Jasarat News:
2025-10-05@01:36:12 GMT

غزہ امن معاہدہ، حماس مشروط آمادہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251005-03-2

 

دنیا ایک بار پھر فلسطین کے خون آشام باب پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ اسرائیل کی درندگی اور انسانیت سوز مظالم کے سامنے اگر کوئی ہمت و مزاحمت کا استعارہ بنا کھڑا ہے تو وہ حماس ہے۔ اب جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ امن منصوبہ عالمی سطح پر گفتگو کا مرکز ہے اور حماس نے اس کے بعض بنیادی نکات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کے حوالے سے اپنی قطری ثالثوں کی کوششوں سے حماس نے اپنا جواب واشنگٹن تک پہنچایا، جسے صدر ٹرمپ نے خود اپنی ویب سائٹ پر شیئر کیا۔ حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ منصو بے کے ان نکات کو قبول کرنے پر تیار ہے جن کے تحت تمام اسرائیلی قیدی (زندہ یا لاشیں) تبادلے کے فارمولے کے مطابق رہا کیے جائیں گے اور خطے میں ایسے عملی حالات پیدا کیے جائیں جن کے نتیجے میں جنگ بند اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جا سکے۔ حماس کے مطابق یہ موقف طویل داخلی مشاورت کے بعد اختیار کیا گیا جس میں حماس کی قیادت، دیگر فلسطینی دھڑے، علاقائی ثالث اور دوست ممالک شامل تھے تاکہ ایک قومی اور ذمے دارانہ فیصلہ سامنے آئے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس ثالثی کوششوں اور بین الاقوامی سہارے کو سراہتی ہے اور مذاکرات میں فوری شمولیت کے لیے بھی تیار ہے تاکہ رہائی، سیکورٹی اور انتظامی معاملات کی تفصیلی شرائط حتمی کی جا سکیں۔ علاوہ ازیں حماس نے واضح کیا کہ وہ غزہ کی عبوری انتظامیہ کو ایک غیرجانبدار، ماہر فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے سپرد کرنے کا اصولی طور پر حامی ہے بشرطیکہ ایسی انتظامیہ قومی اتفاقِ رائے اور عرب و اسلامی حمایت کے تحت قائم کی جائے۔ تنظیم نے زور دیا کہ غزہ کے مستقبل کے بنیادی مسائل کسی ایک فریق کے فیصلے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ وہ ایک جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے اندر حل ہوں گے، جس میں حماس فعال شریک رہے گی اور قومی مفادات کو مقدم رکھے گی۔ اس پیش رفت کے بعد خطے اور عالمی سطح پر اس منصوبے کے اطراف میں جاری مزاکرات میں تیزی آنے کے امکانات پر تبصرے شروع ہو گئے ہیں۔ اب نظریں واشنگٹن، تل ابیب اور وہ مسلم و عرب دارالحکومتوں پر مرکوز ہیں جو اس ثالثی عمل میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال کئی حوالوں سے تاریخی نوعیت رکھتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت نے اسرائیل کو ناکام بنایا اور دنیا کو مجبور کیا کہ وہ فلسطینی مؤقف پر غور کرے۔ دوسری جانب، حماس نے اصولی استقامت کے ساتھ یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنگ پر آمادہ ضرور ہے لیکن اصولوں کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان میں دو پہلو اہم ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسرائیل کو براہِ راست کہا ہے کہ غزہ پر بمباری بند کرے۔ دوسری یہ کہ انہوں نے قطر، ترکیہ، سعودی عرب، مصر اور اردن جیسے ممالک کو امن عمل میں شامل کر کے یہ عندیہ دیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن صرف امریکا اور اسرائیل کے فیصلوں پر منحصر نہیں رہا بلکہ خطے کے دیگر اہم کھلاڑی بھی اس عمل کا حصہ ہیں۔ یہ دباؤ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اب اس جنگ کو مزید جاری رکھنے کے حق میں نہیں۔ اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔ اگر وہ واقعی قیدیوں کی رہائی اور امن کے قیام کا خواہش مند ہے تو اسے غزہ پر اپنی جارحیت روکنا ہوگی۔ مگر ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل اکثر ایسے مواقع کو ضائع کرتا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی یا اسرائیل بین الاقوامی دباؤ اور فلسطینی عوام کی استقامت کے سامنے جھک جائے گا؟ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ ہو یا مذاکرات کے ذریعے ریلیف لینا، دونوں راستے فلسطینی عوام کے لیے ناگزیر اور درست ہیں۔ جنگ تھمانے سے زخم خوردہ عوام کو وقتی سکون مل سکتا ہے، اور مذاکرات بعض بنیادی انسانی سہولتوں کی بحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس جدوجہد کے اصولی موقف پر کون قائم ہے؟ اور جواب صاف ہے کہ آج بھی اگر کوئی اصولوں پر کھڑا ہے تو وہ حماس ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم عوام، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مزاحمت پسند بھی حماس کو اعتماد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ حماس محض ایک گروہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی نمائندہ ہے بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور یہ حماس ہی ہے جس نے اسرائیل کے ناقابل ِ شکست ہونے کا طلسم توڑا اور اس کی عسکری برتری کے بھرم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ جس کے بعد ہی امریکا نے خطرے کو بو محسوس کی اور مذکرات کا سلسلہ شروع ہوا کیوں کہ یہ ختم کرسکتے تو یہ یہی کام کرتے لیکن اس میں وہ ناکام ہوئے۔ حماس کی اصولی پالیسی یہی ہے کہ فلسطین کا ایک انچ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس پالیسی پر قائم رہنا ہی اس کی اصل طاقت ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں عام مسلمان حماس کو اپنی امید کا مرکز سمجھتے ہیں۔ ہماری امت کا المیہ یہ نہیں کہ مغرب حماس کا دشمن ہے، یہ تو فطری امر ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران حماس کے ساتھ نہیں۔ اگر عرب ممالک اور مسلم قیادت فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہوتی، اسرائیل کے مقابل سفارتی اور عسکری دباؤ ڈالتی، تو آج اسرائیل اتنی دیدہ دلیری سے قتل ِ عام نہ کرتا اور غزہ میں صہیونی درندگی کے شہداء کی تعداد 66 ہزار 288 تک نہیں پہنچتی، 18 مارچ 2025ء سے آج تک 13 ہزار 420 فلسطینی شہید اور 57 ہزار 124 زخمی ہو چکے ہیں مسلم حکمرانوں کی بے عملی اور مجرمانہ خاموشی نے اسرائیل کو یہ جرأت دی ہے کہ وہ عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے کھلے عام معصوم فلسطینیوں کا خون بہاتا رہے۔ فلسطینی عوام کے حوصلے کو سلام کہ وہ ہر قربانی دینے کے باوجود اپنی شناخت اور سرزمین پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آزادی کے خواب کو نہ بم دبا سکتے ہیں نہ بارود۔ مگر سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کہاں ہے؟ دنیا بھر کے عوام حماس کے ساتھ کھڑے ہیں مگر قیادتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی دوڑ میں آج بھی مصروف ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس نے مسلم عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج کو گہرا کر دیا ہے۔ عوام فلسطین کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، لیکن حکمران مغرب کی خوشنودی کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرچکے ہیں۔ ایک اور قابل ِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں، دنیا بھر کے غیر مسلم مزاحمت پسند بھی حماس کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جنوبی امریکا، یورپ اور افریقا کے کئی انصاف پسند حلقے فلسطینی جدوجہد کو اپنی جدوجہد کا تسلسل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حماس استعمار کے خلاف ایک علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی لاکھ کوششوں کے باوجود حماس کو تنہا نہیں کرسکے۔ حماس پر اعتماد صرف فلسطینی عوام کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ اور دنیا کے انصاف پسندوں کا ہے۔ جنگ ہو یا مذاکرات، حماس کا فیصلہ فلسطینی عوام کے لیے اور اصولوں پر مبنی ہی رہا ہے، اور یہی اس کا اصل سرمایہ ہے۔ ممکن ہے آج جو خبر وہ کل نہ ہو اور مذاکرات کی کہانی آگے نہ بڑھ سکے، یہ جنگ اور مذاکرات کا طریقہ ہے لیکن خطرہ ٹلا نہیں ہے، یہ حماس کو بھی معلوم ہے اور اصل مسئلہ اور خطرہ عرب ممالک کے لیے ہے لیکن شاید ابھی یہ غفلت کی نیند سے بیدار نہیں ہوئے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ دنیا کے حکمرانوں کی بے حسی اور غفلت نے اس امت کو کمزور کر رکھا ہے۔ اگر مسلم حکمران واقعی فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو اسرائیل کی درندگی کے دن گنے جا سکتے ہیں۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کے اور مذاکرات اسرائیل کے اسرائیل کو نے اسرائیل سکتے ہیں یہ ہے کہ کے ساتھ دنیا کے حماس کو ہے کہ ا دیا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے، وزیراعظم

