Express News:
2025-10-04@16:52:32 GMT

پاکستان کے استحکام کی جنگ

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

کرک کے علاقے درشہ خیل میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس نے فتنۃ الخوارج کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا، خفیہ آپریشن کے دوران 17 خوارج ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ مہارت اور بروقت کارروائی کی بدولت خوارج کے مذموم عزائم خاک میں مل گئے، حکومت اور سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں، دہشت گردی کے عفریت کو جلد جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔

 دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا پیغام واضح ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشت گرد نیٹ ورک کو پنپنے نہیں دے گا۔ بھارت کی پشت پناہی اور افغانستان کی سہولت کاری میں سرگرم فتنۃ الخوارج کا انجام دیوار پر لکھا ہے۔

پاکستان متعدد مرتبہ بڑے عالمی فورمز پر اور افغانستان کی قیادت کو یہ بتا چکا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے جس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جس میں سیکیورٹی فورسز پر حملے اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتیں شامل ہیں۔

 پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں کیے گئے آپریشنز کے دوران سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں دہشت گردوں کے خاتمے کی جانب اہم پیشرفت ثابت ہوئی ہیں۔

یہ تمام دہشت گرد بھارتی اور افغان حکومتوں کی سرپرستی میں سرگرم تھے اور پاکستان میں متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھے۔ ان کا مقصد ملک میں بدامنی پھیلانا اور عوام میں خوف پیدا کرنا تھا۔ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اس دوران ہزاروں شہری اور فوجی شہید ہوئے لیکن سیکیورٹی فورسز نے ہمت اور عزم کے ساتھ اس جنگ کو جاری رکھا۔

 بدقسمتی سے پاکستان کو پڑوسی اچھے نہیں ملے، بھارت اور افغانستان تو قیام پاکستان سے آج تک پاکستان دشمنی پر لگے ہوئے ہیں مگر الحمدللہ ان کی تمام تر سازشوں کے باوجود پاکستان مضبوط اور مستحکم ہے۔آج پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے اس کے بعد پڑوسیوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، دہشت گرد گروہ اور ان کے ہمدرد و سہولت کار پاکستان میں مسلسل ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔

تحقیقات بتاتی ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں افغان شہری بھی ملوث ہوتے ہیں، پاکستان میں بیٹھے غیر قانونی مقیم افغان باشندے بھی سہولت کاری میں ملوث پائے گئے ہیں، افغانستان کے مسئلے اور دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کو نہ صرف ہزاروں نوجوانوں، ننھے بچوں، خواتین ہر عمر کے لوگوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ بظاہر مذہبی حلیے میں نظر آنے والے جب کہیں اپنے مقاصد کے لیے دہشت گردی کر کے معصوموں کو شہید کرتے ہیں تو وہ ثواب سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کے لیے جنت از خود تصور کر لیتے ہیں، حالانکہ وہ جہنم کے حق دار ہیں۔

دہشت گرد گروہ اور ان کے ماسٹر مائنڈز جرائم پیشہ ذہنیت کے مالک اور انتہا درجے کے مکار اور دغاباز ہیں، یہ لوگ بڑی عیاری کے ساتھ مذہبی کارڈ استعمال کرکے افغانستان کے پسماندہ معاشرے کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے اور اس کے لیے سفاکانہ انداز میں مخالفین کو قتل کرتے اور کراتے ہیں۔ یہ گروہ افغانستان اور پاکستان کے علمی، اخلاقی اور فکری ستونوں پر حملہ آور ہے۔

اسکولوں پر بم حملے اور طلبہ کو دی جانے والی دھمکیاں اس خطرناک مہم کا ثبوت ہیں۔ یہ عناصر تعلیم و تربیت کا خاتمہ کر کے مڈل کلاس کو فکری انتشار، فرقہ واریت اورکمزوری کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جب کہ روشن خیال اشرافیہ کو دہشت گردوں کے ذریعے قتل کراتے ہیں، انھیں تاوان کے لیے اغوا کرایا جاتا ہے، یوں انھیں خوف زدہ کرکے ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا جاتا ہے جب کہ جرائم پیشہ گنگز کے ساتھ ان کا اتحاد ہوتا ہے۔

ان دہشت گرد گروہوں کے ماسٹر مائنڈز قتل وغارت اور لوٹ مارکو بطور اسٹرٹیجی استعمال کرکے منظم ریاستوں کو کمزور کرتے ہیں ، ریاستی ڈھانچے کو کرپٹ کرتے ہیں اور پھر بزور قوت اقتدار پر قبضہ کرنا ان کا اولین و آخرین ہدف ہوتا ہے۔

پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین نے سرکاری اداروں اور سیاست میں موجودکرپشن کلچر سے فائدہ اٹھایا اور پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ حاصل کیے اور یوں پاکستان میں اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کے فوائد سمیٹ کر جائیدادیں بنائیں اور کاروبار کھڑے کرلیے، اب تو اس حوالے سے حقائق منظر عام پر آرہے ہیں کہ کس طرح افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستانی دستاویزات پر خلیجی عرب ممالک ، یورپ اور امریکا میں گئی اور وہاں پاکستانی بن کر پاکستان کے خلاف پراپگنڈا کرتے رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔پاکستان میں بعض سیاسی جماعتوں نے اپنے ووٹ بینک میں اضافے کے لیے غیرملکی باشندوں کی اندھی حمایت کی ہے۔اس لالچی سوچ نے آج پاکستان کو ایسے مسائل سے دوچار کردیا ہے ، جس کا حل کسی کے پاس نہیں رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس تصدیق کرتی ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی زیادہ ترکارروائیاں افغانستان سے کی جاتی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کو طالبان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، افغان باشندوں کی موجودگی پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ ایسی خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ امریکی انخلا کے دوران امریکی افواج کا بڑی تعداد میں اسلحہ افغانستان میں رہ گیا تھا جن میں چند ہوائی جہاز بھی تھے۔ یوں افغانستان میں بھاری اسلحہ بارود، فوجی گاڑیاں، چھوٹے ہتھیار، مواصلاتی گیئر، نائٹ ویژن گوگل، نگرانی، بائیو میٹرک اور پوزیشننگ کا سامان موجود ہے۔

اس اسلحہ میں سے بعض کو طالبان نے اپنی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، ان میں سے کچھ اشیاء دوسرے دہشت گرد گروپوں کے استعمال میں نظر آتی ہیں، ممکنہ طور یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ کے ذریعے نہ جانے کن کن دہشت گردوں تک پہنچا ہے۔ جب ملک سے غیر قانونی افغانوںکو نکالنے کی بات ہو، بارڈر بند کرنے کی بات ہو، تو پاکستان میں موجود مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل سیاست دان، مذہبی رہنما اور نام نہاد اسکالرز پاکستان اور افغانستان کی تاریخ بتانا شروع کر دیتے ہیں اور معاشرے میں ابہام اور کنفیوژن پیدا کرتے ہیں۔

پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں تک لاکھوں افغان مہاجرین کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی بنیادی وجہ غیر ملکی مداخلت اور ملک میں خانہ جنگی تھی، لیکن اب وہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ وجوہات باقی نہیں رہیں۔ اب یہ جنگ مکاتب فکر کی جنگ سے بلند ہے،یہ جنگ صوبے اور شہر کی حدود و قیود سے بھی آگے نکل چکی ہے، اب یہ پاکستان کے استحکام کی جنگ ہے اور پوری قوم کو یکسو ہو کر دہشت گردوں کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا ۔

 دہشت گردی نے ہمیں صرف انسانی جانوں کا نقصان نہیں پہنچایا، اس نے ہماری معیشت، ہمارے بنیادی ڈھانچے، ہماری تعلیم اور صحت کے نظام اور سماجی ہم آہنگی کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ سڑکیں، پل، بجلی کے نظام، تعمیراتی اسکیمیں، سب رکاوٹوں کا شکار ہوئیں۔ صنعتیں، مارکیٹس، سیاحت کے شعبے عقب میں رہ گئے۔ بیرونی سرمایہ کاری نے پاکستان کا رخ کیا، مگر عدم استحکام نے انھیں پیچھے ہٹا دیا۔

غربت بڑھی، بیروزگاری نے نوجوانوں کو بے راہ گزر بنایا۔ انسانی وسائل کی قیمت لاکھوں روپوں میں ہوکر رہ گئی، کیونکہ جن باصلاحیت افراد نے ملک کے تقدس کے لیے جانیں دی، انھیں ہم نے کھویا۔ لیکن یہی وہ وقت ہے جب ہمیں مایوسی کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف دیکھنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ وہ درس عام کریں جن سے دہشت گردی کے خاتمے کا نظریہ اجاگر ہو، نفرت کی شروعات، انتہا پسندی کے بیج اور تعصب کی بنیادیں کھٹکھٹائیں اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کو یہ سمجھائیں کہ سچ کا راستہ، عدل کا راستہ اور انسانیت کا راستہ ہی عزتِ دین اور عزتِ وطن کا حقیقی راستہ ہے۔حکومت کی پالیسیاں اگر مؤثر ہوں تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔

بارڈر سیکیورٹی میکنزم کو مزید بہتر بنانا ہوگا، شدت پسند گروہوں کے مالی ذرایع پر نظر رکھنی ہوگی، ان کے وسیلوں کو کاٹنا ہوگا اور ان کی تنظیم نو روکنی ہو گی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید تربیت اور جدید سازوسامان فراہم کرنا ہو گا۔

انٹیلی جنس نیٹ ورک کو شفاف اور جوابدہ بنانا ہوگا، تمام علاقائی اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ مؤثر ہونا چاہیے۔یہ وقت ہے کہ ہم ایک نئے باب کا آغازکریں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا باب، مگر امن کی جنگ کے ساتھ۔ بلاشبہ ہم دباؤ میں سر تسلیم خم نہ کریں، منفی سوچ پر نہ سمجھوتہ کریں۔ یہ ملک ہماری مشترکہ میراث ہے، قربانیوں کی عظیم داستان ہے اور جو عہد ہم نے آزاد سرزمین کے لیے کیا ہے، وہ ہمیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیکیورٹی فورسز اور افغانستان افغان مہاجرین دہشت گردوں کے دہشت گردی کے پاکستان میں پاکستان کے پاکستان کو اور افغان کرتے ہیں ہیں اور کے خلاف کی جنگ اور ان کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

 امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردی کی وجہ سے دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، محمد ایوب مغل 

جے یو پی جنوبی پنجاب کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ غزہ پر ہونے والے اسرائیلی ظلم پر مسلمان ممالک کا عملی اقدامات نہ کرنا مسلمان حکمرانوں کی بے حسی ہے، آج پوری دنیا میں مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی اس ظلم پر سر اپا احتجاج ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے پاکستان جنوبی پنجاب کے صدر اور ملی یکجہتی کونسل جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل محمد ایوب مغل نے کہا ہے کہ دو سال سے غزہ میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے کوئی روکنے والا نہیں، اقوام متحدہ امریکہ کی لونڈی ہے۔ اسرائیل کے ظلم و بربریت کی سرپرستی امریکہ کر رہا ہے جو کہ کھلی دہشت گردی ہے اور یہ دہشت گردی دنیائے انسانیت کی بقا کے لیے خطرہ ہے، اسرائیل اور امریکہ کی ہٹ دھرمی دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے، اسرائیل کے خلاف حکومتوں کو مزمتی قراردادوں کی بجائے پر عملی طور پر مرمتی کردار ادا کرنا چاہیے۔
 
 اُنہوں نے کہا کہ غزہ پر ہونے والے اسرائیلی ظلم پر مسلمان ممالک کا عملی اقدامات نہ کرنا مسلمان حکمرانوں کی بے حسی ہے، آج پوری دنیا میں مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی اس ظلم پر سراپا احتجاج ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو اپنی بے حسی کو ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ ظلم و بربریت کی آگ سب کو  باری باری اپنی لپیٹ میں لے گی۔ امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردی کی وجہ سے دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ انسانیت کی بقا کے لیے اس کو روکنا ضروری ہے، اس جدید دور میں غزہ اور فلسطین کے لوگوں کو غذا اور ادویات سے دور رکھنا علاج معالجہ سے دور رکھنا درندگی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ: ایف سی ہیڈ کوارٹر پر خودکش حملے کا ایک اور زخمی چل بسا، شہدا کی تعداد 13 ہوگئی
  • افغانستان میں عدم استحکام کے باعث خیبر پختونخوا میں امن و امان کے مسائل ہیں، علی امین گنڈا پور
  • صمود کاروان پر بین گویر حملہ دہشت گردی کی بدترین شکل ہے، مجاہدین موومنٹ فلسطین
  •  امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گردی کی وجہ سے دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، محمد ایوب مغل 
  • افغان وزیر خارجہ پر سفری پابندی میں عارضی نرمی، بھارت کا ممکنہ دورہ اہم پیشرفت قرار
  • بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
  • پنجاب سے خیبرپختونخوا کو آٹے پر پابندی غیر آئینی اقدام ہے ،میاں افتخارحسین
  • پاک افغان چیمبر اوریونان چیمبرکے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ ’سمندری دہشت گردی‘ ہے، حماس
  • بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی