اسلام آباد (خبر نگار خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے سیاست کے لیے غزہ معاہدے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہاں معصوم شہریوں کا خون بہتا رہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 8 مسلم ممالک کے سربراہان کی ملاقات کا مقصد غزہ میں امن واپس لانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر سے ملاقات سے قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک میٹنگ شیڈول کی۔ اسحٰق ڈار نے مزید بتایا کہ اسلامی ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوران ملاقات تفصیل کے ساتھ اپنا ایجنڈا پیش کیا، جس پر امریکی صدر نے کہا کہ میری ٹیم اور آپ لوگ بیٹھ کر کوئی قابل عمل پرپوزل لے کر آئیں۔ جس کے بعد ہماری کچھ ایسی میٹنگز بھی ہوئیں، جن کے حوالے سے اتفاق کیا گیا تھا کہ وہ کلاسیفائیڈ اور سیکریٹ ہوں گی، انہیں پبلک نہیں کیا جائے گا، مختلف سوالات پر اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکا نے جو 21 نکاتی ڈاکیومنٹس جاری کیے ہیں اسے من و عن تسلیم نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے اس میں ترامیم کیں، ابھی جو ڈاکیومنٹس ہیں وہ امریکا نے جاری کیے ہیں، ہماری ترامیم شامل اگر نہیں ہیں تو شامل ہونی چاہییں۔ انہوں نے بتایا کہ انڈونیشیا نے 20 ہزار فوجی فلسطین بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 ممالک نے واضح کیا ہے کہ ویسٹ بنک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، فلسطین نے آٹھ ممالک کے امن معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور کچھ لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں، یہ لوگ اپنی سیاست کے لیے تنقید کر رہے ہیں خدا کا خوف کریں، کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہاں خون بہتا رہے، بچے اور خواتین مرتے رہیں؟ ان لوگوں کا مقصد صرف سیاست ہے۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات میں فلسطین کے ایجنڈے پر پاکستان سمیت 8 ممالک تیار ہیں۔ اسرائیل کی مغربی کنارے پر قبضے کی کوشش کو روکنا بھی ایجنٹوں میں تھا فلسطین امن معاہدے پر سعودی وزیر خارجہ مسلسل رابطے میں رہے۔ پاکستان‘ سعودی عرب‘ یو اے ای ترکیے سمیت آٹھ ملکوں نے مشترکہ بیان جاری کیا۔ آٹھ ملک فلسطین  کے معاملے کا 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے تحت حال کیلئے پر عزم ہیں ۔ ہم 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے تحت خود مختار فلسطینی ریاست چاہتے ہیں، ایسی آزاد خود مختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو منصوبے کے تحت فلسطین میں امن فورس تعینات ہو گی، غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی، فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پہلا مرحلہ جنگ بندی کا ہے اس کے بعد ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ اسرائیل اور نیتن یاہو کی ذمہ داری کون لے گا۔ غزہ کی مقامی سکیورٹی فلسطینیوں کے پاس ہو گی۔ غزہ میں جنگ بندی اور امداد کی بحالی ہونے جا رہی ہے۔ ہم کسی ACCORD کا حصہ نہیں بننے جا رہے۔ ہم ٹرمپ اور اس کی ٹیم کے ساتھ مل کر اپنے اس معاہدے کو حاصل کریں گے۔  

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

جنات، سیاست اور ریاست

معروف اور موقر مغربی جریدے ’اکانومسٹ‘ کی حالیہ رپورٹ نے پاکستانی سیاست کے اس پراسرار گوشے کو پھر کھول کر سامنے رکھ دیا ہے جہاں حکمرانی کا تعلق مشاورت، قانون یا ریاستی نظام سے کم اور تعویزوں، کالے بکروں، صدقوں، چِلّوں، کالے جادو، بھوت پریت، جنات اور گھڑے میں پرچیاں ڈال کر فیصلے کرنے جیسے طریقوں سے زیادہ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق عمران خان کے دورِ حکومت میں بڑے فیصلوں کی بنیاد وہ ’روحانی اشارے‘ تھے جو بشریٰ بی بی تک کبھی کسی مراقبے، کبھی کسی چِلّے اور کبھی کسی غیر مرئی قوت کی طرف سے پہنچائے جاتے تھے۔

پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کی تقرری ہو یا اہم تعیناتیاں، بیوروکریسی کی تبدیلیاں ہوں یا سیاسی حکمتِ عملی ہر جگہ یہ تاثر دیا گیا کہ اہم فیصلوں کے پیچھے وہ سرگوشیاں تھیں جن کا تعلق دنیا سے زیادہ کسی اَن دیکھی طاقت سے تھا۔

کبھی کالے جادو سے دشمنوں کو ’بھسم‘ کر دینے کا ذکر، کبھی صدقے کے لیے کالے بکرے کا انتظام، کبھی چِلّوں کی محفل میں سنی گئی ہدایات، اور کبھی گھڑے میں پرچیاں ڈال کر طے کیے گئے نام۔ یوں لگتا تھا جیسے ریاست کے فیصلے دنیاوی عقل سے زیادہ غیر مرئی پیغام رسانی پر چل رہے ہوں۔

لیکن ان تمام حیرت انگیز باتوں کے باوجود اصل سوال وہی ہے: کیا عمران خان اس سب سے لاعلم تھے؟ کیا وہ واقعی اس پورے سلسلے کے محض تماشائی تھے؟ یا اس پورے ماحول کو وہ خود اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے؟

عمران خان کی سیاسی شخصیت ہمیشہ سے ایسی رہی ہے کہ وہ اپنے فائدے کو مقدم رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی ہی حکومت میں تعویز، چِلّوں، مراقبوں اور ’غیبی مشوروں‘ کے بڑھتے ہوئے اثر سے بے خبر رہے ہوں گے۔ وزیراعظم ہاؤس کے اندر کوئی بھی سرگرمی اس وقت تک وزن نہیں رکھتی جب تک حکمران خود اسے اہمیت نہ دے۔

اگر یہ سب کچھ بشریٰ بی بی کے اردگرد ممکن ہو رہا تھا، تو عمران خان کی خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ فائدہ انہی کو پہنچ رہا تھا۔

مثلاً عثمان بزدار کی بطورِ وزیراعلیٰ تقرری بہت عرصے تک ایک سیاسی معمہ رہی۔ اس فیصلے کو جب روحانی مشوروں یا جنات کے اشاروں سے جوڑا گیا تو گویا ایک ایسا جواز مہیا کر دیا گیا جس سے عمران خان کی براہِ راست ذمہ داری کم دکھائی جا سکے۔ لیکن حقیقت برعکس ہے:

کمزور وزیراعلیٰ ہمیشہ طاقتور وزیراعظم کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر بزدار کی تقرری کسی مراقبے میں ملنے والے اشارے یا گھڑے کی پرچی سے ’طے‘ ہوئی، تو بھی آخری فیصلہ عمران خان نے ہی کیا اور وہی اس سے سیاسی طور پر سب سے زیادہ مستفید ہوئے۔

اسی طرح انتظامی تقرریوں اور تبدیلیوں میں اگر تعویز گنڈے، صدقے یا چِلّوں کی روشنی میں فیصلے کیے گئے، تو یہ سب اسی صورت میں اہمیت رکھتے ہیں جب حکمران انہیں روکتا نہ ہو۔ اگر کسی چِلّے میں سنی گئی ہدایت کے مطابق کوئی افسر تبدیل ہوتا تھا، اگر کسی غیر مرئی قوت کے ’اشارے‘ پر کوئی فیصلہ ہوتا تھا، تو عمران خان اس سب سے غافل نہیں ہو سکتے تھے۔ اور اگر غافل تھے تو یہ مزید سنگین ہے، مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ ہر بات سے آگاہ تھے اور اسے اپنے فائدے کے لیے جاری رہنے دیتے تھے۔

یہ بات بھی زیرِ غور رہنی چاہیے کہ اگر ایجنسیاں واقعی بشریٰ بی بی کے ذریعے کپتان کو پیغام پہنچاتی تھیں، تو یہ سلسلہ عمران خان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وزیراعظم کی شریکِ حیات تک حساس نوعیت کی باتیں پہنچ رہی ہوں اور وزیراعظم لاعلم رہیں۔ اگر وہ اسے برداشت کرتے رہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ یہ نظام اُن کے اقتدار کو سہارا دیتا تھا۔ یوں بشریٰ بی بی صرف ایک ذریعہ تھیں، اصل فائدہ عمران خان کو ہی ملتا تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پوری کہانی میں کوئی بھی مکمل طور پر پاک دامن نہیں تھا۔ نہ تعویز کرنے والے اس سب کچھ میں بے قصور تھے، نہ وہ حلقے جو ’روحانی مشورے‘ پہنچاتے تھے، اور نہ وہ حکمران جو ان اشاروں کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا۔ سب اپنے اپنے مقام پر شریکِ جرم تھے۔ جنات، کالے بکرے، بھوت پریت، چِلّے اور گھڑے کی پرچیاں چل رہی تھیں، مگر ان سرگرمیوں کے سیاسی نتائج ہمیشہ عمران خان کے ہاتھ میں آ کر ٹھہرتے تھے۔

بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس پوری ناکامی کا بوجھ کسی ایک کردار پر ڈال دیا جائے، مگر تصویر واضح ہے:

نہ کوئی یکسر معصوم تھا نہ کوئی یکسر ناتجربہ کار۔ یہ ایک مشترکہ بندوبست تھا جس میں ہر کردار اپنا حصہ ڈال رہا تھا۔ غیر مرئی قوتوں کا ذکر محض وہ پردہ تھا جو سیاسی اختیار کو لپیٹنے کے لیے اوڑھا گیا تھا۔

اکانومسٹ کی رپورٹ نے جو نقشہ کھینچا ہے، وہ صرف ایک شخص یا ایک کردار کی کہانی نہیں۔ یہ پوری حکومتی سوچ، پورے سیاسی انداز، اور پورے ریاستی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ اور اس نقشے کے وسط میں فیصلہ ساز وہی تھا جس کے دستخط ہر کاغذ پر موجود تھے: عمران خان۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ابراہم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فلسطین کا دو ریاستی حل یقینی بنانا ہوگا، سعودی ولی عہد
  • ہم فلسطین اور اسرائیل کیلئے امن اور ابراہیم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، محمد بن سلمان
  • سعودی عرب امریکا میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • فلسطین پر مؤقف اٹل، پاکستان کو غزہ بھیجے جانے والی فورس کا حصہ بننا چاہیے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • واٹس ایپ کا خفیہ فیچر جو نمبر محفوظ کیے بغیر پیغام بھیجنے کی سہولت دیتا ہے
  • پاکستان حقیقی اقتصادی روابط کیلئے پرعزم، پائیدار ترقی امن سے جڑی ہے: اسحاق ڈار
  • پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایئر لائنز میں تاریخی معاہدہ، دونوں ممالک میں جدہ، مدینہ اور ریاض کے راستے تجارت ہوگی
  • حکومت پنجاب کی جانب سے ڈیڑھ ارب کے فنڈز کی امید‘ جلد جاری ہو نگے :گورنر 
  • جنات، سیاست اور ریاست
  • اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی ریاست کے قیام کی ایک بار پھر مخالفت کردی