Jasarat News:
2025-11-20@04:13:45 GMT

غزہ امن معاہدہ، حماس مشروط آمادہ

اشاعت کی تاریخ: 5th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251005-03-2

 

دنیا ایک بار پھر فلسطین کے خون آشام باب پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ اسرائیل کی درندگی اور انسانیت سوز مظالم کے سامنے اگر کوئی ہمت و مزاحمت کا استعارہ بنا کھڑا ہے تو وہ حماس ہے۔ اب جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیش کردہ امن منصوبہ عالمی سطح پر گفتگو کا مرکز ہے اور حماس نے اس کے بعض بنیادی نکات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کے حوالے سے اپنی قطری ثالثوں کی کوششوں سے حماس نے اپنا جواب واشنگٹن تک پہنچایا، جسے صدر ٹرمپ نے خود اپنی ویب سائٹ پر شیئر کیا۔ حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ منصو بے کے ان نکات کو قبول کرنے پر تیار ہے جن کے تحت تمام اسرائیلی قیدی (زندہ یا لاشیں) تبادلے کے فارمولے کے مطابق رہا کیے جائیں گے اور خطے میں ایسے عملی حالات پیدا کیے جائیں جن کے نتیجے میں جنگ بند اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جا سکے۔ حماس کے مطابق یہ موقف طویل داخلی مشاورت کے بعد اختیار کیا گیا جس میں حماس کی قیادت، دیگر فلسطینی دھڑے، علاقائی ثالث اور دوست ممالک شامل تھے تاکہ ایک قومی اور ذمے دارانہ فیصلہ سامنے آئے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس ثالثی کوششوں اور بین الاقوامی سہارے کو سراہتی ہے اور مذاکرات میں فوری شمولیت کے لیے بھی تیار ہے تاکہ رہائی، سیکورٹی اور انتظامی معاملات کی تفصیلی شرائط حتمی کی جا سکیں۔ علاوہ ازیں حماس نے واضح کیا کہ وہ غزہ کی عبوری انتظامیہ کو ایک غیرجانبدار، ماہر فلسطینی ٹیکنوکریٹس کے سپرد کرنے کا اصولی طور پر حامی ہے بشرطیکہ ایسی انتظامیہ قومی اتفاقِ رائے اور عرب و اسلامی حمایت کے تحت قائم کی جائے۔ تنظیم نے زور دیا کہ غزہ کے مستقبل کے بنیادی مسائل کسی ایک فریق کے فیصلے تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ وہ ایک جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے اندر حل ہوں گے، جس میں حماس فعال شریک رہے گی اور قومی مفادات کو مقدم رکھے گی۔ اس پیش رفت کے بعد خطے اور عالمی سطح پر اس منصوبے کے اطراف میں جاری مزاکرات میں تیزی آنے کے امکانات پر تبصرے شروع ہو گئے ہیں۔ اب نظریں واشنگٹن، تل ابیب اور وہ مسلم و عرب دارالحکومتوں پر مرکوز ہیں جو اس ثالثی عمل میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال کئی حوالوں سے تاریخی نوعیت رکھتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت نے اسرائیل کو ناکام بنایا اور دنیا کو مجبور کیا کہ وہ فلسطینی مؤقف پر غور کرے۔ دوسری جانب، حماس نے اصولی استقامت کے ساتھ یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنگ پر آمادہ ضرور ہے لیکن اصولوں کی بنیاد پر فیصلے ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان میں دو پہلو اہم ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسرائیل کو براہِ راست کہا ہے کہ غزہ پر بمباری بند کرے۔ دوسری یہ کہ انہوں نے قطر، ترکیہ، سعودی عرب، مصر اور اردن جیسے ممالک کو امن عمل میں شامل کر کے یہ عندیہ دیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن صرف امریکا اور اسرائیل کے فیصلوں پر منحصر نہیں رہا بلکہ خطے کے دیگر اہم کھلاڑی بھی اس عمل کا حصہ ہیں۔ یہ دباؤ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا اب اس جنگ کو مزید جاری رکھنے کے حق میں نہیں۔ اب گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔ اگر وہ واقعی قیدیوں کی رہائی اور امن کے قیام کا خواہش مند ہے تو اسے غزہ پر اپنی جارحیت روکنا ہوگی۔ مگر ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اسرائیل اکثر ایسے مواقع کو ضائع کرتا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی وہی تاریخ دہرائی جائے گی یا اسرائیل بین الاقوامی دباؤ اور فلسطینی عوام کی استقامت کے سامنے جھک جائے گا؟ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ ہو یا مذاکرات کے ذریعے ریلیف لینا، دونوں راستے فلسطینی عوام کے لیے ناگزیر اور درست ہیں۔ جنگ تھمانے سے زخم خوردہ عوام کو وقتی سکون مل سکتا ہے، اور مذاکرات بعض بنیادی انسانی سہولتوں کی بحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس جدوجہد کے اصولی موقف پر کون قائم ہے؟ اور جواب صاف ہے کہ آج بھی اگر کوئی اصولوں پر کھڑا ہے تو وہ حماس ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم عوام، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مزاحمت پسند بھی حماس کو اعتماد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ حماس محض ایک گروہ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی نمائندہ ہے بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور یہ حماس ہی ہے جس نے اسرائیل کے ناقابل ِ شکست ہونے کا طلسم توڑا اور اس کی عسکری برتری کے بھرم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ جس کے بعد ہی امریکا نے خطرے کو بو محسوس کی اور مذکرات کا سلسلہ شروع ہوا کیوں کہ یہ ختم کرسکتے تو یہ یہی کام کرتے لیکن اس میں وہ ناکام ہوئے۔ حماس کی اصولی پالیسی یہی ہے کہ فلسطین کا ایک انچ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس پالیسی پر قائم رہنا ہی اس کی اصل طاقت ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں عام مسلمان حماس کو اپنی امید کا مرکز سمجھتے ہیں۔ ہماری امت کا المیہ یہ نہیں کہ مغرب حماس کا دشمن ہے، یہ تو فطری امر ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران حماس کے ساتھ نہیں۔ اگر عرب ممالک اور مسلم قیادت فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہوتی، اسرائیل کے مقابل سفارتی اور عسکری دباؤ ڈالتی، تو آج اسرائیل اتنی دیدہ دلیری سے قتل ِ عام نہ کرتا اور غزہ میں صہیونی درندگی کے شہداء کی تعداد 66 ہزار 288 تک نہیں پہنچتی، 18 مارچ 2025ء سے آج تک 13 ہزار 420 فلسطینی شہید اور 57 ہزار 124 زخمی ہو چکے ہیں مسلم حکمرانوں کی بے عملی اور مجرمانہ خاموشی نے اسرائیل کو یہ جرأت دی ہے کہ وہ عالمی قوانین کو پامال کرتے ہوئے کھلے عام معصوم فلسطینیوں کا خون بہاتا رہے۔ فلسطینی عوام کے حوصلے کو سلام کہ وہ ہر قربانی دینے کے باوجود اپنی شناخت اور سرزمین پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آزادی کے خواب کو نہ بم دبا سکتے ہیں نہ بارود۔ مگر سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کہاں ہے؟ دنیا بھر کے عوام حماس کے ساتھ کھڑے ہیں مگر قیادتیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی دوڑ میں آج بھی مصروف ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس نے مسلم عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج کو گہرا کر دیا ہے۔ عوام فلسطین کے ساتھ ہیں اور رہیں گے، لیکن حکمران مغرب کی خوشنودی کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کرچکے ہیں۔ ایک اور قابل ِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں، دنیا بھر کے غیر مسلم مزاحمت پسند بھی حماس کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جنوبی امریکا، یورپ اور افریقا کے کئی انصاف پسند حلقے فلسطینی جدوجہد کو اپنی جدوجہد کا تسلسل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حماس استعمار کے خلاف ایک علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے اتحادی لاکھ کوششوں کے باوجود حماس کو تنہا نہیں کرسکے۔ حماس پر اعتماد صرف فلسطینی عوام کا نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ اور دنیا کے انصاف پسندوں کا ہے۔ جنگ ہو یا مذاکرات، حماس کا فیصلہ فلسطینی عوام کے لیے اور اصولوں پر مبنی ہی رہا ہے، اور یہی اس کا اصل سرمایہ ہے۔ ممکن ہے آج جو خبر وہ کل نہ ہو اور مذاکرات کی کہانی آگے نہ بڑھ سکے، یہ جنگ اور مذاکرات کا طریقہ ہے لیکن خطرہ ٹلا نہیں ہے، یہ حماس کو بھی معلوم ہے اور اصل مسئلہ اور خطرہ عرب ممالک کے لیے ہے لیکن شاید ابھی یہ غفلت کی نیند سے بیدار نہیں ہوئے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ دنیا کے حکمرانوں کی بے حسی اور غفلت نے اس امت کو کمزور کر رکھا ہے۔ اگر مسلم حکمران واقعی فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو اسرائیل کی درندگی کے دن گنے جا سکتے ہیں۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کے اور مذاکرات اسرائیل کے اسرائیل کو نے اسرائیل سکتے ہیں یہ ہے کہ کے ساتھ دنیا کے حماس کو ہے کہ ا دیا ہے کے لیے

پڑھیں:

سلامتی کونسل نے ٹرمپ کا امن منصوبہ منظور کردیا، غزہ میں عالمی استحکام فورس کی منظوری

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ جنگ ختم کرنے اور وہاں ایک بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے تاہم حماس نے اسے مسترد کردیا۔

اسرائیل اور حماس گزشتہ ماہ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے پہلے مرحلے یعنی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے پر متفق ہو گئے تھے، تاہم عالمی سطح پر اس منصوبے کو جائز حیثیت دلانے اور فورس بھیجنے والے ممالک کو یقین دہانی کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا

قرارداد کے متن کے مطابق رکن ممالک غزہ کی تعمیرِ نو اور معاشی بحالی کے لیے مجوزہ  ‘بورڈ آف پیس’ میں حصہ لے سکیں گے، جو ایک عبوری حکومتی ادارے کے طور پر کام کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ قرارداد غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کی تعیناتی کی اجازت بھی دیتی ہے، جس کا مقصد غزہ کو غیر مسلح کرنا، اسلحہ ناکارہ بنانا اور عسکری ڈھانچے کو ختم کرنا ہے۔

حماس نے قرارداد کو مسترد کردیا

حماس نے قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوگی اور اسرائیل کے خلاف اپنے ہتھیاروں کو قانونی مزاحمت سمجھتی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ قرارداد غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی کا نظام مسلط کرتی ہے، جسے ہمارا عوام اور اس کی مزاحمتی تنظیمیں قبول نہیں کرتیں۔

امریکا کا موقف

صدر ٹرمپ نے بھی ووٹ کے بعد اسے تاریخی لمحہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ جلد بورڈ آف پیس کے ارکان اور دیگر فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا۔

امریکی مندوب مائیک والٹز نے کونسل کو بتایا کہ یہ قرارداد فلسطینیوں کے لیے خود ارادیت کی ممکنہ راہ کھولتی ہے، جس میں راکٹوں کی جگہ زیتون کی شاخیں لیں گی۔

یہ بھی پڑھیے: فلسطینی ریاست کا قیام قبول نہیں: سلامتی کونسل اجلاس سے قبل اسرائیل نے مخالفت کردی

والٹز کے مطابق منصوبہ حماس کا غزہ پر قبضہ ختم کرے گا اور علاقے کو دہشت کے سائے سے آزاد کرے گا۔

روس اور چین کی ناراضی، لیکن ووٹ سے اجتناب

روس اور چین نے قرارداد سے متعلق کئی تحفظات کا اظہار کیا، تاہم دونوں نے ووٹنگ میں عدم شرکت (abstain) اختیار کی، جس کے باعث قرارداد منظور ہو گئی۔

روسی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل نے واشنگٹن کے وعدوں پر مبنی ایک امریکی منصوبے کو اندھے اعتماد کے ساتھ منظور کر لیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی حمایت

فلسطینی اتھارٹی نے قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی حمایت نے روس کو ویٹو سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان کا ردعمل

پاکستان کے مستقل اقوام متحدہ میں مندوب عاصم افتخار نے آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پلان کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی علاقے میں جاری لڑائی روکنے کی جانب ایک قدم ہے، اگرچہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: سلامتی کونسل میں ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی توثیق پر ووٹنگ متوقع، مسودے میں کیا ہے؟

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عاصم افتخار نے کہا کہ اس منصوبے نے تنازع میں وقفہ لانے میں مدد دی ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کی کوششوں کو قابلِ ستائش قرار دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔

اسرائیل میں تنازع: فلسطینی ریاست کے امکان کا ذکر

قرارداد میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مناسب حالات میسر آنے پر فلسطین کو ریاست کا راستہ فراہم ہو سکتا ہے۔ یہ نکتہ اسرائیلی سیاست میں تنازع کا باعث بنا ہوا ہے۔

قرارداد کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات اور غزہ کی تعمیرِ نو کے بعد قابل اعتماد راستہ فلسطینی ریاست کی جانب ممکن ہو سکے گا۔ امریکا اس سلسلے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان نیا سیاسی مکالمہ شروع کرے گا۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کی کسی بھی شکل کے خلاف رہے گا اور وہ غزہ کو آسان یا مشکل دونوں طریقوں سے غیر مسلح کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقوام متحدہ سلامتی کونسل غزہ فلسطین

متعلقہ مضامین

  • نام نہاد غزہ امن فورس اور پاکستان
  • اسرائیل نے جنگ بندی معاہدےکی دھجیاں اڑادیں، آج پھر لبنان پر حملہ کردیا، 13 افراد جاں بحق
  • سلامتی کونسل ، ٹرمپ کے غزہ منصوبے کے حق میں قرارداد منظور،حماس کی مخالفت، پاکستان کی حمایت
  • حماس نے غزہ قرارداد مسترد کردی، اسرائیل کے خلاف ہتھیار ڈالنے سے انکار
  • سلامتی کونسل نے ٹرمپ کا امن منصوبہ منظور کردیا، غزہ میں عالمی استحکام فورس کی منظوری
  • غزہ: اسرائیلی حملے‘ 3 شہید‘ متعدد ز خمی‘فلسطینی ریاست کی مخالفت جاری رہے گی‘ نیتن یاہو
  • اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوشش کر رہا ہے، جنوبی افریقا
  • فلسطینی ریاست کسی حال میں قبول نہیں، حماس کو ہرحال میں غیرمسلح کیا جائے گا: نیتن یاہو
  • سکیورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
  • سیکورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان