امن کا سارا بوجھ حماس پر ڈالنا ٹھیک نہیں، اسرائیل کو حملے بند کرنا ہونگے، رجب طیب اردوان
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
آذربائیجان سے واپسی پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی امن کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ غزہ کو فلسطین کا حصہ ہی رہنا چاہیئے، غزہ کا انتظام فلسطینیوں کے پاس ہی ہونا چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ امن کا سارا بوجھ صرف حماس یا فلسطینیوں پر ڈالنا ٹھیک نہیں ہے، ٹرمپ کے منصوبے کے باوجود اسرائیل امن کی راہ میں بنیادی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ آذربائیجان سے واپسی پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو امن کے لیے اپنے حملے بند کرنا ہوں گے، مصر میں غزہ جنگ بندی مذاکرات نہایت اہم ہیں، امید ہے کہ جلد اچھی خبر ملے گی۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ترکیے حماس کے ساتھ رابطے میں ہے، حماس کو سمجھا رہے ہیں کہ فلسطین کے مستقبل کے لیے سب سے موزوں راستہ کیا ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے ترکیے سے حماس سے رابطہ کرنے اور انہیں قائل کرنے کو کہا تھا۔ صدر ٹرمپ کی امن کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ غزہ کو فلسطین کا حصہ ہی رہنا چاہیئے، غزہ کا انتظام فلسطینیوں کے پاس ہی ہونا چاہیئے۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں کردوں کی زیر قیادت ایس ڈی ایف کو اپنے وعدوں پر قائم رہنا چاہیئے اور شامی ریاستی نظام میں ضم ہونا چاہیئے، ترکیے کا صبر و تحمل اور وقار پر مبنی مؤقف کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔ ترک صدر اردوان نے مزید بتایا کہ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ایف-35 طیاروں کے پروگرام سے ترکیے کو نکالے جانے کا مسئلہ واضح طور پر اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیے کو پروگرام سے ہٹانے کی کوئی جائز وجہ نہیں ہے، امید ہے کہ ایف-35 کا معاملہ حل ہو جائے گا اور امریکا کی جانب سے عائد پابندیاں بھی ختم کر دی جائیں گی۔ اردوان نے وائٹ ہاؤس کے دورے کو امریکا اور ترکیے کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ
پڑھیں:
فلسطینی مزاحمت کی 6 اسٹریٹجک کامیابیاں
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا امن منصوبہ نہ صرف حماس کو کمزور کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے امریکہ اور اسرائیل کی اسٹریٹجک ناکامیوں کو مزید نمایاں کر دیا۔ حماس نے نہ صرف اپنی شرائط پر قائم رہ کر مذاکرات کیے، بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی اخلاقی اور سیاسی قوت عطا ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت، حکمت اور عوامی حمایت کے امتزاج سے عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی کو شکست دی جا سکتی ہے۔ تحریر: محمدرضا دہقان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینی تنظیم حماس کو پیش کردہ "20 نکاتی امن منصوبہ" بظاہر جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کے انتظام کے لیے بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل پر مبنی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس منصوبے کے اصل اہداف حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ کو سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کے حوالے کرنا ہیں۔ حماس نے اس منصوبے کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا، بلکہ مذاکرات میں شرکت کے لئے دو بنیادی شرائط پر سامنے رکھی ہیں: یر
1۔ مسلح ہونے سے انکار
2۔ غزہ کا انتظام فلسطینی داخلی قوتوں کے ہاتھوں میں رہنا
یہی وہ مقام ہے، جہاں سے حماس کی کامیابی اور امریکہ، اسرائیل، یورپ اور اسرائیل دوست عرب حکومتوں کی چھ اسٹریٹجک شکستوں کی وضاحت ہوتی ہے۔
