شہری کشتیوں پر اعتمادکیجیے!
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
دوسری جنگ عظیم میں جرمنی ‘ ہٹلر کی قیادت میں یورپ کے کئی ممالک پر قابض ہو چکا تھا۔ پولینڈ‘ ڈنمارک‘ ناروے ‘ بیلجیئم ‘ ہالینڈ‘ یونان‘ یوگو سلاویہ اور فرانس گھٹنے ٹیک چکے تھے۔ یورپ کے کسی ملک میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ وہ ہٹلر کی مضبوط فوج کا مقابلہ کر سکے۔ مگر ایک سیاست دان تھا جو برسوں سے لوگوں کو سمجھا رہا تھا کہ ہٹلر ذہنی بیمار انسان ہے۔ اسے امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ایسی جنگ شروع کرے گا کہ بنی نوع انسان کا کثیر حصہ ختم ہو جائے گا۔ مگر وہ برطانوی سیاست دان ‘ بادشاہ کو پسند تھا اور نہ ہی اشرافیہ کو۔ اس کا مقولہ تھا کہ ہٹلر کے منفی ذہن کو صرف اور صرف وہی جانتا ہے۔ وہ ہی اس کا مؤثرعلاج کر سکتا ہے۔
اس محیر العقول سیاست دان کا نام ونسٹن چرچل تھا۔ ذاتی زندگی میں ہر بے اعتدالی اس کا شیوہ تھی۔ مگر اس کی شخصیت کا دوسرا رخ بھی تھا ۔ اس کے اعصاب بہت مضبوط تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں وہ خود شرکت کر چکا تھا۔ کسی کے رعب اور دبدبہ میں نہیں آتا تھا۔ برطانوی وزیراعظم ‘ کلیمنٹ ایٹلی ‘ چرچل کا شدید ناقد تھا۔ ایٹلی امن پسند انسان تھا۔ بلکہ ایک حد درجہ کمزور رہنما تھا۔ اس کی موجودگی میں برطانیہ شکست در شکست سے دو چار ہو رہا تھا۔ اب چرچل کو وزیراعظم بنائے بغیر کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ بادل ناخواستہ‘ بادشاہ اور ایٹلی نے ‘ چرچل کو وزیراعظم بننے کی دعوت دی۔ دس مئی 1940کو سیاست کا ناپسندیدہ ترین کردار‘ برطانوی وزیراعظم بن گیا۔
چرچل نے جو جنگی کیبنٹ بنائی ۔ اس میں کمال دانشمندی سے اپنے سیاسی مخالفین کو بھی شامل کیا۔ اس کا فلسفہ تھا کہ جنگ جیتنے کے لیے‘ تمام سیاست دانوں کو متحد ہونا پڑتا ہے۔ مگر ایک ایسا ہولناک واقعہ ہو گیا جس نے برطانوی عوام کو خوف زدہ کر ڈالا۔ فرانس کو بچانے کے لیے برطانوی حکومت نے اپنی فوج کا تین چوتھائی حصہ‘ اس کی حفاظت پر لگا رکھا تھا۔ جرمن فوج نے انھیں ڈنکرک نام کے ایک علاقہ میں حصار میںلے لیا تھا۔ جنگ زوروں پر تھی ۔ برطانوی آرمی چیف کا خیال تھا کہ چند ہی دنوں یا ہفتوں میںجرمنی‘ان کی پوری فوج کو قیدی بنا لے گی۔ برطانیہ اس ذلت آمیر شکست سے دو چار ہو گا جس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔
عملی طور پر جنگی کابینہ اور برطانوی فوج ہار ماننے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔ اس اہم ترین موقع پر چرچل نے بحریہ کے ایڈمیرل Bertran Ramsyکو کہا کہ وہ بحریہ کے تمام جہاز‘ ڈنکرک روانہ کر دے۔ اور فوجیوں کو جنگی سامان سمیت واپس لے کر آئے۔ رامسے نے جواب دیا کہ اس کے پاس اتنے بحری جہاز نہیں ہیں کہ وہ لاکھوں سپاہیوں کو واپس لا سکے۔ چرچل نے ایک حیرت انگیز حکم دیا۔ برطانیہ میں جس سویلین کے پاس کوئی بھی چھوٹی یا بڑی کشتی ہے ڈنکرک جا کر سپاہیوں کو واپس لے کر آئے گا۔ رامسے کا خیال تھا کہ چرچل پاگل ہو چکا ہے۔ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر برطانیہ میں جمہوریت ہے۔ کوئی بھی وزیراعظم کی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔
عوام کو کشتیوں کی اپیل کی گئی۔ اس آپریشن کا نام آپریشن ڈائنمو رکھا گیا۔ 26مئی 1940 کو برطانوی بحری جہازوں کے ساتھ‘ ہزاروں شہری اپنی کشتیاں لے کر ڈنکرک روانہ ہو گئے۔ ہٹلر‘ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چرچل شہریوں کی مدد سے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دینے جا رہاہے جو دوسری جنگ عظیم کا پانسہ پلٹ دے گا۔ پہلے دن‘7669فوجیوں کو برطانیہ کامیابی سے واپس لایا گیا۔ صرف آٹھ دنوں میں 339226فوجیوں کو اسلحہ سمیت‘ حفاظت سے برطانیہ واپس لے آیا گیا۔ اس پورے مرحلہ میں بحریہ کے صرف چالیس جہاز تھے۔شہریوں نے آٹھ سو کشتیاں فراہم کی تھیں۔ جن میں مال بردار ‘دخانی شہری بحری جہاز بھی شامل تھے۔
جیسے ہی آپریشن ڈائنمو کامیاب ہوا۔ چرچل پارلیمنٹ میں گیا ۔اعلان کیا کہ ہٹلر برطانوی شہریوں کی ہمت اور عزم کے سامنے‘ مٹی کے ڈھیر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ دوسری جنگ عظیم میں اب اس کی قسمت میں صرف شکست ہی شکست لکھی گئی ہے۔ برطانوی لوگوں کو یقین آ گیا کہ ان کا وزیراعظم‘ اس اہلیت کا حامل ہے کہ جرمنی کو ناکوں چنے چبوا دے گا۔ جنگوں کی تاریخ میں بحریہ‘ سیاست دانوں‘ عسکری طاقت اور عام شہریوں کی ایسی ہم آہنگی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہی جذبہ‘ برطانیہ کو اس قابل بنا گیا کہ یکسو ہو کر 1945 تک انھوں نے جرمنی کو خس و خاشاک میں بدل ڈالا اور ہٹلر کو فنا کردیا۔ زندہ قوموں کے سیاست دان‘ مشکل ترین حالات میں بھی اپنے تجربہ سے تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں۔ یہ آپریشن اس کی ایک تابناک مثال ہے۔
اس طرح کے کارنامے انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی ملک کے پاس اتنی سنجیدہ قیادت ہو جو عوام کو اپنے ساتھ رکھ کر‘ امن اور جنگ‘ دونوں صورتوں میںاپنی قوم کو سرخرو کر سکے۔ اس کلیہ کے برعکس‘ ہمارے ملک میں شروع ہی سے ملکی قیادت ایسے کوتاہ اندیش ‘ حکمرانوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ جن کی فہم حد درجہ پست تھی۔اس کی ایک تاریک مثال‘ مشرقی پاکستان کے اندر ‘ خانہ جنگی ہو کر بنگلہ دیش کا ظہور تھا۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ کیسے ہوا۔ 1970کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے ایک کروڑ انتیس لاکھ ووٹ حاصل کیے، ان کے پاس قومی اسمبلی کی 167 نشستیں آ گئیں۔
یہ تمام کی تمام مشرقی پاکستان میں تھیں۔ یعنی ‘ عوامی لیگ کا مینڈیٹ‘ پورے مشرقی پاکستان میں مقبول تھا۔ اس کے برعکس ‘ بھٹو کی پیپلزپارٹی کو محض اکسٹھ لاکھ ووٹ ملے۔ اور اس کی نشستیں صرف 86 تھیں اور یہ تمام نشستیں مغربی پاکستان میںتھیں۔ کسی بھی جمہوری قاعدے اور اصول کے مطابق ‘ حکومت بنانے کا حق صرف اور صرف مجیب الرحمن کو حاصل تھا۔ بھٹو صرف اپوزیشن لیڈر بن سکتے تھے۔
المیہ یہ ہوا کہ جنرل یحییٰ اور بھٹو نے ان نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا۔ 25دسمبر1971 کو جنرل یحییٰ کے حکم پر مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کر دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ بریگیڈیئر رحیم الدین کی سربراہی میں ایک فوجی عدالت قائم کی جس میں اس سیاسی رہنما پر بغاوت کا مقدمہ چلنے لگا۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس سیاہ کاری کا انجام ‘ پاکستان کے لیے بہت برا ہوا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں کافی کچھ درج ہے اور تمام سنجیدہ لوگ اسے پڑھ چکے ہیں۔
سچ تو یہ ہے ہمارے سماج میں ‘ آزادیِ سوچ کا سات دہائیوں سے ہی فقدان ہے۔ ان الفاظ پر غور ضرور فرمائیے۔ ’’آزادیِ سوچ‘‘ یا ’’فکری آزادی‘‘۔ 1947سے لے کر آج تک ہم لوگ ہر سطح پرزندہ سوچ سے ڈرتے ہیں۔ Freedom of expression تو بہت بعد کی بات ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سطحی سوچ کو اس طرح سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جاتا ہے کہ عام شخص میں سوچنے کی طاقت کو ہی سرنگوں کر دیا گیا۔
