم سے پہلے کیا تھا۔ چاروں پرندے چلتے گئے اور سی مرغ ان کے پیچھے تھا۔ سب فریب رفتہ رفتہ غائب ہوتے گئے اور پھر ایک دم سے منظر بدلا اور وادی کا اصل سچ ان چاروں پرندوں کے سامنے آگیا۔
چاروں پرندے اس وادی کا اصل سچ دیکھ رہے تھے جب کہ ان کے پیچھے سی مرغ کھڑا تھا۔ ان پانچوں کے سامنے وادی کا سب سے بڑا سچ نانگا پربت کی صورت میں کھڑا تھا جو کہ ترشنگ سے چھوٹے موٹے سیاحوں کو دھوکا دینے کے لیے فقط اپنا ایک فریبی چہرہ دکھاتا ہے۔ ہدہد، فاختہ، عقاب اور چکور نے جب نانگا پربت کی سب سے بلند دیوار کو اپنی آنکھوں سے بِنا بادلوں کے دیکھا تو پکار اٹھے کہ اے سی مرغ تُو سچا تھا۔ ترشنگ صرف ایک دھوکا ہے۔ وادی کا اصل سچ یہاں ہرلنگ کوفل میں پوشیدہ ہے۔ وادی کا اصل سچ دیکھ لینے کے بعد فاختہ کی بے چینی بڑھی تو سی مرغ سے ہی سوال کرنے لگی۔
وادی کے اصل سچ کو دیکھنے سے زیادہ اہم کیا ہے؟
’’اپنے سچ کو دیکھنا۔‘‘ سی مرغ نے سکون سے جواب دیا۔
’’اور اپنا سچ ہم سب کو کہاں دیکھنے کو ملے گا؟‘‘
لاتوبو کے پانیوں پر۔۔۔ سی مرغ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ہدہد اور فاختہ نے خواہش ظاہر کی کہ وہ وادی کے سچ کو جان لینے کے بعد، اب اپنا سچ بھی دیکھیں گی مگر ایک ہی وقت میں دونوں حقیقتوں کو جان پانا فی الحال ممکن نہیں تھا۔ سی مرغ نے فیصلہ سنایا کہ ہم سب پرندے پھر کسی مناسب وقت میں ایک بار پھر سے ترشنگ کو فریب دیں گے اور اپنے سچ کو جاننے کے لیے نانگا پربت کی جھیل لاتوبو کی طرف سفر کریں گے۔
پانچوں پرندوں نے ہرلنگ کوفل سے نانگا پربت کو آخری بار دیکھا اور ایک بار پھر سے ترشنگ کی طرف چل پڑے جہاں اب ان پانچوں نے دوسرے پرندوں کو فریب دینا تھا۔
گزرے برس مجھ سے ایک اچھا کام سرزد ہوگیا۔ حالاں کہ مجھے اس کی کوئی امید نہ تھی۔ میرے احباب مجھے یہ شرم دلوانے میں کام یاب رہے کہ میں نے ابھی تک دنیا کے آٹھویں بڑے پہاڑ یعنی کہ نانگا پربت کو نہیں دیکھا۔ نہ میں بیال کیمپ دیکھ سکا اور نہ ہی میں نانگا پربت کو روپل سے دیکھ سکا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں دن دس گیارہ بجے سیالکوٹ سے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوا۔ پیر ودھائی اڈے سے استور کی گاڑی پکڑی جو کہ شام تقریباً پانچ بجے روانہ ہوئی اور اس نے ٹھیک آٹھ بج کر دس منٹ پر مجھے استور اڈے پر اتار دیا۔
ان دنوں خدا مجھ پر کچھ زیادہ ہی مہربان تھا کہ وہاں پر ایک بائیک والے کا بندوبست ہوگیا جس نے مجھے استور اڈے سے اٹھایا اور اپنی بائیک پر ترشنگ سے ہوتا ہوا نانگا پربت کے بیس کیمپ پر لے گیا۔ اگلے دن میں نانگا پربت کے دوسرے بیس کیمپ پر موجود لاتبو جھیل دیکھ کر واپس تو آگیا مگر پورا سال میری نظروں کے سامنے نانگا پربت کا پہاڑ گھومتا رہا۔
اسی وقت کوشش کی کہ منی مرگ کے لیے بھی کوئی موٹر سائیکل کا بندوبست ہوجاتا مگر اطلاع یہ ملی کہ منی مرگ جانے کے لیے آرمی کی طرف سے کم از کم 150 بائیک کی شرط رکھی گئی ہے۔ میرے بہت ڈھونڈنے پر بھی مجھے استور سے 150 بائیک نہ مل سکی۔ ایک ہی حل تھا کہ یا تو گھر واپس آ جاتا یا پھر ایک مکمل جیپ کرواتا اور منی مرگ کی جانب چلا جاتا۔ جیپ کم از کم 20 سے 25 ہزار کی پڑنی تھی۔ عقل مندی یہی تھی کہ میں استور سے گھر واپس چلا آؤں اور اگلے برس کسی ٹور آپریٹر کے ساتھ منی مرگ کی طرف جاؤں۔
ٹورز آپریٹر کے ساتھ سفر کرنا اور خاص کر ایک لمبے سفر پر نکلنا ایک بہت ہی رسکی کام تھا۔ پاکستان میں زیادہ تر ٹور آپریٹر فراڈ ہی ہیں۔ بہت کم ٹور آپریٹر ایسے ہیں جنہوں نے اپنی ٹور کمپنی کی رجسٹریشن کروا رکھی ہے۔ اس فراڈ کے پیچھے قصور زیادہ تر ہماری اپنی عوام کا ہی ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو کسی بھی ٹور پر جانے سے پہلے نہ تو ٹور آپریٹر کا لائسنس نمبر چیک کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے گاڑی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ ٹورز آپریٹر کا وطیرہ یہی ہے کہ مختلف لوگ ایک ساتھ مل کر کسی بھی ٹور کے بارے میں اعلان کرتے ہیں۔ ہر کوئی تقریباً سات آٹھ افراد کو ٹور کے جھانسے میں لانے میں کام یاب ہو جاتا ہے اور پھر یہ تین چار ٹور آپریٹر مل کر ایک ہی بندے کو وہ سارے کلائنٹ دے دیتے ہیں۔
میں نے کسی اچھے ٹور آپریٹر کی تلاش شروع کر دی جو مجھے منی مرگ کے ساتھ ساتھ وادی استور کی کچھ مزید چیزیں بھی دکھا سکے۔ تین چار ٹور آپریٹر کے پیکجز ڈسکس کیے۔ تقریباً سارے ہی پیکج اچھے تھے اور سارے ہی اس وادی کی بڑی بڑی چیزوں کو کور کر رہے تھے۔
