data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کے لیے روانہ کیے گئے ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ پر اسرائیلی قبضے کے بعد ایک اور امدادی فلوٹیلا غزہ کی جانب روانہ کر دیا گیا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق فریڈم فلوٹیلا کولیشن (ایف ایف سی) کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے کے لیے نیا امدادی بیڑا غزہ کی جانب روانہ ہو گیا ہے، 11 جہازوں پر مشتمل یہ قافلہ اسرائیلی محاصرے کو چیلنج کرتے ہوئے غزہ کا رخ کر رہا ہے۔

فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے بیان میں کہا گیا کہ 25 ستمبر کو اٹلی کے شہر اوترانتو سے دو کشتیاں روانہ ہوئیں، جب کہ 30 ستمبر کو ’کونشینس‘ نامی جہاز ان کے ساتھ شامل ہوا، جس پر صحافی اور طبی عملہ بھی سوار ہے۔

نظیم کے مطابق چند گھنٹوں میں یہ جہاز آٹھ کشتیوں پر مشتمل قافلے ’’تھاؤزنڈ میڈلینز ٹو غزہ‘‘ سے مل جائیں گے، یوں مجموعی طور پر 11 کشتیوں پر مشتمل یہ فلوٹیلا غزہ کا رخ کرے گا،  یہ قافلہ اس وقت یونان کے ساحل کریٹ کے قریب موجود ہے اور اس پر تقریباً 100 افراد سوار ہیں۔

یہ پیش رفت ایسے موقع پر ہوئی ہے جب اسرائیلی بحریہ نے حال ہی میں غزہ جانے والی 40 سے زائد کشتیوں پر مشتمل ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ کی آخری کشتی پر بھی حملہ کرکے قبضے میں لے لیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے اس فلوٹیلا پر موجود سابق سینیٹر مشتاق احمد، سوئیڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور نیلسن مینڈیلا کے پوتے نکوسی زویلیولیلی سمیت 450 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا۔

یاد رہے کہ اسرائیل نے گزشتہ 18 برس سے غزہ پر سخت ناکہ بندی مسلط کر رکھی ہے۔ مارچ میں سرحدی راستے مکمل بند کرکے خوراک اور ادویات کی ترسیل بھی روک دی گئی تھی۔ اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں اب تک 66 ہزار 200 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

ویب ڈیسک دانیال عدنان

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

گلوبل صمود فلوٹیلا کی حفاظت امت مسلمہ کا امتحان

روئے زمین پر بسنے والا ہر حساس انسان فلسطین بالخصوص غزہ کے مجبور، بے بس، لاچار، بھوکے پیاسے اوربیمار باسیوں کی حالت زار پر شدید مضطرب، اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم اور پوری دنیا کے بے حس حکمرانوں کے رویوں پر غمگین اور افسردہ ہے۔ مگر اسرائیلی بربریت اور دنیا کی بے حسی شیردل مظلومین غزہ کے حوصلے اور ہمت کو نہیں توڑ سکی۔

اگر درندہ صفت صیہونیوں نے ظلم و بربریت اور اقوام عالم نے بے حسی کی انتہا کردی تو اہل غزہ نے استقامت و بہادری کی ایسی تاریخ رقم کردی ہے جس کی نظیر انسانی تاریخ دینے سے قاصر ہے۔ کئی دہائیوں پر محیط اسرائیلی محاصرے میں گزشتہ دو سال سے وحشیانہ شدت آئی ہے۔ غزہ اس وقت ایک سفاکانہ جیل کا منظر پیش کر رہا ہے کوئی باہر آسکتا ہے اور نہ اندر جا سکتا ہے۔ اس وحشیانہ محاصرے کی وجہ سے بھوک مظلومین غزہ کے خلاف اسرائیل کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔

بھوک موت بن کر ناچ رہی ہے، غذائی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی کے شکار مظلومین غزہ خصوصاً بچے ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکے ہیں۔ ادویات ناپید یہاں تک کہ زخمیوں کے آپریشنز کے لیے اسپتالوں میں اینستھیزیا تک دستیاب نہیں، امت محمدی کے پھول جیسے خوبصورت معصوم بچوں کی ٹانگیں اور ہاتھ بغیر اینستھیزیا کے کاٹی جارہی ہیں، قیامت سے پہلے قیامت کا یہ سماں ڈرپوک، بزدل اور اقتدار کے پجاری مسلم حکمرانوں کے منہ پر خون آلود تھپڑ سے کم نہیں۔ امریکی اور اسرائیلی خوف سے عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ، بین الاقوامی برادری اور اسلامی ممالک کے ڈرپوک  سہمے حکمران مظلومین غزہ کی داد رسی تو دور کی بات خوراک، ادویات پہنچانے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔

بڑے بڑے اسلامی ممالک کے درمیان ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل جو دو ارب مسلمانوں کے تھوک میں ڈوب سکتا ہے مگر وہ جس اسلامی ملک پر چاہے حملہ کرتا ہے مگر افسوس کہ خوفزدہ مسلمان حکمرانوں میں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں مگر جو ممالک اپنے اوپر حملوں پر نہیں اٹھتے ان سے یہ امید لگانا کہ وہ غزہ کے مظلوموں کی ڈھال بنیں گے یا ان تک امداد پہنچائیں گے، خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔

جس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے لیے دنیا بھر کی مملکتوں کے سربراہان کے جہاز امریکا کے شہر نیویارک میں اتر رہے تھے عین اس وقت 40 سے زائد ممالک کے درد رکھنے والے انسانیت دوست بہادر انسانوں پر مشتمل گلوبل صمود فلوٹیلا 50 سے زیادہ سویلین بحری جہازوں اور کشتیوں کے ساتھ سمندر کے کھلے پانیوں میں بپھری ہوئی موجوں کو چیرتا ہوا غزہ کے وحشیانہ صیہونی محاصرے کو توڑنے کے لیے رواں دواں ہے۔

قافلہ استقامت میں صرف مسلمان نہیں 40 سے زائد ممالک کے ہر رنگ ونسل اور مذہب کے وہ لوگ شامل ہیں جو مظلومین غزہ پر اسرائیلی بربریت کے خلاف ہیں، حتیٰ کہ امریکا سے تعلق رکھنے والے وہ یہودی بھی اس قافلہ استقامت کا حصہ ہیں جو غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف ہیں۔ یہ قافلہ تاریخ انسانی میں انسانیت کی خاطر نکلنے والا سب سے بڑا قافلہ صبر و استقامت اور انسان دوستی کا استعارہ بن چکا ہے، جو بین الاقوامی دہشتگردوں کے محاصرے کو توڑنے، بھوکے پیاسے اور لاغر و بیمار مظلومین غزہ تک پہنچنے کے لیے بحیرہ روم کو چیرتا ہوا جرات اور بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، فلسطین ایکشن کولیشن پاکستان کا 5 رکنی وفد سابق سینیٹر مشتاق خان کی قیادت میں، اور آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات مولانا پیر سید مظہر سعید کشمیری اپنی ذاتی حیثیت میں پاکستان کی نمایندگی کر رہے ہیں، ان سرفروشوں پر پوری قوم کو فخرہے۔

مشتاق احمد خان کے کہنے کے مطابق "قافلہ استقامت میں کسی بھی ملک کی کوئی حکومتی شخصیت ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا نمایندہ، مجھ سمیت یہ سب ذاتی حیثیتوں میں گلوبل صمود فلوٹیلا کا حصہ ہیں۔ قافلہ استقامت میں ترکی، فرانس اور آئرلینڈ کے پارلیمیٹیرین تو موجود ہیں مگر افسوس کہ پاکستان سمیت کسی دوسرے اسلامی ملک کا کوئی پارلیمنٹیرین نہیں ہے"۔ فلسطین ایکشن کولیشن پاکستان میں پاک فلسطین فورم، بلاک آؤٹ موومنٹ، شعب ابی طالب فاؤنڈیشن، تحریک آزادی فلسطین، ٹوگیدر فارالقدس، مینڈ یورہارٹس، پاکستان فار فلسطین اور یوتھ لنک شامل ہیں۔ اس اتحاد کا نصب العین اور مقصد پاکستان میں مظلومین غزہ و فلسطین کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔

اس قافلے کا آغاز بحیرہ روم کے گیٹ وے آبنائے جبرالٹر سے ہوا، اسلامی فوج کے سپہ سالار طارق بن زیاد اپنی فوج کے ساتھ اسی راستے سے بحیرہ روم میں داخل ہوئے تھے اور ہسپانیہ (موجودہ اسپین) کو فتح کیا تھا۔ اس لیے اس بحری ساحل پر موجود پہاڑی کو جبل الطارق کہا جاتا ہے، اس مقام پر پہنچ کر طارق بن زیاد نے فتح یا شہادت کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں،کشتیاں جلانے کے بعد وہ اور ان کے ساتھی ڈٹ کر دشمن کے خلاف لڑ ے اور اللہ کریم نے انھیں فتح عطاء کی۔ اسرائیلی محاصرہ توڑنے کے لیے قافلہ استقامت میں چالیس سے زائد ممالک کے خوش نصیب انسان دوست بندے اسی اسپین میں جمع ہوئے اور غزہ کی جانب روانہ ہوئے انشاء اللہ طارق بن زیاد کی طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر لوٹیں گے۔

