استنبول میں ایک مسجد ایسی ہے جو گزشتہ پانچ سو برس سے رو رہی ہے۔ یہ مسجد ضلع فاتح میں ہے۔ اس ضلعے میں ایک پررونق سڑک ہے شہزادے جادہ سی(شاہ راہ)یہ مسجد اسی سڑک پر واقع ہے۔
پر شور سڑک پر خاموش اور اداس۔ جیسے کوئی کیفیت انسانوں کی پہچان اور شخصیت بن جاتی ہے، ویسے ہی عمارتیں بھی محسوس کرتی ہوں گی پھر یہ احساس ان کی پہچان اور شناخت بن جاتا ہے۔ اداسی اور گریہ اس مسجد کی شناخت ہے۔میں جس روز استنبول پہنچا چند گھنٹے کے بعد عاطف بٹ آ پہنچے۔ عاطف سمجھ دار پاکستانی صحافی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران میں پاکستانی صحافیوں کی جو درگت بنی ہے، اس کا اندازہ انھیں بہت پہلے ہو گیا ہو گا جبھی تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر استنبول کے ہو گئے۔ آج ان کا شمار پاکستانی باسمتی کے بڑے تاجروں میں ہوتا ہے لیکن چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی لہٰذا صحافت بھی کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ باہر نکل کر کسی تاریخی عمارت کے زیر سایہ آپ کا انٹرویو کرتے ہیں۔ یوں میں پہلی بار ان کے ساتھ اس مسجد تک پہنچا۔ اس کے بعد میں بار بار یہاں آیا۔
انٹرویو ہو گیا اور عاطف واپس پلٹنے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ ذرا ٹھہریں، میں ایک نگاہ اندر ڈال آں۔ انھیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ میں آگے بڑھا اور جوتے اتارتے ہوئے ہی پکڑا گیا۔آثار قدیمہ پر لگی تختیوں کی طرح ترک ایسی عمارتوں کا بڑا تفصیلی تعارف لکھتے ہیں جنھیں کوئی پڑھتا ہے اور کوئی سرسری سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ میرے مزاج میں تیز رفتاری تو ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ دیکھنے والی چیز بھی نہ دیکھی جائے۔ خیال تو یہی تھا کہ جوتے اتارتے ہوئے اس مسجد کے کتبے پر بھی ایک نگاہ ڈال لوں گا لیکن اس کتبے نے تو مجھے جیسے پکڑ لیا۔ یہ کوئی سادہ سا کتبہ نہیں تھا، ایک پہیلی تھا۔
سادہ سی باتیں تو بس دو تین ہیں کہ یہ مسجد سلطان سلیمان عالی شان نے اپنے بیٹے اور ممکنہ ولی عہد کی یاد میں بنوائی جو عہد شباب میں اللہ کو پیارا ہو گیا تھا لیکن بات اتنی سادہ نہیں اس کی موت کے پس پشت ایک سنسنی خیز کہانی اور بھی ہے۔ یا یہ کہ استنبول میں سلطان سلیمان کی بنوائی ہوئی یہ پہلی عمارت ہے۔ یا یہ کہ عثمانی جادو گر یعنی معمار سنان کے فن اور مہارت کا یہ پہلا امتحان تھا مگر کیسا؟ اسی چیز کے بارے میں اس کتبے پر کچھ لکھا تھا جس نے میرے پاؤں پکڑ لیے۔
مغل مساجد اور عثمانی مساجد میں ایک بڑا فرق ہے۔ ہماری مساجد کے صحن بہت بڑے ہوتے ہیں اور ہال مختصر۔ چند صفوں کے بعد انسان مسجد کی چھت سے نکل کر صحن میں داخل ہو جاتا ہے، اس کے مقابلے میں عثمانی مساجد کا ہال بہت بڑا ہوتا ہے جس میں بہ یک وقت ہزاروں نمازیوں کے لیے جگہ ہوتی ہے۔
یہ مسجد بھی ایسی ہے۔عثمانی مساجد کا گنبد اتنا سادہ نہیں ہوتا مرکزی گنبد کے گرد بہت سے ذیلی گنبد بھی ہوتے ہیں جو مسجد کی ظاہری ساخت میں پیچیدگی اور گہرائی پیدا کر کے دل کشی اور کشش میں اضافہ کر دیتے ہیں لیکن مجھے بہت سارے گنبدوں کی بات نہیں کرنی، مرکزی گنبد کی بات کرنی ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ اتنی اور اتنی لمبائی چوڑائی رکھنے والا گنبد ہاتھی کے چار پاؤں پر کھڑا ہے۔ لیجیے، یہ مسجد صرف مسجد تو نہ رہی بھید بن گئی۔
بس، ہاتھی کے ان ہی چار پاؤں کا معمہ تو تھا جنھوں نے میری توجہ کھینچی۔ ہماری داستانیں بڑی زرخیز ہیں، ان کے قصے کہانیوں میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو انسان کو پکڑ لیتی ہیں جیسے حاتم طائی کے قصے آرائش محفل میں ایسے درختوں کا ذکر ہے جن پر انسانی چہرے لٹکتے تھے اور حاتم طائی کو دیکھ کر زور زور سے ہنستے تھے۔
معمار سنان بھی کوئی معمولی معمار تو نہ تھا جادو گر تھا، یہ مسجد اگر ہاتھی کے پیروں پر کھڑی ہے تو اس پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ بس، میں بھی حاتم طائی کی طرح اس سوال کے جواب میں نکلا اور بہت کچھ پا کر لوٹا۔یہ مسجد نہیں ایک کمپلیکس ہے جس میں کارواں سرائے، لنگر خانہ اور دینی مدرسہ سب شامل ہے۔ یہ پہلی اتنی بڑی عمارت ہے، سلطان سلیمان عالی شان نے جس کی تعمیر کا حکم دیا۔ اسی طرح یہ مسجد معمار سنان کے کیریئر کی پہلی عمارت ہے۔
شہزادہ محمد کا انتقال ہوا تو سلطان نے معمار سنان کو اس کی یاد میں شایان شان مسجد کمپلیکس کی تعمیر کا حکم دیا۔ یہ حکم سن کر معمار کا دل بھی یقیناً لرزا ہو گا کہ وہ اپنے پہلے امتحان میں کیسے کام یاب ہو گا؟ بس اسی فکر مندی میں اسے ہاتھی جیسے عظیم الشان جانور کا خیال آیا جس کا بھاری بھرکم جثہ خوب جگہ گھیرتا ہے۔
یہ عین ممکن ہے کہ گھوڑے کے جسم کی طرح چست ہال کے مقابلے میں وسیع و عریض ہال کا تصور ہاتھی کے جسم سے مستعار لیا گیا اور عمارت کو حادثات اور زلزلوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہاتھی کی ٹانگوں کو استعارہ بنایا گیا ہو جن کی شاک آبزور جیسی لچک ان میں توانائی، زیادہ سے زیادہ وزن اٹھانے اور حادثات میں محفوظ رہنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔ تو اس مسجد کا عظیم گنبد ہاتھی کے چار پاؤں پر یوں کھڑا ہے۔
اب سوال یہ کہ یہ مسجد روتی کیوں ہے؟ اس کے پس پشت بھی ایک اسرار ہے جس کا تعلق معمار سنان کے تخلیقی ذہن سے ہے۔
اسے چوں کہ ایک عزیز کی یاد میں مسجد بنانے کا حکم ملا تھا، اس لیے اس نے سلطان، اس کے اہل خانہ اور رعیت کے غم کو منقش کرنے کا ایک منفرد طریقہ نکالا۔ مسجد کے مینار پر ایسے نقش و نگار بنائے جنھیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آنسو گر رہے ہیں۔ معمار سنان نے اس مسجد کی تعمیر کے بعد ایک سے بڑھ کر ایک مسجد بنائی لیکن کسی دوسری مسجد کے مینار پر ایسے نقش و نگار نہیں ملتے۔
ڈاؤن ٹاؤن میں جتنے دن میرا قیام رہا، میں روزانہ اس مسجد میں پہنچا۔ کبھی میں اس کی اندرونی دیوار پر کسی نامعلوم خطاط کا تحریر کردہ لفظ ' و' بیٹھا تکتا رہتا۔ نہیں معلوم یہ خطاطی کس کی ہے لیکن اب یہ ورثہ ہے، اس لیے محفوظ ہے، اس ایک لفظ میں پیچ و خم اور نزاکت ایسی ہے کہ انسان دیکھتا رہ جائے۔
میں مسجد سے منسلک احاطے میں چلا جاتا جہاں شہزادہ ابدی نیند سوتا ہے۔ قریب ہی رستم پاشا کی قبر ہے جو شہزادی مہرماہ سلطان کا شوہر تھا، اس کا مقبرہ بھی اسی معمار نے ان ہی ہاتھوں سے بنایا جن ہاتھوں سے اس نے اپنی خاموش محبت کی بولتی ہوئی یادگار مہر ماہ سلطان کی دو مسجدیں بنائی تھیں۔
ایک روز میں قبرستان سے متصل وسیع احاطے میں داخل ہوا جو کبھی باغ رہا ہو گا۔ باغ میں ایک درخت تلے بھرے پنڈے کی ایک لڑکی اداس بیٹھی تھی۔ میں نے اسے دیکھا پھر سوچا کہ اس سنسان احاطے میں وہ اکیلی بیٹھی کیا کر رہی ہے؟ یہی سوچتا ہوا میں آگے بڑھ گیا پھر کسی خیال کے تحت پلٹ کر دیکھا تو وہ نہیں تھی۔ اتنے بڑے احاطے سے وہ یکایک کیسے غائب ہو گئی؟ اس سوال نے مجھے پریشان کیا اور میں آیت الکرسی پڑھتا ہوا احاطے سے نکل آیا پھر کبھی اس طرف نہیں گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہاتھی کے میں ایک یہ مسجد مسجد کی کے بعد
پڑھیں:
لفتھانزا کا چار ہزار ملازمتوں میں کٹوتی کا اعلان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا منافع میں کمی اور معاشی مشکلات کی بنا پر ملازمین کی تعداد میں کمی کرنے جا رہی ہے۔ 2024 میں ہڑتالوں، جہازوں کی ترسیل میں تاخیر اور بڑھتی ہوئی سفری لاگت کے باعث لفتھانزا کی آمدنی 20 فیصدکم ہوئی اور یوں وہ یورپ کی بڑی حریف ایئر لائنز کے مقابلے میں منافع میں پیچھے رہ گئی۔
یہ تازہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپ کی سب سے بڑی معیشت کا حامل ملک جرمنی طویل کساد بازاری سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور اس کے بڑے صنعتی ادارے دباؤ کا شکار ہیں۔
کن ملازمتوں پر اثر ہوگا؟ملازمتوں میں یہ کمی 2030 تک مکمل کی جائے گی اور زیادہ تر انتظامی شعبے اس کا ہدف بنیں گے جبکہ پائلٹس اور کیبن کریو جیسی ملازمتیں اس فیصلے سے متاثر نہیں ہوں گی۔
(جاری ہے)
لفتھانزا، جو یورو وِنگز، آسٹرین، سوئس اور برسلز ایئر لائنز چلاتی ہے اور اٹلی کی آئی ٹی اے ایئر لائنز میں بھی شراکت رکھتی ہے، 2028 سے 2030 کے درمیان 300 ملین یورو (350 ملین ڈالر) کی بچت کا ہدف بنا رہی ہے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مختلف شعبوں میں کارکردگی بڑھے گی۔ اس وقت لفتھانزا کے کل ملازمین کی تعداد تقریباً 1,03,000 ہے۔
ملازمین کی تعداد میں کمی پر یونین برہملفتھانزا کے دفتری عملے کی نمائندہ ٹریڈ یونین ویرڈی (Verdi) نے ان ’’سخت کٹوتیوں‘‘ کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ہوابازی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی لاگت، ایئرپورٹ چارجز اور نئے ماحولیاتی ضوابط اس صورتحال کی بڑی وجوہات ہیں۔ یونین کے نمائندے مارون ریشنسکی نے کہا، ''جرمن اور یورپی ہوابازی کی پالیسی اس صورتحال کی بڑی ذمہ دار ہے‘‘۔
انہوں نے حکومت سے اس شعبے کی مدد کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔ کورونا کے بعد منافع، پھر مشکلاتکورونا وبا کے بعد سفر کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث لفتھانزا نے ایک عرصے تک ریکارڈ منافع کمایا، مگر 2024 اس کے لیے ایک مشکل سال ثابت ہوا۔ ملازمین نے مہنگائی کے باعث تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ اخراجات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔
کمپنی نے پچھلے سال دو بار منافع میں کمی سے متعلق وارننگ بھی جاری کی تھی۔لفتھانزا کا آپریٹنگ منافع کا مارجن کم ہوکر 4.4 فیصد رہ گیا، جو اس کے بڑے یورپی حریفوں آئی اے جی (IAG) اور ایئر فرانس، کے ایل ایم سے کم ہے۔
مستقبل کے اہداف اور خدشاتلفتھانزا نے 2028 سے 2030 کے لیے نئے مالیاتی اہداف مقرر کیے، جن میں منافع کا مارجن آٹھ سے دس فیصد تک بڑھانا شامل ہے، تاہم ماہرین نے فوری طور پر ان اہداف کو حد سے زیادہ پرامید قرار دیا۔