ان سب میں سے ایک ٹور آپریٹر ایسا تھا جس کا نام میں فی الحال مصلحت کے تحت نہیں لکھوں گا جن سے میں نے پچھلے برس بھی اپنے نانگا پربت بیس کیمپ 2 یعنی لاتبو جھیل جانے کے سلسلے میں رابطہ کیا تھا۔ بھائی صاحب بتلانے لگے کہ وہ لاتبو کے لیے کوئی ٹور نہیں کرواتے اور اللّہ کا شکر کہ مجھے لاتبو کے لیے کوئی ٹور نہیں ملا، جس سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میرے اندر جو ایک بڑے ٹور کی جھجک تھی وہ دور ہو گئی۔ اس سال بھی میں نے اسی شخص سے رابطہ کیا اور اپنا ٹور بک کروا لیا۔ پیکج میں صاف صاف لکھا تھا کہ آپ لاہور یا راولپنڈی سے اس گروپ کو جوائن کر سکتے ہیں۔
لاہور سے جوائن کرنے کی صورت میں آپ کو ساڑھے دس بجے ٹور کو جوائن کرنا تھا اور راول پنڈی اسلام آباد سے جوائن کرنے کی صورت میں آپ کو ساڑھے چھ بجے ڈائیوو کے اڈے سے جوائن کرنا تھا۔ میں چوں کہ سیال کوٹ سے تھا تو میرے لیے بہتر یہی تھا کہ میں براہ راست سیال کوٹ سے راول پنڈی چلا جاؤں کیوںکہ سیال کوٹ سے ڈائیور کی ایک گاڑی رات 12 بجے نکلتی ہے جو کہ تقریبا سوا پانچ بجے راول پنڈی ڈائیو اسٹاپ پر پہنچ جاتی ہے۔
میں نے موصوف سے رابطہ کیا اور بتلایا کہ تقریباً سوا پانچ بجے میں راول پنڈی ڈائیوو سٹاپ پر پہنچ جاؤں گا مگر آگے سے صاف انکار کردیا گیا کہ اگرچہ کہ ٹور کی تفصیلات میں ساڑھے چھے بجے کا وقت ہے مگر ساڑھے پانچ بجے ہر حالت میں گاڑی نکل جائے گی۔ میں نے عرض کیا اگر ساڑھے پانچ بجے ہی پنڈی سے گاڑی نے نکلنا ہے تو تفصیلات کے مطابق وقت ساڑھے چھے کا وقت کیوں دیا گیا ہے اور چوںکہ ہم سب پاکستانی ہیں تو مجھے پورا یقین تھا کہ یہ ٹور ساڑھے چھ بجے بھی نہیں بلکہ کم از کم سات آٹھ تو بجا ہی دے گا مگر موصوف بضد رہے کہ ہم ساڑھے پانچ بجے نکل جائیں گے۔ بہتر ہے کہ آپ لاہور چلے جائیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے لاہور کی طرف سفر کرنا پڑا۔ اب لاہور کا منظر کچھ یوں تھا کہ لاہور والے سارے کلائنٹس کو کسی دوسرے ٹور آپریٹر کے ساتھ فکس کیا گیا تھا۔ وہ دوسرا آپریٹر تقریبا 11 بجے کے قریب ہم سب کو لاہور سے لے کر نکلا اور بھیرہ انٹر چینج پر بھول گیا کہ کوئی ٹور بھی ہونا ہے۔
بھیرہ انٹرچینج پر پہنچے تو آدھے گھنٹے کا ڈرائیور کی طرف سے وقت دیا گیا تھا۔ میں تو صاف بات کہوں گا بھائی ہم مڈل کلاس فیملی کے لوگ پورا سال ایک ایک روپیہ کر کے جمع کرتے ہیں تو تب جا کر کہیں ٹور کے پیسے بنتے ہیں اور پھر اوپر سے ٹور والوں کا کمال ظلم یہ بھی کہ لنچ نہیں دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ کم از کم انسان کھانے کے بعد چائے تو دے مگر کہاں جی ٹورز آپریٹر والے پیسے بھی ہم سے اپنی مرضی کے لیتے ہیں اور پھر اگر کھانے کے بعد چائے کی فرمائش کردی جائے تو اس کے پیسے الگ لیتے ہیں۔
لنچ کی بات تو طے ہے کہ ہم سب نے اپنے سے ہی کرنا ہے مگر یہاں میں صرف ایک ٹور آپریٹر نجیب اللّہ تاجک صاحب کا نام ضرور لینا چاہوں گا جن کے ساتھ میں نے کرومبر جھیل کا سفر کیا تھا۔ یہ میری زندگی کا ایک واحد سفر تھا جس میں مجھے نجیب اللّہ تاجک کے ساتھ کوئی ایک یا رتی برابر بھی کہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ موصوف نے جیسا کہا اس سے کہیں زیادہ ہمیں عملی طور پر کر کے دکھایا۔ ہمارے پیکج میں لکھا ہوا تھا کہ ہمیں لنچ بھی کروایا جائے گا۔ مجھے زیادہ سے زیادہ یہی امید تھی کہ کچھ ہلکا پھلکا سا لنچ کروا دیا جائے گا مگر نہیں ہمیں باقاعدہ طور پر ہر دوپہر کھانا دیا جاتا تھا کبھی بریانی اور کبھی سالن کے ساتھ چپاتی۔ اب ایک تو میں پہلے ہی اپنی اضافی ٹکٹ کے پیسے خرچ کر کے سیال کوٹ سے لاہور گیا ہوا تھا۔
پھر دوسری جانب ڈرائیور صاحب نے گاڑی ہی بھیرہ انٹرچینج پر کھڑی کردی جہاں ایک سادہ سا چائے کا کپ بھی آپ کو دو اڑھائی سو سے کم روپے میں نہیں ملتا اور تیسرا سونے پہ سہاگہ یہ کہ موصوف گاڑی کھڑی کر کے خود بھول گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ حضرت نے ایک پکا سگریٹ پینا تھا۔ نہ جانے گاڑی کھڑی کرتے کیوں ہی انہیں اپنے پکے سگریٹ پینے کا خیال نہ آیا۔ جب مجھ سمیت بہت سے لوگ گاڑی میں واپس بیٹھنے لگے تو اس وقت ہمارے ڈرائیور صاحب اپنا سگریٹ بنانے میں مصروف تھے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ رات کی ڈرائیونگ کرنے والے سب ڈرائیور حضرات پکے سگریٹ یا بھرے ہوئے سگریٹ ہی پیتے ہیں۔ مجھے اپنے قارئین سے امید ہے کہ ہر ایک کو میری بات سمجھ آ چکی ہوگی کہ میں بنیادی طور پر کہنا کیا چاہتا ہوں مگر جب ڈرائیور صاحب نے یہی دیکھا کہ کچھ خواتین بھی گاڑی میں آ کر بیٹھ رہی ہیں تو وہ اپنے اسسٹنٹ ڈرائیور کو لے کے نیچے کسی کونے میں چلا گیا اور اپنے بنائے ہوئے سگریٹوں کو انجوائے کرنے لگا۔ تقریبا ایک گھنٹے سے بھی زیادہ ہم سب لوگ بھیرہ انٹرچینج پر ہی رہے۔ ڈرائیور صاحب کا کوئی اتا پتہ نہ تھا۔
ایک گھنٹے بعد ڈرائیور صاحب ہشاش بشاش واپس آئے اور ہمارا سفر راولپنڈی کی جانب شروع ہوا اور پھر ایک گھنٹے کے بعد ہی نماز بریک لگا دی گئی۔ اگرچہ کہ یہاں چھوٹے سے کام کے مبلغ ستر روپے تھے مگر صفائی اتنی تھی کہ چھوٹا سا کام کرنے میں بھی بڑا مزہ آیا۔ ہم روال پنڈی ڈائیو سٹاپ پر پہنچے تو آگے ہمارے اصلی ٹور آپریٹر صاحب موجود تھے مگر آگے ایک عدد بڑا سا کٹا کھلا ہوا تھا۔ پنڈی سے ہماری گاڑی نے تبدیل ہونا تھا اور پھر ہم سب نے استور کی جانب سفر شروع کرنا تھا۔ گاڑی نے نہ آنا تھا، نہ وہ آئی۔
بقول ہمارے ٹور آپریٹر گاڑی والے نے فراڈ کیا ہے، جس کی سزا ہم سب پنجابیوں کو ملی۔ ٹور آپریٹر صاحب چوں کہ خود پنجابی نہیں تھے، اس لیے الحمدللّہ پورا ایک ہفتہ ہم پنجابیوں کو برابھلا کہتے رہے۔ فی الحال تو خاموشی بہتر تھی، اس لیے خاموش ہی رہا مگر پھر سوچا کہ ایک بار ٹور مکمل ہو جائے پھر اس معاملے کو دیکھتے ہیں کہ پنجابی کو گالی دینا کتنا آسان ہے مگر پنجابیوں کی طرح سخت محنت کرنا کتنا مشکل۔ چلیں اس پر بات اگلی نشت میں کریں گے۔ فی الحال مجھے بریانی کھانے دیں اور میرے ٹور آپریٹر کو ٹھنڈا پانی پینے دیں کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ تحریر ہمارے پیارے سے ٹور آپریٹر تک نہ پہنچے کہ موصوف کو اپنے اوپر بہت مان ہے کہ الحمدللّہ استور پر سب سے اچھا کام وہی کر رہے ہیں۔
بقول ان موصوف کہ ’’ہمارے یہاں استور پر کام تسلی بخش کیا جاتا ہے‘‘ اور ان کے کام کا سب سے اہم جزو یہ ہے کہ ہر کھانے کے بعد کم از کم تین بار قبلہ رخ ہو کر پنجابیوں کو گالی دی جائے کہ پہاڑوں میں کھانا ہضم کرنے میں سب سے مددگار شے پنجابیوں کو گالی دینا ہی ہے۔
سورج رفتہ رفتہ بلند ہو رہا تھا اور ہماری مایوسی میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ ٹور آپریٹر کی گاڑی کا کہیں بھی کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ مسلسل فون پر رابطہ تو تھا مگر آگے سے یہی جواب مل رہا تھا کہ گاڑی والے نے فلائنگ کوچ کا کرایہ لے کر ایک سادی روٹ کی گاڑی بھیج دی ہے اور اس روٹ کی گاڑی پر سفر کرنا ممکن نہیں۔ روٹ کی گاڑی سے مراد یہ تھا ایک ایسی گاڑی جو راولپنڈی میں لوکل ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ خیر ہم سب استور کے مسافر راولپنڈی کے ڈائیوو اسٹاپ پر بے اسرا کھڑے تھے کہ اتنے میں توقیر اصفہانی کی ایک دبنگ اینٹری ہوئی۔ توقیر نے بتایا کہ اب وہی ہمارے گروپ کو لیڈ کرے گا اور ایک نئی گاڑی کا بندوبست کرے گا مگر اس کے لیے وقت درکار تھا۔ توقیر سے یہاں ہماری پہلی ملاقات ہوئی۔ ہمارا اصل ٹور آپریٹر نہ جانے کہاں تھا۔
توقیر نے بہت حد تک ہمیں دلاسا دیا کہ وہ گاڑی کا بندوبست کر لے گا اور ہم سب کو استور لے جائے گا اور ہمارا پیکج ایسے ہی چلتا رہے گا جس طرح وہ اپنا ٹور کرواتا ہے۔ توقیر کے ساتھ بھی کچھ کلائنٹ موجود تھے۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ ہم ایک دن کے لیے راولپنڈی میں ہی رکیں گے کیوںکہ توقیر کا گروپ اگلے دن نکلنا تھا اور ہم سب کو توقیر کے ساتھ ہی جوڑ دیا گیا تھا۔ ہم سب کی پیمنٹس توقیر کو منتقل کردی گئی تھیں۔ توقیر تقریباً ایک سلجھا ہوا ٹور آپریٹر تھا۔ کیا یہ ایک نشانی کافی نہیں کہ توقیر نے ہم سب کو ایک اچھے ہوٹل میں ٹھہرا دیا اور اس کا کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کیا۔ ٹور کے پیسوں کے علاوہ ہم سب سے کسی قسم کی کوئی رقم چارج نہیں کی گئی۔
ایک دن کا قیام توقیر کی طرف سے ہی ہمیں دیا گیا۔ ہاں کھانے پینے کے لوازمات ظاہر سی بات ہے پھر ہم نے ہی پورے کرنے تھے۔ جب توقیر نے اتنی بات کہی کہ ایک دن کا کرایہ وہ اپنی جیب سے دے گا تو کم از کم دل کو تھوڑی بہت تسلی تو ہوئی کہ ہمارے ساتھ کوئی کام کرنے والا شخص موجود ہے۔ توقیر ہم سب کو ہوٹل میں ٹھہرا کر خود کہیں اور چلا گیا مگر وہ ہم سب سے مسلسل رابطے میں تھا۔ میری چوںکہ رات کی بھی نیند پوری نہیں ہوئی تھی تو میں کمرے میں جا کر ہی سوگیا۔
سو کر اٹھا تو گھڑی تقریباً دوپہر کا وقت بتا رہی تھی۔ ابھی میرے پاس پورا ایک دن موجود تھا۔ اس پورے دن کو ضائع کرنا کوئی عقل مندی تو نہ تھی۔ فوری طور پر میرے ذہن میں دو چیزیں آئیں۔ اول راول پنڈی کے راجا بازار کی مرکزی جامعہ مسجد، دوم مارگلہ کا ریلوے اسٹیشن۔ دماغ نے فوری طور پر راجہ بازار کی بہت پرانی مرکزی جامعہ مسجد کے حق میں ووٹ دیا اور میں نہا دھو کر مرکزی جامع مسجد کی جانب چل پڑا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچا تو وہاں تالا موجود تھا۔ عصر کی نماز ہونے میں ابھی کم از کم ایک گھنٹہ باقی تھا۔ بتلایا گیا کہ گیٹ کا تالا نماز سے پہلے نہیں کھلے گا۔ صبح کا ناشتہ بھی میں نے صرف چائے بسکٹ کے ساتھ ہی کیا تھا۔ اب بھوک میں شدت آنے لگی تھی۔ قریبی دکان سے میں نے کسی مناسب ہوٹل کے بارے میں پوچھا تو دکان دار بتلانے لگا کہ چند قدم آگے جا کر بائیں جانب ایک گلی مڑے گی، وہاں ایک ہوٹل موجود ہے آپ کو مناسب کھانا مل جائے گا۔ میں گلی کی کونے پر پہنچا تو وہاں ایک چھوٹی سی دکان تھی جہاں پر چند برتن پڑے تھے اور روٹیاں رکھی تھیں۔
