سیاست کیلئے غزہ معاہدے کی مخالفت ہو رہی ہے، امید ہے پاکستان جلد فوج بھیجنے کا فیصلہ کریگا: اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے سیاست کے لیے غزہ معاہدے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہاں معصوم شہریوں کا خون بہتا رہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 8 مسلم ممالک کے سربراہان کی ملاقات کا مقصد غزہ میں امن واپس لانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر سے ملاقات سے قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک میٹنگ شیڈول کی۔ اسحٰق ڈار نے مزید بتایا کہ اسلامی ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوران ملاقات تفصیل کے ساتھ اپنا ایجنڈا پیش کیا، جس پر امریکی صدر نے کہا کہ میری ٹیم اور آپ لوگ بیٹھ کر کوئی قابل عمل پرپوزل لے کر آئیں۔ جس کے بعد ہماری کچھ ایسی میٹنگز بھی ہوئیں، جن کے حوالے سے اتفاق کیا گیا تھا کہ وہ کلاسیفائیڈ اور سیکریٹ ہوں گی، انہیں پبلک نہیں کیا جائے گا، مختلف سوالات پر اسحاق ڈار نے کہا کہ امریکا نے جو 21 نکاتی ڈاکیومنٹس جاری کیے ہیں اسے من و عن تسلیم نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے اس میں ترامیم کیں، ابھی جو ڈاکیومنٹس ہیں وہ امریکا نے جاری کیے ہیں، ہماری ترامیم شامل اگر نہیں ہیں تو شامل ہونی چاہییں۔ انہوں نے بتایا کہ انڈونیشیا نے 20 ہزار فوجی فلسطین بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 ممالک نے واضح کیا ہے کہ ویسٹ بنک پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، فلسطین نے آٹھ ممالک کے امن معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے اور کچھ لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں، یہ لوگ اپنی سیاست کے لیے تنقید کر رہے ہیں خدا کا خوف کریں، کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہاں خون بہتا رہے، بچے اور خواتین مرتے رہیں؟ ان لوگوں کا مقصد صرف سیاست ہے۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات میں فلسطین کے ایجنڈے پر پاکستان سمیت 8 ممالک تیار ہیں۔ اسرائیل کی مغربی کنارے پر قبضے کی کوشش کو روکنا بھی ایجنٹوں میں تھا فلسطین امن معاہدے پر سعودی وزیر خارجہ مسلسل رابطے میں رہے۔ پاکستان‘ سعودی عرب‘ یو اے ای ترکیے سمیت آٹھ ملکوں نے مشترکہ بیان جاری کیا۔ آٹھ ملک فلسطین کے معاملے کا 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے تحت حال کیلئے پر عزم ہیں ۔ ہم 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کے تحت خود مختار فلسطینی ریاست چاہتے ہیں، ایسی آزاد خود مختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو منصوبے کے تحت فلسطین میں امن فورس تعینات ہو گی، غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی، فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی بڑی واضح ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پہلا مرحلہ جنگ بندی کا ہے اس کے بعد ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ اسرائیل اور نیتن یاہو کی ذمہ داری کون لے گا۔ غزہ کی مقامی سکیورٹی فلسطینیوں کے پاس ہو گی۔ غزہ میں جنگ بندی اور امداد کی بحالی ہونے جا رہی ہے۔ ہم کسی ACCORD کا حصہ نہیں بننے جا رہے۔ ہم ٹرمپ اور اس کی ٹیم کے ساتھ مل کر اپنے اس معاہدے کو حاصل کریں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
ٹرمپ امن معاہدے میں اسرائیل کا راستہ نہیں روکا گیا(مولانا فضل الرحمان)
حکومت کی پالیسی سے متفق نہیں،ٹرمپ کی باتوں میں تضاد ہے،معاہدے میں اسرائیل کا ہاتھ کھلا چھوڑا گیا ہے
پاک سعودی دفاعی معاہدے کا دل و جان سے خیر مقدم، دیگر اسلامی ممالک بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں، گفتگو
جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک سعودی دفاعی معاہدے کا ہم دل و جان سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہماری آرزو تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب اسلامی دنیا کی قیادت کریں۔ دونوں ممالک نے خطے اور اسلامی دنیا کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معاہدہ کیا ہے، ہم سعودی حکومت کو اس پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اب اس کی ابتدا ہوگئی ہے، دیگر اسلامی ممالک بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔انہوں نے ٹرمپ امن معاہدہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی پالیسی سے ہم متفق نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی اپنی باتوں میں تضاد ہے، ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، لہذا یہ معاہدہ کسی طور قابلِ قبول نہیں۔جو نکات پہلے پیش کیے گئے اور جو بعد میں سامنے لائے گئے ان میں واضح فرق ہے۔اسلامی دنیا کے جن ممالک نے ٹرمپ سے ملاقات کی، انہوں نے بھی معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس معاہدے میں گریٹر اسرائیل کا راستہ نہیں روکا گیا بلکہ اسرائیل کا ہاتھ کھلا چھوڑا گیا ہے اور فلسطین کو محکوم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح کے معاہدے ناقابلِ عمل ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ جب تک اسرائیل گریٹر اسرائیل کی بات کرے گا، ہم مکمل فلسطین کی بات کریں گے۔سینیٹر مشتاق مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لیے پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں، اللہ انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