اسرائیل کی اندھی حمایت امریکہ کو عنقریب پشیمان کر دیگی، امریکی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
معروف امریکی جریدے نے لکھا ہے کہ اسرائیلی رژیم کیلئے امریکہ کی اندھی حمایت مغربی ایشیا میں واشنگٹن کے اثر و رسوخ کو غیر معمولی حد تک کم کر دیگی اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی جریدے فارن افیئرز نے گیلپ ڈالے اور صنم وکیل کے قلم سے تحریر شدہ؛ "مشرق وسطی جو اسرائیل نے بنایا ہے؛ کیوں واشنگٹن اسرائیلی جارحیت کی قیمت چکانے پر پچھتائے گا" کے عنوان سے چھپنے والے اپنے مقالے میں خطے بھر میں امریکی موقف و اثر و رسوخ پر تل ابیب کی پالیسیوں کے برے نتائج کا جائزہ لیا ہے۔ فارن افیئرز نے امریکی سیاستدانوں کو خبردار کیا کہ اسرائیلی اقدامات نے مشرق وسطی کو غیر متوقع طور پر بدل کر رکھ دیا ہے؛ غزہ میں اسرائیلی جنگ، اس کی توسیع پسندانہ فوجی پالیسیاں اور اس کے نظر ثانی پر مبنی موقف نے اس خطے کو یوں بدل کر رکھ دیا ہے کہ جس کی توقع کسی کو نہ تھی!
امریکی تھنک ٹینک چیٹھم ہاؤس میں سینیئر کنسلٹنک فیلو اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹ اینتھونی کالج میں نظریاتی محقق گیلپ ڈالے نے اس مقالے میں تاکید کی ہے کہ طاقت کو مستحکم کرنے کے بجائے، اسرائیل نے اپنے سابقہ شراکتداروں کو بھی "ہوشیار دشمن" میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ کہ اب "اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے پیچھے کی منطق" بھی بے نقاب ہو رہی ہے۔ اس مقالے کے لکھاریوں نے وضاحت کی کہ اسرائیل نے غیر مشروط و اندھی امریکی حمایت کے ساتھ، فلسطین، لبنان، یمن، شام، اور ایران سمیت 7 ممالک پر حملے کئے، خاص طور پر دوحہ، قطر میں حماس کے رہنماؤں پر فضائی حملہ کیا کہ جس نے اس ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی اور شدید غم و غصے کو جنم دیا۔
چیٹھم ہاؤس میں مشرق وسطی و شمالی افریقہ پروگرام کی ڈائریکٹر اور پیشرفتہ بین الاقوامی مطالعات (SAIS) کی پروفیسر صنم وکیل نے لکھا کہ اسرائیل کے "پیشگی دفاع کے نظریئے" کہ جو خودمختاری کی کھلی خلاف ورزیوں پر مشتمل ہے، نے نہ صرف عرب ممالک کو بھی غیر محفوظ کر دیا ہے بلکہ "اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات" کو بھی ایک "کٹھن ذمہ داری" بنا کر رکھ دیا ہے۔ امریکی مصنفین نے لکھا کہ ان اقدامات نے نہ صرف اسرائیل کو تنہا کیا ہے بلکہ امریکی اثر و رسوخ پر بھی بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے… کیونکہ اسرائیل کے لئے امریکہ کی مسلسل حمایت خطے میں واشنگٹن کی پوزیشن کو کمزور بناتی ہے جیسا کہ خلیج (فارس) کے حکمرانوں نے نہ صرف اسرائیل کو غیر متوقع و جارحانہ، بلکہ سلامتی سے متعلق امریکی ضمانتوں کو بھی ناقابل اعتبار پایا ہے!
اس تجزیئے کے مطابق مصر کے ساتھ اسرائیل کے باہمی تعلقات؛ کہ جنہوں نے، 1979 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے لے کر اب تک، 4 دہائیوں سے زیادہ کے عرصے تک، امن و امان برقرار رکھا ہے، اب تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جیسا کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ستمبر 2025 میں اسرائیل کو ایک "دشمن" قرار دیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون میں بھی کمی آئی ہے۔ امریکی لکھاریوں نے لکھا کہ مصر نے اسرائیل کو واضح پیغام دینے کے لئے ترکی کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں بھی کیں کیونکہ جنگ غزہ نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا ہے.