بھوک کی شدت مجھے ستا رہی تھی۔ میں نے ان سے کھانے کا پوچھا تو ایک بڑا سا آدمی بتانے لگا کہ یہاں مفت کھانا تقسیم کیا جا رہا ہے۔ آپ بھی بیٹھ جائیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ میں اسی دکان میں بیٹھ گیا۔ دکان کے اندر خادم حسین رضوی اور چند بزرگوں کی تصویریں لگی تھیں۔ میرا دماغ تو کسی مسلک کا پیروکار ہو سکتا ہے مگر یقین مانیں خالی پیٹ کا کوئی مسلک نہیں ہوتا۔ میں نے چپ چاپ کھانا کھانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اگرچہ کہ دال کے اندر نمک مرچ کافی تیز تھی مگر میں پھر بھی ایک روٹی کھا گیا۔
کھانے سے فراغت پانے کے بعد بھی میرے پاس ابھی بہت وقت تھا۔ میں مسجد کے دروازے پر پہنچ گیا اور مسجد کے دروازے سے ہی باہر سے جتنی فوٹوگرافی ممکن ہو سکتی تھی میں نے تصاویر بنا لیں۔ مسجد کو باہر سے دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ تصاویر میں اس قدر خوب صورت نظر آنے والی نیلی مسجد کی باہر سے کوئی حالت نہ تھی۔ نقش و نگاری تقریبا خراب ہو چکی تھی، گندگی الگ۔ پہلے پہل تو دل کیا کہ میں یہاں سے واپس چلے جاؤں مگر پھر سوچا کہ اگر اب اتنی دور آ ہی گیا ہوں تو بہتر یہی ہے کہ مسجد کو اندر سے بھی دیکھ لیا جائے۔ دروازے پر ہی انتظار کرتے کرتے عصر کا وقت ہوگیا۔ دروازہ کھلا اور میں مسجد کے اندر چلا گیا۔ مسجد کو اندر سے دیکھ کر جی خوش ہوا۔ مسجد کی باقاعدہ مرمت کی گئی تھی۔ نقش و نگاری جون کی توں قائم تھی اور صفائی کا انتظام بھی بہترین تھا۔
جیسے ہی آپ مسجد کی مرکزی عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ مسجد کو خوب صورت آرٹ اور ٹائلوں کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ مسجد کے تین گنبد ہیں۔ برصغیر میں اسلام کی تبلیغ کے حوالے سے ایک بہت ہی بڑا نام پیر مہر علی شاہ کا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کی تعمیر کا آغاز 1896 میں کیا تھا۔ آپ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو یہاں پر آپ کو جو خوب صورتی نظر آتی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ 125 یا 130 سال گزر جانے کے باوجود پوری آب و تاب سے یہ آج بھی قائم و دائم ہے جس کی ایک بڑی وجہ اس کی وقتاً فوقتاً ضروری مرمت بھی ہے۔ جب مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو اس کے لیے باقاعدہ چندہ جمع کیا گیا اور پنجاب کے مختلف علاقوں کا باقاعدہ دورہ کیا گیا۔ جو چندہ جمع ہوا اسی سے یہ مسجد تعمیر ہوئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ بعض خواتین نے اس مسجد کی تعمیر کے لیے اپنے زیور تک بیچے۔
یہ ایک انتہائی خوب صورت فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ مسجد کا داخلی دروازہ اس وقت بہت ساری عمارتوں اور تاروں میں گرچکا ہے، جس کی وجہ سے اس کی خوب صورتی بُری حد تک تو متاثر ہوئی ہے۔ مسجد کی تعمیر کے حوالے سے دو مختلف روایات ہیں۔
پہلی روایت یہ ہے کہ اس کی تعمیر 1903 میں افغانستان کے شہزادے شاہ محمد ایوب شیراز حیدر نے شروع کروائی اور یہ تقریباً دو سال میں مکمل ہوئی تھی۔ دوسری روایت یہ ہیکہ پیر مہر علی شاہ نے اس کی تعمیر کا آغاز 1896 میں کیا تھا اور پھر اس کے بعد جا کر یہ 1902 میں مکمل ہوئی تھی۔ اگر فن تعمیر ہی کی بات کریں تو کہیں نہ کہیں آپ کو اس میں مغلیہ دور کی جھلک نظر آئے گی۔ مسجد میں تقریباً آٹھ ہزار نمازیوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں پہلا جمعہ کا خطبہ سید محمد محمود شاہ نے دیا تھا۔ اس مسجد کا داخلی دروازہ اس مسجد کے عین سامنے نہیں ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک دل کش فوارہ بھی ہے۔ ماضی میں لوگ وضو بھی یہیں سے کرتے ہوں گے لیکن اب ایسا معاملہ نہیں ہے۔ دیواروں کو قرآن مجید کی آیات اور احادیث مبارکہ سے سجایا گیا ہے۔
مسجد کا رقبہ 64 کنال تھا۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کی طرح اس کا صحن بہت بڑا تھا مگر افسوس کہ یہ سب دکانوں کی تجاوزات کی نذر ہو چکا ہے۔ مغلیہ فنِ تعمیر میں خصوصیت پائی جاتی تھی کہ اگر آپ مسجد کے کسی کونے پر کھڑے ہو کر اذان دیں یا کوئی خطبہ دیں تو پوری مسجد میں آواز پہنچتی تھی۔ اسی طریقے سے اس مسجد کے بھی کسی کونے پر اگر کھڑے ہو کر بات کریں تو اپ کی وہ بات چاروں کونوں تک سنائی دیتی ہے۔