پہلی کامیابی: استعمار کا حماس کو شکست دینے کا خواب چکنا چور
ابتدائی طور پر تجزیہ کاروں نے سمجھا تھا کہ حماس نے ٹرمپ کے امن منصووبے کا جواب دیکر شکست قبول کر لی ہے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 9 جنوری 2024 کو فرمایا تھا کہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حماس کو ختم کریں گے لیکن اس میں ناکام رہے، اسی طرح دشمن نے کہا تھا کہ وہ غزہ کے عوام کو یہاں سے منتقل کریں گے لیکن اس میں بھی ناکام رہے، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ مزاحمت کی کارروائیوں کو روکیں گے لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
دوسری کامیابی: غزہ ان کے لئے دلدل ثابت ہوا
صہیونی حکومت کا غزہ میں جارحیت کا ارتکاب اور غزہ کو خالی کروا کے اس پر قبضے کا خواب خود اس کے لیے دلدل بن گیا۔ اس بارے میں بھی رہبر انقلاب نے 20 مارچ 2024 کو فرمایا تھا کہ آج اگر وہ غزہ سے نکلیں تو بھی ان کی شکست ہے، اور اگر نہ نکلیں تب بھی شکست خوردہ ہیں، صہیونی حکومت کا یہی مقدر ہے۔
تیسری کامیابی: حماس کے واضح اور ٹھوس مطالبات
ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کو جرائم سے بری کروانے اور تحفظ دینے کے لئے جو امن منصوبہ پیش کیا گیا، اس کے جواب میں حماس نے مذاکرات میں شرکت کے لئے جس طرح مطالبات اور نکات رکھ کر اس پر بات چیت سے انکار نہیں کیا، یہ حماس نے درایت ہے، بظاہر منصوبے کے ساتھ چل رہے ہیں، لیکن اصل مطالبات پیش کیے اور ٹرمپ و نیتن یاہو کو ان کے اپنے ہی جال میں پھنسا دیا۔
چوتھی کامیابی: امریکا اپنے مؤقف سے ہٹنا
ٹرمپ کا امن منصوبہ کے بارے میں اب جو موقف سامنے آ رہا ہے، دراصل وہی مؤقف ہے جو حماس پہلے ہی پیش کر چکی تھی۔ حماس نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ غزہ کا انتظام سنبھالنے کو تیار ہے، بشرطیکہ قابض حکومت پیچھے ہٹے اور جنگ ختم ہو۔ اب امریکہ اسی مؤقف کو "امن منصوبہ" کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
پانچویں کامیابی: عالمی سطح پر اسرائیل کی بدنامی
7 اکتوبر کے بعد اسرائیل نہ صرف اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل نہ کر سکا، بلکہ دنیا بھر میں عوامی رائے اس کے خلاف ہو گئی۔ جیسا کہ رہبر انقلاب نے 23 مئی 2024 کو فرمایا کہ "آج دنیا مزاحمت کے حق میں نعرے لگا رہی ہے، کون سوچ سکتا تھا کہ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں نعرے لگیں گے، فلسطینی پرچم بلند کیے جائیں گے؟ یہ سب ہو چکا ہے۔
چھٹی کامیابی: اسرائیل کو مسلسل ذلت آمیز پسپائی
ٹرمپ کے امن منصوبے کے بعد حماس کی طرف سے مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان یہ تازہ شکست ان ذلتوں کا تسلسل ہے، جو اسرائیل نے حالیہ برسوں میں برداشت کی ہیں، جن میں سابقہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے بھی شامل ہیں، جنہیں حماس نے مہارت سے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس بارے میں بھی رہبر انقلاب نے 23 مئی 2024 کو فرمایا تھا کہ اللہ کا پہلا وعدہ آپ کے لیے پورا ہو چکا ہے، کہ کتنی ہی چھوٹی جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ تم ایک چھوٹی جماعت ہو جو امریکہ، نیٹو، برطانیہ اور دیگر پر غالب آ گئی ہے۔ پس وہ دوسرا وعدہ بھی، یعنی اسرائیل کا خاتمہ، ضرور پورا ہوگا کہ فلسطین کا قیام سمندر سے دریا تک، ان شاء اللہ وہ دن بھی تم دیکھو گے۔
ٹرمپ کا امن منصوبہ نہ صرف حماس کو کمزور کرنے میں ناکام رہا، بلکہ اس نے امریکہ اور اسرائیل کی اسٹریٹجک ناکامیوں کو مزید نمایاں کر دیا۔ حماس نے نہ صرف اپنی شرائط پر قائم رہ کر مذاکرات کیے، بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی مزاحمت کو ایک نئی اخلاقی اور سیاسی قوت عطا ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت، حکمت اور عوامی حمایت کے امتزاج سے عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی کو شکست دی جا سکتی ہے۔