امن منصوبے کے نام پر اسرائیلی سازش
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امن کے نوبل انعام کے لیے پاکستان کے نامزد کردہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں امن کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کردیا ہے، اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ نیتن یاہو نے قطر سے معافی مانگ لی ہے، اور بڑی رحمدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حماس کے رہنمائوں کو محفوظ راستے کی پیشکش کی گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ جنگ بندی کے حوالے سے منگل کے دن کو تاریخی قرار دیا۔ ویسے امریکا میں تو پاگل منگل تباہی پھیلا چکا ہے، ٹرمپ اسے تاریخی دن قرار دے رہے ہیں لیکن 1944 کا پاگل منگل نیدر لینڈ میں ایک افواہ اور غلط اطلاع سے منسوب ہے، تو کہیں یہ تاریخی منگل بھی جھوٹی اطلاع ثابت نہ ہو۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ میں قیام امن کے لیے میرے 20 نکاتی امن منصوبے پر رضامندی ظاہر کردی، اگر حماس بھی اس 20 نکاتی منصوبے کو قبول کرلیتی ہے تو تمام اسرائیلی یرغمالی رہا ہوجائیں گے۔ میں نے سنا ہے کہ حماس ایسا کرنے کو تیار ہے لیکن انہیں ایسا کرنے میں 72 گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں لگنا چاہیے۔ یہ تاریخ کا انوکھا امن منصوبہ ہے جس میں فریق ثانی کسی مذاکراتی عمل میں شریک نہیں تھا ان کی شرائط کا کوئی ذکر بھی نہیں کیا گیا، اس یکطرفہ منصوبے کا اعلان کرکے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے یہ تجویز نہ مانی تو اسرائیل کے پاس ملٹری طاقت استعمال کرنے کا پورا حق ہوگا اور امریکا اس کی مدد کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل فوجی طاقت تو تقریباً ساٹھ سال سے استعمال کررہا ہے، اور پہلے بھی اور اب بھی پورا یورپ اس کی حمایت ہی کررہا ہے، حماس کی کسی شرط اور مطالبے کا ذکر کیے بغیر امریکی صدر نے اس امید کا اظہار کیا کہ اگر تمام اسرائیلی یرغمالی رہا ہوگئے تو غزہ جنگ خود بخود اور فوراً ہی ختم ہوجائے گی‘ حالانکہ جنگ خود بخود اور فوری ختم کرنے کے لیے اسرائیل کا وجود ختم کرنا ہوگا، یہ ختم ہوجائے تو جنگ خود بخود اور فوری ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ عرب اور مسلم ممالک غزہ کو غیر عسکری زون بنانے پر متفق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں نے بھی امن معاہدے کی سو فی صد حمایت کی ہے۔ یہاں بھی حماس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور غزہ کے مستقبل کے خدوخال بھی بیان کرنا شروع کردیے اور کہا کہ غزہ کا ایک نیا عبوری انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے گا اور تمام فریق اسرائیلی افواج کے مرحلہ وار انخلا کے لیے ایک متفقہ ٹائم لائن طے کریں گے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیلی یرغمالی تو 72 گھنٹے میں رہا کرنے کا مطالبہ ہے اور اسرائیلی فوجی انخلا کو مرحلہ وار رکھا گیا ہے۔ ٹرمپ نیتن یاہو منصوبے کے مطابق غزہ کی بحالی اور نگرانی کے لیے نیا بین الاقوامی ادارہ ’’بورڈ آف پیس‘‘ بنایا جائے گا جس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت دیگر شخصیات شامل ہوں گی۔ یعنی اس فتنے کا اولین سرپرست برطانیہ بھی اس نئے منصوبے کا حصہ ہوگا۔ وائٹ ہائوس کے مطابق یہ ادارہ غزہ کی تعمیر ِ نو کے لیے فریم ورک تیار کرے گا اور فنڈنگ کا انتظام سنبھالے گا، یعنی سارا کام فلسطینیوں کے بغیر دوسرے ممالک کریں گے۔ فلسطینیوں کے لیے شرط رکھی گئی ہے کہ ’’جب تک فلسطینی اتھارٹی اصلاحاتی پروگرام مکمل نہیں کر لیتی‘‘۔ نیا حکومتی ڈھانچہ فلسطینیوں اور عالمی ماہرین پر مشتمل ہوگا۔
