فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جاری، اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے واضح کردیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی جاری ہے اور تمام قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے تاکہ سیاسی بنیادوں پر اپیلوں میں کوئی تضاد پیدا نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں: فیض حمید پر سیاسی ایما پر کام کرنے کا الزام، ان کا کورٹ مارشل ہورہا ہے، سیکیورٹی حکام
ٹیلی ویژن اینکرز اور سینیئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ فوج کا تعلق کسی سیاسی جماعت کے بجائے حکومت وقت سے ہوتا ہے، اور سول و ملٹری تعلقات کا مضبوط ہونا ناگزیر ہے۔
ان کے مطابق ریاست کے اندر کوئی دوسری ریاست نہیں ہے اور اس وقت حکومت اور سیکیورٹی ادارے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ تمام امور پر آرا دی جاتی ہیں لیکن ہر فیصلہ وزیراعظم بطور چیف ایگزیکٹو کرتے ہیں۔
عمران خان سے متعلق سوال پر حکام نے کہا کہ آرمی چیف کے پاس انہیں معافی دینے کا اختیار نہیں ہے، اگر خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ چاہیں تو وہ مقدمات کے قانونی پہلوؤں پر کام کریں، ان کے مطابق عمران خان کی ٹویٹس کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان کا بیانیہ ناکام ہو چکا ہے۔
ماہرنگ بلوچ سے متعلق حکام نے کہا کہ اگر انہیں نوبیل انعام مل گیا تو یہ ایک بڑا لطیفہ ہوگا کیونکہ ان کی نامزدگی بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بیرونی قوتیں دہشتگردی کے سہولت کاروں کی پشت پناہی کررہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے، مریم نواز
انہوں نے واضح کیا کہ ایسے لوگوں سے مذاکرات ممکن نہیں جو فوجی جوانوں کے سروں کے ساتھ کھیل کھیلتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews سابق ڈی جی آئی ایس آئی سیکیورٹی حکام فیض حمید کورٹ مارشل کارروائی ماہرنگ بلوچ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سابق ڈی جی ا ئی ایس ا ئی سیکیورٹی حکام فیض حمید کورٹ مارشل کارروائی ماہرنگ بلوچ وی نیوز سیکیورٹی حکام کورٹ مارشل فیض حمید حکام نے
پڑھیں:
سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں عدالت نے کہا ہے کہ آرٹیکل 187 کا اطلاق اس تنازعے میں قابلِ قبول نہیں ہے اور اس بنیاد پر دیے گئے ریلیف کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں بحال کردیں، کس پارٹی کے حصے میں کتنی سیٹیں آئیں؟
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مکمل انصاف کے اختیار کا استعمال کر کے تحریک انصاف کو وہ ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا جو دیا گیا۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ آرٹیکل 187 کا اطلاق صرف حقائق اور قانون کے مطابق ہی ممکن ہے اور اس صورتِ حال میں اس کا اطلاق غیر مناسب ثابت ہوا جس کے نتیجے میں بعض اراکین اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا اور ایسے فیصلے دیے گئے جو آئین کے دائرے سے باہر تھے۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق اکثریتی فیصلہ ریکارڈ اور آئین کے خلاف تھا، اس لیے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے والے مرکزی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ سمیت 8 ججز نے پہلے اکثریتی بنیاد پر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا تھا، مگر موجودہ نظرثانی میں اس رویے کو درست قرار نہیں دیا جاسکا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن، پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں مینڈیٹ چوروں کو دے دی گئیں، بیرسٹر گوہر
سپریم کورٹ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ سنی اتحاد کونسل کی دونوں اپیلیں متفقہ طور پر خارج کی گئی تھیں اور اس کے خلاف سنی اتحاد کونسل نے کوئی علیحدہ درخواست دائر نہیں کی۔ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو الاٹ کر دی تھیں اور مرکزی فیصلے میں بعض جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کرنا قانون و انصاف کے تقاضوں کے خلاف قرار پایا۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ تحریک انصاف اس مقدمے میں مختلف فورمز پر فریق نہیں تھی ، الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف فریق ثابت نہیں ہوئی اور اس نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا۔ اس کے برعکس چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایک درخواست دائر کی مگر عدالت کے مطابق وہ درخواست فریق بننے کے لیے نہیں بلکہ عدالتی معاونت کے لیے تھی۔
فیصلے میں 7 غیر متنازع حقائق کا حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ مرکزی فیصلے میں جو ریلیف دیا گیا وہ اصل فریق کی حالت اور عدالتی تقاضوں کے مطابق برقرار نہیں رہ سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں بحال کردیں، نوٹیفکیشن جاری
عدالت نے واضح کیا کہ اس کیس میں پی ٹی آئی کو دیا گیا ریلیف برقرار نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ وہ اس معاملے میں بطور فریق موجود ہی نہیں تھی اور اس نے الیکشن کمیشن یا ہائیکورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے کوئی علیحدہ عرضی نہیں دائر کی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، اور مرکزی فیصلے میں جن اقدام کا اطلاق کیا گیا وہ آئینی تقاضوں اور انصاف کے اصولوں کے خلاف تھے۔
فیصلے میں یہ تاثر بھی رد کیا گیا کہ 80 آزاد امیدواروں نے کسی بھی فورم پر یہ دعویٰ کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں۔
سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اس نتیجے کو اپنے حق میں سمجھا۔ عدالت نے یہ کہا کہ مکمل فراہمی انصاف کے لیے سپریم کورٹ ہدایات جاری کرسکتی ہے تاکہ آئندہ ایسے امور میں قانونی اور آئینی تقاضے یقینی بنائے جا سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news تحریک انصاف سپریم کورٹ فیصلہ مخصوص نشستیں