ثنا جاوید کا شعیب ملک کی ٹیم میں واپسی پر متنازعہ بیان، تنقید کے بعد یوٹرن؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
پاکستان کے سینئر کرکٹر شعیب ملک کی اہلیہ اداکارہ ثنا جاوید نے پاک بھارت ایشیا کپ کے فائنل میچ سے قبل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر آج شعیب ملک ٹیم کا حصہ ہوتے تو ان کے برسوں کا تجربہ نہ صرف پاکستانی ٹیم بلکہ عوام کے لیے بھی امید کی کرن بن جاتا۔ میدان میں ان کی موجودگی ہی ہمت جگانے اور فتح پر یقین دلانے کے لیے کافی ہوتی۔
ثنا جاوید کے اس بیان کے بعد بھی صارفین انہیں آڑے ہاتھوں لیتے نظر آئے۔ ایک صارف نے کہا کہ آپ جا کے اداکاری کریں جو آپ کا کام ہے یہ ہماری فیلڈ ہے۔ خالد نامی صارف نے کہا کہ اگر شعیب ملک ٹیم میں ہوتے تو پاکستانی ٹیم ثانیہ مرزا اور عمیر جیسوال کی طرح تقسیم ہو جائے گی۔
حذیفہ اعوان لکھتے ہیں کہ اگر شعیب ملک ٹیم کا حصہ ہوتے تو پاکستان کبھی بھی فائنل میں نہ پہنچ سکتا جبکہ ایک صارف نے سوال کیا کہ انہوں نے پاکستان کے لیے پہلے کتنے کپ جیتے ہیں؟
تنقید کے بعد انہوں نے ایک اور پوسٹ کی جس میں کہا گیا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ شعیب ملک ٹیم میں ضروری ہیں، لیکن ٹیم میں ایک سینئر کا ہونا لازمی ہے، مثلاً بابر اعظم، محمد رضوان یا کوئی اور۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایشیا کپ ایشیا کپ فائنل بابر اعظم پاکستان بمقابلہ انڈیا ثنا جاوید شعیب ملک محمد رضوان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایشیا کپ ایشیا کپ فائنل پاکستان بمقابلہ انڈیا ثنا جاوید شعیب ملک محمد رضوان شعیب ملک ٹیم ثنا جاوید ٹیم میں کے لیے
پڑھیں:
انسدادِ شدت پسندی قانون امن کے فروغ میں سنگِ میل ثابت ہوگا، ڈاکٹر احمد جاوید قاضی
مقررین نے پالیسی ڈائیلاگ سے خطاب میں کہا کہ انتہا پسندی کا مقابلہ صرف قانون سے نہیں، بلکہ تعلیم، آگاہی اور مکالمے سے ممکن ہے۔ ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پیغامِ پاکستان، سائبانِ پاکستان اور دخترانِ پاکستان کے منصوبے کامیابی سے جاری ہیں۔ ماہرین نے بین المذاہب ہم آہنگی، فرقہ واریت کے خاتمے، خواتین اور بچوں کے حقوق بارے اظہار خیال کیا۔ اسلام ٹائمز۔ حکومت پنجاب کا شدت پسندی کے خاتمے اور پْرامن معاشرے کے قیام کا مشن، گورنر ہاؤس لاہور میں "پنجاب انسدادِ شدت پسندی ایکٹ 2025" کے حوالے سے پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا۔ محکمہ داخلہ پنجاب اور سینٹر فار کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم پنجاب نے گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں ڈائیلاگ کا اہتمام کیا۔ سیکرٹری داخلہ پنجاب ڈاکٹر احمد جاوید قاضی، قانون دان احمر بلال صوفی، سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر خالد محمود، وائس چانسلر اوکاڑہ یونیورسٹی ڈاکٹر سجاد مبین، ایڈیشنل آئی جی شہزادہ سلطان، ڈاکٹر راغب نعیمی نے ڈائیلاگ میں خصوصی شرکت کی۔
پالیسی ڈائیلاگ میں اعلیٰ سرکاری حکام، یونیورسٹی پروفیسرز، علما، ماہرینِ قانون، سول سوسائٹی اور طلبہ کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی۔ ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی، ڈاکٹر ارم، منصور اعظم قاضی، ڈاکٹر شاہد اقبال، ڈاکٹر احمد خاور شہزاد نے پینل ڈسکشن میں حصہ لیا۔ سیکرٹری داخلہ پنجاب ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومتِ پنجاب کی پالیسی انتہا پسندی کیخلاف قومی عزم کی عکاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں امن، رواداری اور برداشت کے فروغ میں نوجوانوں اور سول سوسائٹی کا کلیدی کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ روشن، پُرامن اور خوشحال پاکستان کی تشکیل میں مردوں کیساتھ خواتین کا کلیدی کردار ہے، قانون شدت پسندی کے خاتمے اور امن کے فروغ میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔
مقررین نے پالیسی ڈائیلاگ سے خطاب میں کہا کہ انتہا پسندی کا مقابلہ صرف قانون سے نہیں، بلکہ تعلیم، آگاہی اور مکالمے سے ممکن ہے۔ ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پیغامِ پاکستان، سائبانِ پاکستان اور دخترانِ پاکستان کے منصوبے کامیابی سے جاری ہیں۔ ماہرین نے بین المذاہب ہم آہنگی، فرقہ واریت کے خاتمے، خواتین اور بچوں کے حقوق بارے اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کے خاتمے اور پُرامن و مہذب معاشرے کی تشکیل میں تمام مکاتب فکر کا متوازی کردار ہے۔ ڈائیلاگ کے اختتام پر سیکرٹری داخلہ پنجاب ڈاکٹر احمد جاوید قاضی نے مشترکہ اعلامیہ پیش کیا۔