اس سارے تنازع کے پیچھے جو کچھ ہے جس کا کافی دنوں سے چرچا تھا امریکی صدر نے اس کا بھی ذکر کردیا انہوں نے ابراہیمی معاہدے کو خطے میں امن کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں ایران بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے۔ اتنی تفصیل کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فلسطین کی علٰیحدہ اور خودمختار ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ گویا امریکا بھی ایک قدم پیچھے ہٹا ہے، جو دو ریاستی حل کی بات کرتا تھا اب وہ بھی خود مختار ریاست کو تسلیم نہیں کرے گا۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ: یہ معاہدہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ غزہ اسرائیل کے لیے کبھی خطرہ نہیں بنے گا۔ حالانکہ اسرائیل یا صہیونیوں کو فلسطینیوں کے لیے کبھی خطرہ نہ بننے کو یقینی بنانا زیادہ ضروری اور زیادہ صحیح ہے۔ نیتن یاہو کا انداز اب بھی جابرانہ اور فرعونیت پر مبنی ہے اس کا کہنا تھا کہ منصوبہ جنگ کے خاتمے سے متعلق اسرائیل کے اصولوں سے مطابقت رکھتاہے، حماس نے منصوبہ رد کیا تو اسرائیل اپنا کام مکمل کرے گا۔ اگر حماس باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا کر دے اور غزہ چھوڑنے کے لیے تیار ہو تو انہیں معافی دے دی جائے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے قطری دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی فضائی حملے پر قطر سے معافی بھی مانگ لی۔ اور یہ اطلاع بھی اسرائیلی میڈیا نے دی ہے۔ اسی طرح فلسطینیوں کے لیے مراعات کی اطلاع بھی ٹائمز آف اسرائیل نے دی اخبار نے منصوبے کے چیدہ نکات کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ بدلے میں اسرائیل عمر قید کی سزا پانے والے کئی سو فلسطینی سیکورٹی قیدیوں اور غزہ جنگ کے بعد گرفتار کیے گئے ایک ہزار افراد کو رہا کرے گا، نیز کئی سو فلسطینیوں کی لاشیں بھی واپس کرے گا۔ منصوبے کے مطابق حماس کے جو رہنما ’پرامن بقائے باہمی‘ کا عہد کریں گے، انہیں معافی دی جائے گی جبکہ جو اراکین غزہ چھوڑنا چاہیں انہیں وصول کرنے والے ممالک تک محفوظ راستہ دیا جائے گا۔
ابھی تک حماس کی جانب سے کوئی باقاعدہ جواب نہیں آیا ہے البتہ حماس کے سینئر عہدیدار نے العربیہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’ابھی تک ہمیں امریکی منصوبے کی کاپی نہیں ملی ہے۔ ہمارے مزاحمتی ہتھیار فلسطینی ریاست کے قیام سے منسلک ہیں، اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، جنگ کے خاتمے اور غزہ سے اسرائیلی انخلا سے منسلک ہے۔ ہم یرغمالیوں کی رہائی میں سنجیدہ ہیں ایک معاہدے کے تحت، جو غزہ میں جنگ کا خاتمہ کرے گا اور غزہ سے اسرائیلی انخلا کو یقینی بنائے گا‘‘۔ اسلامی جہاد موومنٹ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ٹرمپ نیتن یاہو کانفرنس میں جو اعلان کیا گیا وہ امریکی اسرائیل معاہدہ ہے اور اسرائیل کے موقف کا بھرپور اظہار ہے۔ ٹرمپ نیتن یاہو کانفرنس میں جو اعلان کیا گیا وہ فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کو جاری رکھنے کا نسخہ ہے۔ امریکی اسرائیلی اعلان خطے کو بارود سے اُڑا دینے کا نسخہ ہے۔ اسرائیل امریکا کے ذریعے وہ کچھ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اسرائیل جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کر سکا۔ علاوہ ازیں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن حسام بدران نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کو غزہ سے واپس جانا ہوگا، فلسطینی مزاحمت ہر اس خیال اور تجویز کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس کا مقصد غزہ میں قتل عام روکنا اور غزہ میں جاری نسل کشی کا خاتمہ ہو تاہم یہ سب کچھ ہمارے اصولی موقف اور قومی مطالبات پر سمجھوتے کے بغیر ہوگا۔ بدران نے کہا کہ حماس کو اب تک قطر اور مصر کے ثالثوں کے ذریعے کوئی باضابطہ تجویز موصول نہیں ہوئی جس میں فائر بندی یا غزہ میں جنگ کے اختتام کی بات کی گئی ہو۔ حماس کے کوئی ذاتی مطالبات نہیں، نہ قیادت کے لیے نہ کسی اور چیز کے لیے، ہم صرف اپنے عوام کی خاطر مذاکرات کر رہے ہیں، خاص طور پر غزہ کے ان شہریوں کے لیے جو روزانہ میڈیا کے سامنے اجتماعی قتل عام اور مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ کسی بیرونی طاقت کو یہ حق نہیں کہ وہ فلسطینی عوام پر اپنی مرضی تھوپے کہ وہ کس طرح اپنی قیادت منتخب کریں یا اپنے امور کو چلائیں۔
حماس کا ابتدائی ردعمل ہی صورتحال واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ منصوبہ مسلط کرنے کی کوشش کا اثر مزید جنگ کی صورت میں نکلے گا، اور حمایت کرنے والے ممالک میں اپنی ہی حکومتوں کے خلاف شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ امن منصوبے پر بات بھی ہورہی ہے غزہ پر بمباری بھی جاری ہے، ایسے لوگوں سے کسی معاہدے کی پاسداری کی توقع بھی رکھنا احمقانہ عمل ہوگا۔
اب اس معاہدے کے جن حامیوں کا ذکر صدر ٹرمپ نے کیا ہے ان کے پاس اس کی وضاحت کے لیے کچھ نہیں ہے، اس کی ایک جھلک وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی پریس کانفرنس ہے کہ ہم نے اللہ کی رضا کے لیے معاہدے کی حمایت کی ہے، ہم قرآن و حدیث کے مطابق امن چاہتے ہیں اس پر استغفار پڑھ کر ان کی ہدایت ہی کی دعا کی جاسکتی ہے، استغفراللہ، جس چیز کی یہ حمایت کررہے ہیں یہ پورا یکطرفہ منصوبہ ہے اور وہی کچھ بیان کیا گیا ہے جو اسرائیل کررہا ہے اور چاہتا ہے، لگتا ہے کہ ابھی غزہ اور اسرائیل میں آگ مزید بھڑکے گی۔
یہ جو منصوبہ ہے اسے امن منصوبہ کس طرح کہا جاسکتا ہے، جبکہ غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے بھی جاری ہیں، اسرائیلی فوج نے نصیرت پناہ گزین کیمپ سمیت مختلف رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا، تازہ حملوں میں مزید 50 فلسطینی شہید اور 184 زخمی ہوگئے۔ خان یونس میں ڈھائی ماہ کا بچہ بھوک اور علاج نہ ملنے کے باعث دم توڑ گیا۔ رفاہ کے قریب 4 امدادی کارکن اسرائیلی فوج کا نشانہ بنے، شمالی غزہ سے 5 روز میں مزید 57 ہزار مظلوم فلسطینی نقل مکانی کر گئے۔ فلسطینی حکام نے بتایا کہ اسرائیلی افواج غزہ میں رہائشی مکانات اور عمارتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں اسرائیلی حملوں کے باعث66 ہزار افراد شہید اور ایک لاکھ 68 ہزار 162 زخمی ہوچکے ہیں۔ اسرائیل نے ’’صمود فلوٹیلا‘‘ کی متوقع آمد کے پیش ِ نظر فوجی تیاریوں میں تیزی کر دی ہے۔ یہ عالمی بحری بیڑہ جس میں 40 ممالک کے 500 سے زاید کارکن شامل ہیں، جلد غزہ کے ساحلوں تک پہنچنے والا ہے۔ اسرائیلی کمانڈوز نے سمندری کارروائیوں کی مشقیں مکمل کر لی ہیں جبکہ وزارت صحت نے ملک کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ بیڑے میں شامل تقریباً 50 کشتیوں کا مقصد 18 سال سے جاری غزہ کے محاصرے کو توڑنا اور وہاں خوراک و ادویات پہنچانا ہے۔ اسرائیلی کنیسٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے بل کی منظوری دیدی ہے جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جا سکے گی، اس بل کو دہشت گردوں کے لیے سزائے موت کا قانون قرار دیا جا رہا ہے۔ شام کے امور کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی ٹام بیرک نے حزب اللہ کو لبنان کی جائز سیاسی جماعت تسلیم کرلیا۔ اس دوغلے پن کے ساتھ کسی بھی اعلان پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کے اسرائیلی فوج نیتن یاہو کا نیتن یاہو نے اور اسرائیل کہ اسرائیل اسرائیل کے امریکی صدر منصوبے کے کے مطابق اور غزہ حماس کے جائے گی کیا گیا ہے اور بھی اس کہا کہ کے لیے جنگ کے گا اور کرے گا رہا ہے نے کہا غزہ کے
پڑھیں:
ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے جائزے کے لیے مزید وقت درکار، اعلیٰ حماس عہدیدار
ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کے جائزے کے لیے ابھی مزید وقت درکار، اعلیٰ حماس عہدیدار ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے جائزے کے لیے مزید وقت درکار، اعلیٰ حماس عہدیدارغزہ پٹی سے جمعہ تین اکتوبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی موجودگی میں غزہ پٹی سے متعلق جو نیا امن منصوبہ پیش کیا تھا، اس کے تفصیلی جائزے کے لیے حماس کو ابھی مزید وقت درکار ہے۔
غزہ سٹی کے تمام فلسطینی وہاں سے نکل جائیں، اسرائیلی وزیر دفاع
اس عہدیدار نے کہا، ’’ٹرمپ کے نئے منصوبے سے متعلق حماس کی مشاورت جاری ہے، اور غزہ پٹی کے تنازعے کے ثالثوں کو اطلاع کر دی گئی ہے کہ تاحال جاری مشاورت کی تکمیل کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
ٹرمپ کی طرف سے حماس کو دی گئی ’تین چار دن‘ کی مہلتصدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی موجودگی میں اس امن منصوبے کو قبول کرنے کے لیے حماس کو ’’تین چار دن‘‘ کی مہلت دی تھی، تاکہ اس پر عمل کرتے ہوئے غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے مابین اس خونریز جنگ کو ختم کیا جا سکے، جس کے سات اکتوبر کو ٹھیک دو سال پورے ہو جائیں گے۔
اسرائیل کا غزہ فلوٹیلا کے گرفتار کارکنان کو ملک بدر کرنے کا اعلان
اس امن منصوبے میں غزہ پٹی میں ایسی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر اندر تمام اسرائیلی یرغمالی رہا کیے جانا چاہییں۔
اس کے علاوہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس، جس کے اسرائیل میں سات اکتوبر 2023ء کے دہشت گردانہ حملے اور اس کے فوری بعد اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے ساتھ غزہ کی جنگ شروع ہوئی تھی، کو خود کو غیر مسلح کرنا ہو گا۔
اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ پٹی کا شمالی غزہ سے آخری رابطہ بھی منقطع کر دیا
اس امن منصوبے کا عرب دنیا، زیادہ تر مسلم ممالک اور یورپی یونین سمیت بین الاقوامی برادری نے خیر مقدم کیا ہے۔
تاہم اس بارے میں حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن محمد نزال نے آج جمعے کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ’’اس منصوبے میں ایسے نکات بھی شامل ہیں، جن پر تشویش پائی جاتی ہے۔ ہم اس حوالے سے جلد ہی اپنے موقف کا اعلان کر دیں گے۔‘‘