قافلہ استقامت لڑنے یا جنگ کرنے نہیں، بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق مظلومین غزہ تک امداد پہنچانے جارہا ہے۔ دنیا کا کوئی قانون انھیں اس کار خیر اور انسانیت دوستی سے نہیں روک سکتا مگر بین الاقوامی دہشتگرد اسرائیل اب تک اس قافلے پر 7 ڈورن حملے کر چکا ہے گذشتہ ہفتے صمود فلوٹیلا کے سب سے بڑے جہاز کو تیونس کے ساحل پر ڈرون حملے کا نشانہ بنایا تو جہاز میں آگ بھڑک اٹھی مگر شکر الحمدللہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ موسمیاتی رکاوٹوں کے باعث اس قافلے کی غزہ کے لیے روانگی کئی بار موخر کی گئی۔ مگر انشاء اللہ بہت جلد یہ قافلہ اسرائیلی محاصرہ توڑ کر غزہ پہنچ جائے گا۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ"اسپین اور اٹلی کے دو بحری جہاز قافلہ استقامت کے ساتھ آملے ہیں، یہ جہاز قافلے کے پیچھے پیچھے ہمارے ساتھ غزہ کے بارڈر تک جائیں گے تاکہ ہنگامی صورتحال میں ریسکیو اور ریلیف کا کام کرسکیں، یہ بھی ہمارے لیے بہت بڑا سپورٹ اور باعث اطمینان ہے۔ مگر کاش یہ کام پاکستان یا کوئی اور اسلامی ملک کرتا لیکن ابھی تک انھوں نے پوری امت مسلمہ کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دیا"۔ جنیوا کے مزدور یونین کے سربراہ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر گلوبل صمود فلوٹیلا کو غزہ جانے سے روکا گیا یا 20 منٹ بھی رابطہ منقطع کیا تو یہاں سے اسرائیل ایک کیل تک نہیں لے جاسکے گا، شاید اس طرح کے جرات مندانہ اقدامات اور رویوں کے لیے شیخ سعدیؒ نے فرمایا تھا:

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

مشتاق احمد خان کے بقول ان کی کشتیوں کو ساؤنڈ بموں، دھماکہ خیز فلیئرز سے نشانہ بنایا گیا اور کشتیوں پر مشتبہ کیمیائی مادوں سے چھڑکاؤ کیا گیا۔ صمود فلوٹیلا کا ریڈیو جام کیا گیا، مدد کے لیے کالز بلاک کی گئیں۔ اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتمار نے کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ فلوٹیلا کے شرکاء کو "دہشت گرد" اور "جنگی مجرم" تصور کیا جائے گا اور اگر ضرورت پڑی تو قافلے کو بزور طاقت روکا جا سکتا ہے۔ یہ دھمکی نہ صرف قافلہ استقامت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ کسی بھی پرامن امدادی بیڑے کو روکنا بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور اس پر عالمی برادری کو فوری ردِعمل ظاہر کرکے قافلہ استقامت کی حفاظت کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔

اگر اقوام متحدہ، عالمی برادری یہ ذمے داری پوری نہیں کرتی تو اسلامی ممالک کو غیرت کا مظاہرہ کرکے گلوبل صمود فلوٹیلا کی حفاظت کے لیے اپنے بحری بیڑوں کو بھیجنا ہوگا۔ نہ صرف قافلہ استقامت کے شرکاء بلکہ ساری دنیا ان کی طرف دیکھ رہی ہے اگر انھوں نے اس بار بھی مایوس کیا تو مخلوق کی نظروں سے گر کر خالق کا قہر انھیں عبرت کا نشان بنا دے گا۔ ہر ممبر و محراب اور فورم سے قافلہ استقامت کی حفاظت کے لیے بھرپور آواز اٹھانا وقت کی ضرورت ہے، شرکاء قافلہ کو ہماری اخلاقی سپورٹ اور دعاؤں کی شدید ضرورت ہے۔ انشاء اللہ ہماری دعائیں، اس قافلے اور اہل غزہ کی طاقت بنیں گی اور یہ قافلہ طارق بن زیاد کی طرح اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے کیلیے 11 امدادی کشتیوں پر مشتمل نیا قافلہ روانہ
  • اسرائیل کا پروپیگنڈا جھوٹ، کشتیوں میں طبی و خوراکی امداد موجود تھی، گلوبل صمود فلوٹیلا منتظمین
  • گلوبل صمود فلوٹیلا کی آخری کشتی کو بھی اسرائیل نے قبضے میں لے لیا
  • اسرائیلی فوج نے گلوبل صمود فلوٹیلا کی 42 کشتیوں کے 450 رضاکاروں کو گرفتار کرلیا، ڈی پورٹ کرنے کی تیاریاں 
  • اسرائیلی حملہ جنگی جرم ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا
  • گلوبل صمود فلوٹیلا کی حفاظت امت مسلمہ کا امتحان
  • اسرائیل کا غزہ امداد لے جانیوالی گلوبل صمود فلوٹیلا کی کشتیوں پر حملہ
  • اسرائیل کا غزہ امداد لے جانے والی گلوبل صمود فلوٹیلا کی کشتیوں پر حملہ
  • اب بھی وقت ہے! فلوٹیلا کشتیوں کو رک جانا چاہیے: اسرائیل کی سنگین نتائج کی دھمکی