واپس ہوٹل پہنچا تو شام کا سرمئی آنچل تقریباً پھیلنے کے قریب تھا۔ ہوٹل کے ساتھ ہی ایک اچھا ریسٹورنٹ تھا۔ اتنا اچھا تھا کہ کھانا دو تین گھنٹوں کے فرق سے دو بار کھایا۔ دوسری بار جب کھنا کھانے کے لیے پہنچا تو لاہور سے ہی سیاحوں سے بھری ہوئی ایک کوسٹر کسی ٹور آپریٹر کی سربراہی میں پہنچی تھی اور مسافروں کے اترتے ہی کسی بات پر کوسٹر کے ڈرائیور اور سیاحوں میں اتنی زیادہ تکرار ہو رہی تھی کہ بات ہاتھا پائی تک پہنچ چکی تھی۔
مسافروں کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ٹور آپریٹر کو بلاؤ مگر کوسٹر کا پٹھان ڈرائیور کہہ رہا تھا کہ وہ کہاں سے ٹور آپریٹر کو بلائے۔ نہ جانے کس بات پر لڑائی تھی اور ٹور آپریٹر کیوں چھپ کر بیٹھا تھا۔ ایک اور لاہوری دوستو کا گروپ میرے ساتھ والے ٹیبل پر موجود تھا۔ ان لوگوں نے کل فیری میڈوز جانا تھا۔ یہ لاہوری لونڈے خود لاہور سے راول پنڈی پہنچے تھے اور یہی ان کی سب سے اچھی بات تھی۔ تقریباً سب ہی اچھے اور گہرے دوست تھے۔ ان کی گہری دوستی کا اندازہ میں نے ان کی گندی گندی گالیوں سے لگایا تھا۔ تقریباً سب ہی ایک دوسرے کی ماں بہن اور باپ بھائی سب برابر کر رہے تھے۔ یقین مانیں دوستی جتنی زیادہ گہری اور پرانی ہوتی جاتی ہے، گالیوں میں بھی اتنا ہی زیادہ نیاپن اور تازگی آتی رہتی ہے۔
خیر۔۔۔۔میں اپنے کمرے میں واپس آ کر پھر سے سوگیا۔ صبح تقریباً ساڑھے چار بجے توقیر نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو توقیر پر غصہ آیا مگر پھر فوراً ہی یہ غصہ پیار میں تبدیل ہوگیا۔ میرا دل چاہا کہ توقیر کو ایک عدد پپی کروں۔ بستر تو پہلے سے ہی موجود تھا مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا اور ٹور پر فوکس کیا۔ بارہ نمبر سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے کانوں میں ٹوٹیاں لگائیں اور مختلف فن کاروں کی رس بھری آواز سے لطف اندوز ہونے لگا۔ نہ جانے کب میری آنکھ لگی۔ اس دوران دو تین بار توقیر دبے پاوں میرے خواب میں بھی آیا مگر میں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ کوسٹر نے ایک دم سے بریک لگائی، معلوم پڑا کہ یہاں ہم ناشتہ کریں گئے۔ یہ بالاکوٹ تھا۔
اگرچہ کے مجھے ناشتے کی کچھ خاص عادت نہیں مگر پھر بھی ناشتے کے نام پر ایک آدھا انڈا یا ایک کپ چائے جسم کے اندر انڈیل لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ ہم بالا کوٹ کے جس ریسٹورنٹ میں ناشتے کے لیے رکے تھے، وہاں اچھا خاصا رش تھا۔ موسم خوش گوار تھا بلکہ یہ کہنا کچھ زیادہ مناسب ہوگا کہ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ میں چوں کہ اکیلا تھا تو چپ چاپ واش روم سے ہو کر ایک میز پر بیٹھ گیا۔
میرے پاس ہی دو خواتین پہلے سے اسی ٹیبل پر بیٹھی تھی۔ گذشتہ صبح جب ہم ڈائیوو ٹرمینل پر اپنی کوسٹر کا انتظار کر رہے تھے تو ان دونوں خواتین کے ساتھ ایک لڑکا بھی تھا۔ مجھے اس وقت یوں لگا تھا جیسے یہ تینوں افراد ہمارے ساتھ ٹور پر جانے والے ہیں مگر ایسا نہیں تھا۔ صرف دو خواتین ہی ٹور پر جا رہی تھی۔ کوسٹر میں میری سیٹ 12 نمبر تھی۔ مجھ سے آگے نو نمبر سیٹ پر جو بھائی صاحب بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی اسی میز پر موجود تھے۔ میرے ساتھ والی میز پر ہی ایک نسبتاً لمبے قد اور درمیانی جسامت کا لڑکا بیٹھا تھا۔ اپنی کوسٹل میں اس پر بھی نظر پڑی تھی۔
ناشتے کے بعد لوگ ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر خوش گوار موسم میں پہاڑی علاقوں کی تصاویر لینے لگے۔ اگرچہ کے میں نے دو کپ چائے پی تھی مگر میں پھر بھی نیند کے خمار میں تھا۔ میں واپس اپنی کوسٹر کی جانب جانے لگا تو پیچھے سے دو تین لڑکے بھاگتے ہوئے آئے، ہماری کوسٹر کے ساتھ ہی ایک دوسری کوسٹر کھڑی تھی یعنی کہ درمیان میں گزرنے کے لیے صرف ایک شخص کی جگہ تھی۔ میں آگے تھا اس لیے دوسرے لڑکے کا کندھا مجھے زور سے لگا مگر میں آرام سے کوسٹر میں سوار ہوگیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ پیچھے بیٹھنے والے لڑکوں میں سیٹوں کو لے کر ایک جنگ چل رہی تھی۔ میری سیٹ کے پیچھے پانچ سے چھ نوجوان لڑکے موجود تھے جن کی عمریں تقریبا اوسطاً 22 سال ہوں گی نہ جانے کیوں مجھے رہ رہ کر یہ احساس ہو رہا تھا کہ یہ پانچ لڑکے ہماری پوری کوسٹر کو بہت تنگ کریں گے اور ایسا ہی ہوا۔ ان پانچوں نے آخر تک پورے گروپ کو بہت تنگ کیا۔
اتنے لمبے سفر کے لیے کوسٹر کی درمیان والی folding سیٹ پر کسی کو بٹھانا میری نزدیک زیادتی تھی اور جب سے میں ارسلان کو دیکھ رہا تھا، ارسلان اسی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ بنا کسی شکایت کے، چپ چاپ ایک بیبے بچے کی طرح۔ درمیان درمیان میں میرا جی چاہ کہ میں ارسلان سے کہوں کہ جانِ من تم میری سیٹ پر بیٹھ جاؤ، میں کچھ دیر تمھاری سیٹ پر بیٹھ جاتا ہوں مگر پھر اس چھوٹی سیٹ کی ذلالت محسوس کرتے ہوئے میں چپ ہی رہا۔ کچھ ہی دیر کے بعد ناران آ گیا۔ ناران کا داخلی راستہ بہت خوب صورت ہے۔
یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں سے مجھے ناران بہت پیار لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آپ جب ناران میں داخل ہونے لگتے ہیں تو اونچائی پر ہوتے ہیں اور ناران نسبتاً نیچے اترائی پر ہے۔ اوپر سے مکمل ناران شہر کا خوب صورت منظر دکھائی دیتا ہے۔ رنگ برنگے چھت اور ساتھ بہتا ہوا درمیانے سبز رنگ کا دریائے کنہار۔ ناران اب بہت بدل گیا ہے۔ 2018 میں جب میں پہلی بار دودھی پت سر جانے کے لئے ناران سے گزرا تھا تو تب ناران اور تھا اور آج نظر آنے والا ناران کچھ اور تھا۔
ناران کی خوب صورتی کو بیان کرنا اتنا بھی آسان نہیں مگر ناران پر تنقید کرنا بہت آسان ہے۔ آپ ناران کو پسند کریں یا نہ پسند، یہ آپ کی ذاتی رائے مگر آپ ناران کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ یہاں کے سرسبز پہاڑ، بہتا ہوا دریائے کنہار اور خوب صورت نظارے آپ کو ناران شہر میں جکڑ لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنجوعہ محققین کہتے ہیں کہ نند لال کی دو پشتوں نے اس پر حکومت کی اور کچھ برسوں کے لیے ایاز یہاں کا حکم راں مقرر ہوا۔ ایاز کا جب نام آتا ہے تو پھر سلطان محمود غزنوی کا وہی غلام ایاز کا نام ذہن میں اتا ہے لیکن ایاز یہاں کا حاکم کبھی نہیں رہا۔ کچھ روایات میں یہ ہے کہ ایاز کو کچھ عرصے کے لیے لاہور کا حکم راں مقرر کردیا گیا تھا لیکن نندنہ کا حاکم ایاز کسی تاریخ میں درج نہیں ہوا۔ ایاز کے بعد پھر اسی خاندان یعنی نند لال کا خاندان حکومت میں آیا۔
نندنہ پہاڑی کی چوٹی پر دو تین چیزیں ہی محفوظ رہ گئی ہیں بلکہ ان کے کھنڈرات باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مندر ہے، ایک مسجد ہے اور ایک البیرونی کی رصدگاہ ہے، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے یہیں زمین کے قطر کی پیمائش کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندو شاہی خاندان شِیو ازم کا پیروکار تھا لہٰذا اس نے جو مندر بنوایا تھا وہ بنیادی طور پر شیو مندر ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اب یہاں کچھ بھی باقی نہیں بچا سوائے کھنڈرات کے۔ یہ ایک دو منزلہ مندر تھا لیکن اس کے بعد یہ ویران ہوگیا۔ کچھ کہتے ہیں کہ محمود غزنوی نے اسے برباد کردیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب جنجوعہ سردار یہاں آئے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تو پھر مندر کی اہمیت ختم ہوگئی لہٰذا یہ مندر اپنی شکل و صورت کھوتا چلا گیا۔
نندنہ کی مسجد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ محمود غزنوی کے دور میں اس مسجد کی بنیاد پہلی بار رکھی گئی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ شہید ہوگئی اور پھر اس کی جگہ ایک نئی مسجد تعمیر کی گئی۔ سامنے پہاڑی کی چوٹی پر کچھ قبریں بنی ہوئی ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ محمود غزنوی کے سپاہیوں کی قبریں ہیں۔ باقی کچھ کھنڈر ہیں۔ یہ وہ کھنڈر ہیں جن کی وجہ سے قلعہ نندنہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس کھنڈر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابوریحان محمد بن احمد البیرونی کی رصدگاہ تھی جس نے آج سے ایک ہزار سال پہلے زمین کا قطر معلوم کیا تھا۔
آج کی پیمائش میں یہ فرق بہت کم ہے۔ البیرونی نے 146 کتابیں لکھی جن میں سے 95 فلکیات ریاضی اور جغرافیے کے بارے میں تھیں۔ محمودغزنوی نے جب 1017 میں ایک ایرانی شہر پر حملہ اور قبضہ کیا تو البیرونی سمیت متعدد دانش وروں کو غزنی لے آیا۔ اس وقت البیرونی کی عمر 44 سال تھی۔ 1017 میں انہوں نے زمین کا قطر دریافت کیا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ وہ ہندوستان کے بارے معلومات حاصل کریں۔ پہلے انھوں نے کٹاس راج میں بیٹھ کر سنسکرت سیکھی۔ البیرونی سے پہلے مسلمانوں کے خلیفہ مامون رشید نے زمین کا قطر معلوم کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس نے ماہرین کے دو گروہوں کو زمین کی پیمائش کا کام سونپا تھا۔ ان ماہرین نے صحرا میں شمال اور جنوب کی طرف سفر کیا اور دوپہر کے وقت سورج کے زاویے کی بار بار پیمائش کرکے زمین کا رداس معلوم کیا۔
البیرونی بھی ان ماہرین کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتا تھا اور زمین کی پیمائش مزید درستی کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن سرمائے اور صحرا میں سفر جیسے مشکل اور خطرناک کام کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔ تب البیرونی نے الجبرا اور جیومیٹری کا استعمال کرتے ہوئے زمین کی پیمائش کی اور ایک ایسے طریقے کا کھوج لگایا جو نسبتاً آسان اور نتائج کے حوالے سے انتہائی کارگر تھا۔ اس دور کی تاریخی تذکروں اور البیرونی کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ا افق کا زاویہ ماپنے کے لیے پہاڑی کا انتخاب کیا۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ پہاڑی کی بلندی ماپنے کا تھا۔ البیرونی نے متعلقہ فارمولے سے پہلے پہاڑی کی بلندی معلوم کی اور پھر زاویہ معلوم کرنے کے لیے البیرونی نے ایک آلہ استعمال کیا جس کے درمیان میں گھڑی کی سوئی جیسے ہی ایک ناپ لگی ہوئی ہوتی تھی۔ اس نے زاویہ نوٹ کرلیا۔ اس کے بعد البیرونی نے پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر آلے کی مدد سے دور نظر آنے والے افق یعنی وہ جگہ جہاں زمین اور آسمان ملتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کا زاویے معلوم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پیمائش کے لیے البیرونی نے کافی عرصہ نندنہ کے قلعے میں گزارا۔ ہے کئی بار یہ عمل دہرایا افقی زاویہ معلوم کر لینے کے بعد البیرونی نے حساب کتاب کیا اور زمین کا رداس دریافت کیا۔ البیرونی نے ٹریگنو میٹری اور اپنے بنائے ہوئے آلے کی مدد سے پہلے قلعے کے شمال میں ایک پہاڑی کی بلندی ماپی پھر وہ اس پہاڑی پر خود چڑھا اور افق کے ڈوبنے کی پیمائش کی۔ واضح رہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے مطابق زمین کا رداس 6378 کلومیٹر ہے جب کہ البیرونی نے بنا کسی جدید آلے کے یہ زمین کا رداس 6335 کلومیٹر ناپا تھا۔
قلعہ نندنہ اچھی خاصی اونچائی پر ہے۔ میں نے پارکنگ میں اپنی بائیک کھڑی کی اور اللّہ کا نام لے کر چڑھنا شروع کردیا۔ مجھے قلعہ تک پہنچنے میں شاید ایک گھٹنے سے زیادہ ہی لگا ہوگا۔ میں اوپر پہنچا اور پہنچتے ہی مندر کے سائے میں سوگیا۔ سلمان اپنی فوٹو گرافی کرتا رہا۔ فوٹو گرافی سے فارغ ہوکر سلمان میری طرف آیا۔ میں نے بہ مشکل تین چار تصاویر بنوائیں۔ طبعیت اتنی بوجھل تھی کہ کوئی ویڈیو ریکارڈ نہ کی۔ حالاں کہ میں مختلف باتیں سوچ کر نکلا تھا۔ رفتہ رفتہ چلتا ہوا میں پھر سے نیچے اتر آیا۔ پارکنگ فیس ادا کی اور پھر ہم اپنے سفر کے آخری مرحلے کی طرف چل پڑے۔
اب ہمارا رخ ہرن پور ریلوے اسٹیشن کی طرف تھا۔ ہم قلعہ نندنہ سے نکلے تو عصر کا وقت ہوچکا تھا۔ ہمیں اب پھر سے مرکزی شاہراہ پر آتے ہوئے ہرن پور ریلوے اسٹیشن کی طرف جانا تھا۔ ہرن پور ریلوے اسٹیشن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف خود ایک جنکشن ہے بلکہ دو جنکشنز کے درمیان بھی ہے۔ ہرن پور کے پیچھے والا ریلوے اسٹیشن ملک وال ہے جو کہ بذات خود ایک جنکشن ہے اور ہرن پور سے آگے چالیسا ہے یہ بھی ایک ریلوے جنکشن ہے۔ ملک وال کی ایک بہت بڑی خاص بات یہاں کا ڈائمنڈ کراس ہے۔
ریلوے کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھنے والے دوست احباب جانتے ہیں کہ پاکستان میں صرف اور صرف دو ریلوے اسٹیشن اسٹیشنوں پر ڈائمنڈ کراس بنا ہوا ہے ایک ملک وال ریلوے اسٹیشن پر اور دوسرے روہڑی ریلوے اسٹیشن پر۔ آپ ملک وال سے دریائے جہلم کی طرف آئیں تو دریائے جہلم سے ذرا پہلے آپ کو بہ مشکل ایک ترک شدہ ریلوے اسٹیشن چک نظام ملے گا جس کی گری ہوئی دیواروں کی اینٹیں بھی اب لوگ لے جاچکے۔ چک نظام کے قصبے سے گزرتے ہی آپ دریائے جہلم پر بنے ایک انتہائی مضبوط اور خوب صورت وکٹوریہ پل سے گزرتے ہیں۔
آپ یقین مانیں وکٹوریہ پل سے ملک وال کی طرف ایک الگ پنجاب ہے اور وکٹوریہ پل پار کرتے ہی دوسری طرف پس ماندہ سا ایک الگ پنجاب ہے۔ انگریز کو ہم لاکھ برا بھلا کہہ لیں مگر انگریزوں کی دوراندیشی کا آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ جب دریائے جہلم پر وکٹوریہ پل کو بنایا گیا تو ریل کی پٹری کے ساتھ پیدل گزرنے والوں کے لیے دونوں جانب ایک چوڑا راستہ چھوڑ دیا گیا، یعنی ریل بھی دریائے جہلم اسی پل سے پار کرتی اور پیدل چلنے والے بھی۔ اب بائیک والے افراد بھی اسی وکٹوریہ پل سے دریائے جہلم پار کرتے ہیں مگر تقسیم سے لے کر اب تک ہم ملک وال کو ہرن پور کے ساتھ سڑک کے ذریعے جوڑ نہیں سکے۔ اس علاقے سے جو بھی معدنیات نکلتی تھیں، انھیں ہرن پور کے ذریعے ہی ملک وال لایا جاتا اور پھر ملک کے باقی حصوں میں ترسیل کی جاتی۔ ہرن پور سے اس کام کے لیے ایک الگ برانچ لائن نکالی گئی تھی جو غریب وال سیمنٹ فیکٹری تک جاتی تھی۔ اب دوسری بہت سی برانچ لائنوں کی طرح یہ برانچ لائن بھی بند ہے۔ حالاں کہ میرے خیال میں ٹرکوں کی بجائے اگر ریلوے لائن سے غریب وال سیمنٹ فیکٹری میں سامان کی نقل و حرکت ہو تو شاید یہ زیادہ منافع بخش رہے۔