فائل فوٹو

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حماس کے بیان سے جنگ بندی کی نئی راہ ہموار ہوئی، پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔

اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برادر ممالک کے شکر گزار ہیں۔ پاکستان تمام برادر ممالک کے ساتھ مل کر امن کے لیے کام کرے گا۔

واضح رہے کہ حماس نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ بڑی حد تک قبول کرلیا ہے۔ حماس نے یرغمال اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ ہتھیار مستقبل کے فلسطینی حکمرانوں کے حوالے کرے گی، جبکہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کا مجوزہ کردار بھی مسترد کردیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا حماس نے امریکہ و اسرائیل کو فریب دیا ہے؟
  • پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے، وزیراعظم
  • اسرائیلی بمباری روک دے، حماس امن پر آمادہ ہے، صدر ٹرمپ
  • حماس کا غزہ میں سیز فائر تجویز پر عملدرآمد کا اعلان، اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر آمادہ
  • حماس کا غزہ میں سیز فائر تجویز پر عملدرآمد کا اعلان، اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر آمادہ
  • معاہدہ نہ ہوا تو ایسی قیامت برپا ہو گی جو دنیا نے کبھی نہیں دیکھی ہو گی
  • ٹرمپ کا حماس کو معاہدہ قبول کرنے کے لیے اتوار کی شام 6 بجے تک کا الٹی میٹم
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • سینیٹر مشتاق احمد کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کر لیا