اسی نسخہ کے تحت‘ عصبیت کے وہ جعلی بت اور ادارے تراشے گئے جن کے متعلق آپ کچھ منفی جملہ لکھ نہیں سکتے بلکہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ساتھ ساتھ‘ عام آدمی کے لیے دانستہ طور پر اتنے تلخ مسائل‘ پیدا کر دیے گئے کہ وہ ان سے باہر نکل ہی نہیں سکتا۔ پھر ایک جعلی سیاسی اور مذہبی اشرافیہ کو پیدا کیا گیا ہے جو صرف اور صرف مالی منفعت پر زندہ ہے۔ ان تمام اجزاء کو اکٹھا کیا جائے تو آج کے پاکستان کے مسائل سمجھنے آسان ہو جاتے ہیں۔
آج ہمارے ملک کے دو صوبوں میں بدامنی جاری ہے۔ ہم جو مرضی کہیں‘مگر ان کی بنیاد ہمارے حکمرانوں کی وہ غلطیاں ہیںجنھیں تسلیم کرنا مشکل ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے افغانستان سے متصل علاقوں میں دہشت گردی ہورہی ہے ۔ ہمارے جری جوان‘ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر‘ان صوبوں میں امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان شہادتوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مگر سوال تو اٹھتا ہے کہ کیا ہم دس پندرہ برس سے مسلسل جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ سے مطلوبہ نتائج حاصل کر چکے ہیں یا کر سکتے ہیں؟ سنجیدہ جواب نفی میں ہے۔
دہشت گردی کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی، یہ درست نکتہ ہے ۔ مگر کیا مقامی آبادی اور مقامی منتخب نمایندوں کی حمایت ‘ اس گھمبیرمعاملہ میں موجود ہے۔ جواب آپ بخوبی جانتے ہیں۔ خیر وقت تو گزر چکا ہے۔ مگر اب بھی ضروری ہے کہ حکومت دیگر تمام عناصر سے معاملہ فہمی کر کے چلے۔ یک طرفہ آپریشن سے مشکلات بڑھنے کا امکان ہے؟ اگرچرچل‘ جنگ میں بھی لاکھو ں فوجیوں کو شہری مدد سے‘ واپس لا سکتا ہے۔ تو ہم تاریخ سے سبق سیکھ کر قومی مفاہمت کا ڈول کیوں نہیں ڈال سکتے؟ تاریخ کے تناظر میں صرف سوچ بدلنے کی بات ہے! خدارا‘مقبول سیاستدانوں اور عوامی رائے کو کشتیاں سمجھیں ۔ چرچل کی طرح شہری کشتیوں پر مکمل اعتماد کر کے دیکھیں۔ حالات یکسر بہتر ہو جائیں گے!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان پاکستان میں سیاست دان کے لیے کے پاس تھا کہ
پڑھیں:
مددگار 15 کی کارروائی، شہری بازیاب، چھینی گئی موٹرسائیکل برآمد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی میں مددگار 15 نے بروقت ردعمل اور مؤثر کارروائیوں کے ذریعے شہریوں کو ریلیف فراہم کیا۔ بوٹ بیسن میں حبسِ بے جا میں قید ایک شخص کو بازیاب کرالیا گیا اور سچل میں چھینی گئی موٹرسائیکل برآمد کرلی گئی۔ پولیس کے مطابق بوٹ بیسن میں مددگار 15 کو فون موصول ہوئی کہ میرے بھائی اور دوست کو زبردستی قید میں رکھا گیا ہے۔ اہلکاروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے جائے وقوع سے ایک شخص کو بازیاب کرایا جبکہ ملزمان موقع سے فرار ہوگئے۔ اس دوران سہولت کاروں نے پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی بھی کی۔ کالر نے پولیس کے بروقت رسپانس کو سراہتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔ اسی طرح سچل کے علاقے میں مددگار 15 کو شہری کی چھینی گئی ہنڈا 125 موٹرسائیکل سے متعلق اطلاع ملی۔ اہلکاروں نے کالر کی نشاندہی پر لوکیشن پر پہنچ کر موٹرسائیکل برآمد کرلی، تاہم ملزمان اہلکاروں کی آمد سے پہلے فرار ہوگئے۔