ہمیں یقین دلایا گیا ہے حماس معاہدہ قبول کر لے گی: اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
فوٹو: اسکرین گریب
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ حماس معاہدے کی مخالفت کرے گی، ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ وہ معاہدہ قبول کر لے گی۔
اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پیس فورس کے لیے انڈونیشیا نے 20 ہزار اہل کار دینے کی پیش کش کی ہے، فلسطین میں گراؤنڈ پر فلسطینی قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈیل کریں گے، امید ہے کہ پاکستانی قیادت بھی اس سے متعلق کوئی فیصلہ کرے گی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 5 ممالک کہہ رہے ہیں کہ پلان کو حماس قبول کر لے گی تو ہمیں ان پر یقین کرنا چاہیے، پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، آئیڈیا ہے کہ فلسطین میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل آزاد حکومت ہو گی، حکومت پر ایک نگراں باڈی ہو گی جس میں زیادہ تر فلسطینی ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے یو این جنرل اسمبلی اجلاس میں فلسطین کا مسئلہ بھرپور طریقے سے اجاگر کیا، فلسطین و ترکیہ سمیت بہت سے ملکوں نے مسئلہ فلسطین اجاگر کرنے پر وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ یو این جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کی، انہوں نے آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کی، وزیرِ اعظم نے بنگلادیش کےچیف ایڈوائزر، سری لنکا کے صدر، عرب ملکوں کے سربراہان سے بھی ملاقاتیں کیں۔
وہ تمام ممالک جنہوں نے فلسطین کو تاحال تسلیم نہیں کیا وہ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست فلسطین کو تسلیم کریں:اسحٰق ڈار
اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیرِ اعظم نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو عالمی فورم پر اجاگر کیا گیا، بطور وزیرِ خارجہ 9 اعلیٰ سطح کے اجلاس اور 20 سے زیادہ دو طرفہ ملاقاتیں کیں، وزیرِ اعظم نے منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف سے ملاقات کی۔
انہوں نے بتایا کہ وزیرِ اعظم نے فلسطین پر او آئی سی کے 6 رکنی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی، اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے معاملے پر اجلاس میں بھرپور آواز اٹھائی، پائیدار ترقیاتی اہداف اور موسمیاتی چیلنجز سے متعلق اجلاس میں بھی شرکت کی، غزہ میں جاری ظلم و بربریت کا معاملہ بھرپور طریقے سے اٹھایا، غزہ میں جنگ بندی اور مسلسل امداد کی فراہمی کے لیے مثبت بات چیت کی۔
نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈارنے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں فلسطین کے ایجنڈے پر پاکستان سمیت 8 ممالک تیار ہوئے، صدر ٹرمپ سے غزہ میں فوری جنگ بندی اور امداد کامعاملہ اٹھایا، بھوک کا شکار فلسطینیوں کے لیے بھرپور آواز اٹھائی گئی، فلسطینی عوام کی غزہ میں دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کاری کا معاملہ اٹھایا، فلسطین کے معاملے پر کوئی چھوٹا نہیں بہت بڑا ایجنڈا تھا، اسرائیل کی مغربی کنارے پر قبضے کی کوشش کو روکنا بھی ایجنڈے میں تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطین امن معاہدے پر سعودی وزیرِ خارجہ مسلسل رابطے میں رہے، پاکستان، سعودی عرب، یو اے ای، ترکیہ سمیت 8 ملکوں نے مشترکہ بیان جاری کیا، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جنرل اسمبلی میں امتِ مسلمہ کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی، 8 ملک فلسطین کے معاملے کا 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے تحت حل کے لیے پُرعزم ہیں۔
نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈارنے کہا کہ جب تک دو ریاستی حل کے متعلق فلسطینی کوئی فیصلہ نہیں کرتے کوئی حل تھوپا نہیں جا سکتا، 1967ءسے پہلے کی سرحدوں کے تحت خودمختار فلسطینی ریاست چاہتے ہیں، ایسی آزاد خود مختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو، فلسطینی حکام نے 8 ملکوں کے مشترکہ اقدامات کا خیر مقدم کیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اجلاس میں فلسطین کے اسحاق ڈار نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
فلسطین کو محدود اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ قبول نہیں کیا جا سکتا، ا فضل الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے غزہ امن معاہدے کے 20 نکات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کو رد کرے۔
پارلیمنٹ ہائوس میں قومی اسمبلی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ امریکہ کا پیش کردہ یہ معاہدہ فلسطین کو محدود کرنے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو تقویت دینے کے مترادف ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاک سعودی دفاعی معاہدے کا جے یو آئی دل و جان سے خیرمقدم کرتی ہے۔ یہ معاہدہ اسلامی دنیا اور خطے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے، اور اس پر سعودی عرب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ان کی آرزو ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب اسلامی دنیا کی قیادت کریں، اور مستقبل میں دیگر اسلامی ممالک بھی اس معاہدے کا حصہ بن سکتے ہیں۔
جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ٹرمپ امن معاہدے پر حکومت پاکستان کی پالیسی سے وہ متفق نہیں ہیں کیونکہ ٹرمپ کی اپنی پالیسیوں اور بیانات میں تضاد ہے۔ ان کے بقول، امریکہ کی جانب سے پہلے اور بعد میں پیش کیے گئے نکات میں واضح فرق ہے جبکہ بعض اسلامی ممالک نے بھی ملاقاتوں کے دوران اس معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ اس کی شرائط کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
فضل الرحمن نے مزید کہا کہ امریکہ کے نئے معاہدے میں نہ تو اسرائیل کو روکا گیا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے، بلکہ مزاحمتی تحریکوں کو دبانے اور اسرائیل کو کھلا ہاتھ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسے معاہدے کسی طور قابلِ قبول نہیں ہیں۔