ہرن پور سے آگے پاکستان کا سب سے چھوٹا ریلوے جنکشن ہے، چالیسا۔ چالیسا کی عمارت بہت ہی چھوٹی سی ہے۔ چالیسا سے ایک برانچ لائن کھیوڑہ کو نکلتی ہے۔ یقیناً اس برانچ لائن کا بھی مقصد یہی تھا کہ کھیوڑہ اور اس کے اطراف سے نمک اور دوسری معدنیات نکال کر انھیں پہلے ملک وال لایا جاتا اور پھر وہاں سے ملک کے دوسرے حصوں میں اس کی ترسیل ہوتی۔ چالیسا سے یہ برانچ لائن شروع ہوتی ہے اور ڈنڈوت تک جاتی ہے۔
اس برانچ لائن پر صرف چار ہی ریلوے اسٹیشن ہیں۔ چالیسا، سودے، کھیوڑہ اور ڈنڈوت۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس سے پیچھے والی برانچ لائن ہرن پور سے شروع ہوکر چنوں وال پر ختم ہوجاتی ہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی ریلوے اسٹیشن نہیں۔ پیچھے سے یعنی ملک وال اور ہرن پور سے جو ریلوے لائن آتی ہے وہ چالیسا سے ہوتے ہوئے سیدھا پنڈ دادن خان اور خوشاب کی طرف چلی جاتی ہے۔ ہم چالیسا نکلے تو میں تقریباً بے ہوش ہونے کے قریب تھا۔ چالیسا جنکشن پر ہی سورج تقریباً ڈوبنے کے قریب تھا۔
تبھی یہ خیال آیا کہ مجھے ORS پینا چاہیے۔ چالیسا سے ملک وال کو جاتے ہوئے ہمیں وکٹوریہ پل پار کرنا پڑا۔ ایک تنگ لوہے کی سڑک پر دریا کو پار کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ دریا دو حصوں میں تقسیم تھا۔ درمیان میں ایک دریائی جزیرہ تھا۔ دریا کا پہلا حصہ تو میں نے کسی طرح پار کرلیا مگر دوسرے حصے کو پار کرتے ہوئے نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں باقاعدہ کانپنے لگا۔ ملک وال پہنچتے ہی ORS کا پیکٹ ایک بڑی بوتل میں ڈال کر پیا تو جان میں کچھ جان آئی اور میں گھر پہنچنے کے قابل ہوا۔ ابھی ملک وال ریلوے اسٹیشن اور اس سے جڑی بہت سے چیزوں کو دیکھنا باقی تھا مگر سورج مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ موسم اچھا ہونے پر ایک بار پھر سے بائیک پر نکلوں اور ڈنگہ سے ہوتا ہوا ملک وال جاؤں۔ اسی بہانے میں ڈنگہ بھی دیکھ لوں گا۔
( جاری ہے )
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وادی کا اصل سچ دیکھ کہا جاتا ہے کہ ٹور ا پریٹر کی ڈرائیور صاحب ریلوے اسٹیشن زمین کا رداس البیرونی نے پنجابیوں کو البیرونی کی محمود غزنوی چاروں پرندے دریائے جہلم میں کام یاب کہتے ہیں کہ کے بارے میں سیٹ پر بیٹھ نانگا پربت کا بندوبست برانچ لائن کا ا خری سچ درمیان میں ا پریٹر کے رہا تھا کہ کے ساتھ ہی ہرن پور سے چالیسا سے راول پنڈی ان پانچوں کی پیمائش راستے میں موجود تھا موجود تھے سچ دیکھنے اس کے بعد وادی کا ا فی الحال ترشنگ کے پہنچا تو توقیر نے زیادہ تر کے سامنے سے زیادہ معلوم کی انہوں نے کی تعمیر کھانے کے انھوں نے جنکشن ہے پانچ بجے لاہور سے پہاڑی کی کرتے ہیں جوائن کر کے پیچھے ہے کہ اس کہ ہم سب یہ ہے کہ کے لیے ا ہم سب کو کہ یہاں کرتے ہی تے ہوئے نے والے پر پہنچ ہیں مگر کے قریب جائے گا مسجد کے رہی تھی مگر پھر گیا تھا جاتی ہے مسجد کی کو دیکھ مسجد کو گئی تھی دیا گیا ملک وال تھی اور کے اندر چلا گیا جانے کے تھا مگر اور پھر میں ایک یہاں کا ہیں اور مجھے اس اس وادی تھا اور تھے اور سے پہلے کیا تھا سے دیکھ کی جانب اور ایک کی گاڑی نے اپنے ایک بار چکا تھا صرف ایک کیا اور گئے اور رہے تھے سے ا گے ہے کہ ا
پڑھیں:
سارہ مللی برطانیہ کی پہلی خاتون آرچ بشپ آف کینٹربری مقرر
سارہ مللی کو چرچ آف انگلینڈ اور عالمی اینگلیکن برادری کی سربراہی کے لیے نئے آرچ بشپ آف کینٹربری مقرر کیا گیا، وہ اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔
یہ نامزدگی کنگ چارلس نے منظور کی ہے اور اس کا اعلان وزیراعظم کی جانب سے کیا گیا ہے۔ مللی اب لندن کی بپش ہیں، عہدہ سنبھالنے سے پہلے وہ انگلش نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کی چیف نرسنگ آفیسر رہ چکی ہیں۔
ان کی تعیناتی اُس وقت ہوئی ہے جب چرچ کو اندرونی اختلافات، جنسی زیادتی کے معاملات اور دیگر اسکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مللی نے اپنی پہلی تقریر میں چرچ کی حفاظتی ناکامیوں کو تسلیم کیا اور متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: برطانوی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون کے آرچ بشپ آف کینٹربری بننے کا امکان
یہ نامزدگی چرچ کے لیے سنگِ میل تصور کی جا رہی ہے، خصوصاً اس پس منظر میں کہ چرچ نے صنفی مساوات کے معاملے میں قدم بڑھائے ہیں۔ چرچ نے پہلی بار 1994 میں خواتین کو پادری بننے کا حق دیا اور 2015 میں خواتین کو بشپ بننے کی اجازت دی گئی تھی۔
مللی قانونی طور پر جنوری 2026 میں خصوصی تقریب میں اس منصب کو سنبھالیں گی، جبکہ رسمی تقریب ان کی تنصیب کینٹربری کیتھیڈرل میں مارچ 2026 میں ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آرچ بشپ آرچ بشپ آف کینٹربری چرچ آف انگلینڈ سارہ مللی عالمی اینگلیکن برادری