امریکی جریدے نے لکھا کہ خلیج فارس میں 2020 کے ابراہیمی معاہدے، کہ جس نے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کو بھی اسرائیل کے قریب پہنچایا، نیز اب ایک "اندرونی" اور "اسٹریٹجک" خطرہ بن چکا ہے۔ امریکی مصنفین کے مطابق سعودی عرب کہ جو تل ابیب کے ساتھ باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے شدید امریکی دباؤ میں گھرا ہوا تھا، اب "اسرائیل کا اسٹریٹجک پارٹنر" بننے کے بارے "سخت تذبذب" کا شکار ہو چکا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل دوستی کی بھاری قیمت چکائی ہے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے عرب ممالک میں عوامی حمایت انتہائی کم ہے جیسا کہ مغرب (مراکش) میں، ایسے معاہدوں کی حمایت؛ 2022 میں 31 فیصد تھی جو 2023 میں مزید کم ہو کر 13 فیصد رہ گئی۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ترکی بھی اسرائیل کو ایک "سنگین خطرے" کے طور پر دیکھتا ہے، فارن افیئرز کے تجزیہ کاروں نے لکھا کہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تجارت معطل کر رکھی ہے اور اسرائیلی پروازوں کے لئے اپنی فضائی حدود بھی بند کر دی ہیں، خاص طور پر شام میں اسرائیل کے اقدامات کہ جنہوں نے اس کی سرحدوں اور پناہ گزینوں کے بہاؤ کو متاثر کیا ہے، کے بعد۔
اپنی تحریر کے آخر میں امریکی مصنفین نے خبردار کیا کہ کلیدی مسئلہ "فلسطین کا منصفانہ حل" ہے، اور یہ کہ امریکہ فلسطینیوں کے مصائب اور اسرائیل کی توسیع پسندی کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتا۔ گیلپ ڈالے اور صنم وکیل نے اس بات پر بھی خبردار کیا کہ "اسرائیل کو لگام نہ ڈالنے سے" واشنگٹن، مغربی ایشیا میں اپنے موجود اپنے وسیع اسٹریٹجک انفراسٹرکچر کو تیزی کے ساتھ تباہ کر رہا ہے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کے ساتھ کر رکھ دیا ہے کہ اسرائیل اسرائیل کو نے لکھا کہ کے لئے کیا کہ کو بھی
پڑھیں:
اسرائیل کا 60 لاکھ ڈالر کا خفیہ معاہدہ، مصنوعی ذہانت کے ذریعے بیانیہ بدلنے کی عالمی مہم بے نقاب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی تحقیقی ویب سائٹ *ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے امریکی کمپنی کلاک ٹاور کے ساتھ 60 لاکھ ڈالر (6 ملین) کا معاہدہ کیا ہے، جس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے ماڈلز، بشمول ChatGPT، پر اثرانداز ہونا اور اسرائیل کے حق میں تیار کردہ بیانیے کو عالمی سطح پر فروغ دینا ہے۔
کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ کے مطابق اس معاہدے کے تحت تیار کیے جانے والے مواد کا کم از کم 80 فیصد حصہ ٹک ٹاک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور پوڈکاسٹس سمیت ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر نوجوان نسل، خصوصاً جنریشن زیڈ، کو ہدف بنائے گا۔ منصوبے کا مقصد ہر ماہ کم از کم 5 کروڑ (50 ملین) تاثرات پیدا کرنا ہے۔
رپورٹ کے مطابقکلاک ٹاور سرچ انجن آپٹیمائزیشن (SEO) پر مبنی ایک مصنوعی ذہانت پلیٹ فارم استعمال کرے گی، تاکہ گوگل اور بنگ جیسے سرچ انجنوں میں اسرائیل کے حق میں بیانیے کو نمایاں کیا جا سکے اور ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نواز مواد کو سیلم گروپ کے پروگراموں میں بھی شامل کیا جائے گا۔ یہ وہ عیسائی میڈیا نیٹ ورک ہے جو ہیو ہیوٹ، لیری ایلڈر اور دی رائٹ ویو جیسے پروگرامز تیار کرتا ہے۔ “دی رائٹ ویو” کی میزبانی لارا ٹرمپ کرتی ہیں، جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے کی اہلیہ ہیں۔
اس پورے منصوبے میں نمایاں نام بریڈ پارسکل کا ہے، جو کلاک ٹاور کی قیادت کر رہے ہیں اور سیلم گروپ میں چیف اسٹریٹجسٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پارسکل 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کے مینیجر رہ چکے ہیں اور ان کا نام متنازعہ *کیمبرج اینالیٹیکا* اسکینڈل سے بھی جوڑا جاتا ہے، جس پر ووٹروں پر اثرانداز ہونے کے الزامات لگے تھے۔
ماہرین کے مطابق یہ مہم ایسے وقت میں شروع کی گئی ہے جب امریکی عوام میں اسرائیل کے لیے حمایت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں کرائے گئے گیلپ سروے کے مطابق 18 سے 34 سال کے صرف 9 فیصد امریکی نوجوان غزہ پر اسرائیلی جنگ کے حامی ہیں۔ دیگر عوامی جائزوں میں بھی اسرائیل کے بارے میں مثبت رائے میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
دریں اثنا، گذشتہ جمعہ کو اسرائیل نواز اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات سے ملاقات میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا اب اسرائیل کا “سب سے اہم ہتھیار” بن چکا ہے۔ نیتن یاہو، جو غزہ میں جنگی جرائم کے الزامات پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب ہیں، نے کہا کہ جنگی ہتھیار وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ آج آپ تلواروں سے نہیں لڑ سکتے، اب سب سے مؤثر ہتھیار سوشل میڈیا ہے۔