data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان ایسوسی ایشن آف ایسٹرن میڈیسن (پیم) اور فیکلٹی آف ایسٹرن میڈیسن، ہمدرد یونیورسٹی کے اشتراک سے پی سی او ایس آگاہی کے موضوع پر دو روزہ پروگرام منعقد کیا گیا۔پہلے دن کے لیکچر پروگرام میں طبیبہ ڈاکٹر صائمہ غیاث نے مہمان مقررین اور شرکا کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سائرہ جمشید نے بتایا کہ پاکستان میں ہر 10 میں سے 5 خواتین پی سی او ایس کا شکار ہیں، بروقت تشخیص اور اسکریننگ سے اس مرض سے بچاؤ ممکن ہے۔ انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ ہر مہینے اپنی اسکریننگ لازمی کروائیں۔دوسری مقررہ ڈاکٹر لینا حمید نے کہا کہ پی سی او ایس کے بچاؤ اور علاج کے لیے غذائی احتیاط اور صحت مند طرزِ زندگی اپنانا ضروری ہے، جبکہ طب یونانی میں اس مرض کا مؤثر علاج موجود ہے۔ بعد ازاں پینل ڈسکشن میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ پروگرام کے دوسرے روز شفا الملک میموریل اسپتال میں اسکریننگ کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں گرد و نواح کی خواتین کا مفت معائنہ کیا گیا اور مریضوں کو یونانی ادویات فراہم کی گئیں۔

 

اسٹاف رپورٹر گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پی سی او ایس

پڑھیں:

چین کا خصوصی ویزا پروگرام: سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین کیلیے نئے مواقع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیجنگ: چین نے دنیا بھر کے نوجوان سائنسدانوں اور ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے ایک انقلابی فیصلہ کرتے ہوئے K ویزا کے نام سے خصوصی پروگرام متعارف کرادیا ہے، جو یکم اکتوبر 2025 سے باقاعدہ نافذ ہوچکا ہے۔

اس پروگرام کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس (STEM) کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے باصلاحیت افراد کو اپنی جانب راغب کرنا اور چین میں تحقیق، تعلیم اور اختراعی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔

یہ ویزا ان غیر ملکی ماہرین کے لیے رکھا گیا ہے جو کسی معتبر یونیورسٹی یا تحقیقی ادارے سے کم از کم بیچلر ڈگری رکھتے ہوں۔ درخواست دہندگان کی عمر کی حد عموماً 45 سال مقرر کی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان سائنسدان اور محققین اس موقع سے استفادہ کرسکیں۔

اس ویزے کے ذریعے چین میں داخلہ، قیام، تحقیق، تعلیمی تبادلے، کاروباری سرگرمیاں اور اختراعی منصوبوں پر کام کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔

اس پروگرام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لیے کسی چینی کمپنی یا ادارے کی طرف سے دعوت نامے یا ملازمت کی پیشگی ضمانت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اس سہولت سے ان افراد کو براہ راست فائدہ ہوگا جو اپنی تحقیق یا تعلیمی بنیاد پر چین آنا چاہتے ہیں لیکن پہلے اسپانسر تلاش کرنا ان کے لیے مشکل تھا۔ مزید یہ کہ Kویزا پروگرام میں قیام کی مدت اور ویزہ کی مدت کے حوالے سے بھی غیر معمولی لچک رکھی گئی ہے، جو دیگر روایتی ویزا پالیسیوں سے اسے منفرد بناتا ہے۔

فی الحال اس ویزے کے حوالے سے کچھ اہم تفصیلات واضح ہونا باقی ہیں۔ مثلاً کن یونیورسٹیوں کو معتبر قرار دیا جائے گا، کس قسم کے تحقیقی یا عملی تجربے کو قابلِ قبول سمجھا جائے گا اور درخواست دہندگان کو کن دستاویزات کی ضرورت ہوگی۔

اسی طرح یہ سوال بھی ابھی سامنے آیا ہے کہ آیا اس ویزا پروگرام کے تحت چین میں مستقل رہائش یا شہریت کا راستہ فراہم کیا جائے گا یا نہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ ویزا مخصوص مدت کے لیے عارضی بنیادوں پر ہوگا تاکہ ماہرین اپنی مہارت کے ذریعے چین کے تعلیمی اور تحقیقی ڈھانچے کو تقویت دے سکیں۔

عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ قدم چین کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے دنیا کے بہترین دماغوں کو اپنی سرزمین پر متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف چین کی جامعات اور تحقیقی ادارے مستفید ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون کے نئے راستے کھلیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سجاول،سنی رابطہ کونسل کے تحت اسرائیل مردہ باد ریلی کا انعقاد
  • چین کا خصوصی ویزا پروگرام: سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین کیلیے نئے مواقع
  • ’جوانی اب نہیں جانی‘، اماراتی خاتون نے سدا جوان رہنے کا راز بتا دیا
  • امریکا: پاکستانی نوجوان کو ڈاکٹر آف پولیٹیکل لیڈرشپ کی ڈگری تفویض
  • بی آر ٹی منصوبے میں تاخیر، عدالت کو آگاہی کیلیے مہلت طلب
  • تہران یونیورسٹی میں دھماکہ، ایک ہلاک 4 زخمی
  • کوئٹہ، جماعت اسلامی خواتین رہنماؤں کی ڈائریکٹر خانہ فرہنگ ایران سے ملاقات
  • کوئٹہ : جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر حمیرا طارق وفد کے ہمراہ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران میں رہنماؤں سے ملاقات کررہی ہیں اس موقع پر ڈپٹی سیکرٹری و ڈائریکٹر میڈیا سیل حلقہ خواتین ثمینہ سعید، ناظمہ صوبہ شازیہ عبداللہ اور جے آئی یوتھ
  • چھاتی کا سرطان: آگاہی، احتیاط اور بچاؤ کی ضرورت