Express News:
2025-10-08@23:46:35 GMT

شفاف انتخابات اور جمہوریت

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

ریاست پر اقتدار کس کا ہو۔ انسانی تاریخ میں یہ مسئلہ ہمیشہ گھمبیر رہا۔ صنعتی انقلاب سے قبل ریاست پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ طاقت کا استعمال تھا اور جو شخص یا گروہ اقتدار پر قابض ہوجاتا تھا تو اس کی خواہش دنیا کے خاتمے تک اقتدار پر قائم رہنے کی ہوتی تھی۔ اقتدار خاندانی حق سمجھا جاتا تھا۔ عمومی طور پر باپ کے بعد بیٹے کو اقتدار سونپا جاتا تھا، مگر بقول کارل مارکس آلات پیداوار کی تبدیلی سے سماج تبدیل ہوجاتا ہے۔

برطانیہ میں پہیے کی ایجاد کے تحت صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔ بھاپ کے انجن کی ایجاد سے کارخانوں کو نئی زندگی ملی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے علم کو عام کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اب آسانی سے اخبارات شایع ہونے لگے۔ ریاست کی ہیت کی تبدیلی کے لیے سوچ بچار کرنے والے مفکرین کے خیالات کتابوں کی شکل میں شایع ہونے لگے۔ صنعتی ترقی شروع ہوتے ہی کسانوں نے گاؤں سے شہروں کا رخ کیا۔ اپنے آباؤ اجداد کے پیشے چھوڑ کر کارخانوں میں کام کرنا شروع کیا۔ اب نئے شہر آباد ہونے لگے۔

بڑے گاؤں شہروں میں تبدیل ہوئے، یوں متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ انسانوں نے تنظیم سازی کا شعور حاصل کیا۔ سیاسی جماعتیں قائم ہونے لگیں۔ کسان اور مزدور اپنی اپنی یونین میں منظم ہونے لگے۔ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی انجمنیں بن گئیں۔ اب سب سے اہم سوال ریاست پر بالادستی کا ابھر کر سامنے آیا، یوں برطانیہ میں بادشاہ اور چرچ کے خلاف بغاوت ہوئی اور اس کامیاب بغاوت کے نتیجے میں 1215ء میں میگنا کارٹا معاہدہ ہوا۔

اس چارٹرکے تحت بادشاہ کے اختیارات محدود کیے گئے۔ قانون کی بالادستی، انصاف اور انفرادی آزادی کے تحفظ کی ریاست نے یقین دہانی کرائی، یوں اب ریاست پر عوام کی بالادستی کے تصور کو عملی شکل حاصل ہوئی۔ عوام کو اپنے نمایندے منتخب کرنے اور ان کے احتساب کا حق حاصل ہوا۔

ریاست کے تین ستونوں انتظامیہ، مقننہ یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ کا کردار واضح ہوا اور میڈیا کو چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہوئی۔ یوں عوام کے جاننے کے حق اور میڈیا کے اطلاعات فراہم کرنے کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ پارلیمنٹ کی ریاست کے تمام ستونوں پر بالادستی کے لیے شفاف انتخابات لازمی قرار دیے گئے، یوں اب اقتدارکی پر امن منتقلی کا تصور عملی حیثیت اختیار کر گیا۔

برصغیر ہندوستان میں انگریز حکومت نے بلدیاتی نظام قائم کیا اور ہندوستانی شہریوں کو محدود نمایندگی دی گئی اور معاشرے کے بالادست طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ووٹنگ کا حق دیا گیا تو برصغیر میں ووٹ ڈالنے کا تصور آگیا مگر برطانیہ کی نوآبادیاتی کے طور پر ہندوستان کے عوام کو اپنے حکمرانوں کو منتخب کرنے کا حق حاصل نہیں ہوا۔ اب انگریز حکومت نے ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ کرلیا تو 1946میں انتخابات منعقد ہوئے۔

ان انتخابات میں مخصوص افراد کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے مسلمانوں کی نشستوں پر مکمل کامیابی حاصل کی۔ آزادی کے بعد بھارت کی پارلیمنٹ نے 26 نومبر 1949 کو آئین کی منظوری دی اور 26 جنوری 1950کو نیا آئین نافذ ہوا۔ بھارت میں باقاعدگی سے انتخابات منعقد ہونے لگے۔ بھارت کے سیاسی ارتقاء کا جائزہ لینے والے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگتے تھے۔

حکمراں جماعت اور حزب اختلاف نے ساری توجہ الیکشن کمیشن کو مستحکم کرنے پر مرکوزکی اور بھارت کے سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے احکامات کے خلاف فیصلے نہیں دیے، یوں بھارتی معاشرے میں شفاف انتخابات پر مکمل اتفاقِ رائے نظر آنے لگا۔

بھارت کی تاریخ میں پہلی دفعہ اس سال کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھارتی وزیر اعظم مودی پر انتخابی نتائج کو اپنی مرضی سے ریگولیٹ کرنے کا سنگین الزام لگایا۔ بھارت کے معروف صحافی جاوید نقوی نے لکھا کہ بھارتی حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سوفٹ ویئر میں کچھ اس طرح تبدیلی کرائی ہے کہ ناکام امیدوار کے ووٹ زیادہ ہوجاتے ہیں۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والے ماہرین اس صورتحال کو بھارت کی جمہوریت کے لیے سخت خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان میں عوام کو 1970کے انتخابات میں بالغِ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے حکمرانوں کو منتخب کرنے کا حق حاصل ہوا۔ جب پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے 1964 کے انتخابات میں جنرل ایوب خان کو چیلنج کیا تو ایک منظم دھاندلی کے ذریعے فاطمہ جناح کو شکست سے دوچارکیا گیا۔

پاکستان میں 1970 کے انتخابات کے بارے میں عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ یہ انتخابات شفاف تھے، ورنہ ہر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جمہوریت اور شفاف انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ اجاگر ہوئی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ UNDP نے الیکشن کمیشن کو جدید خطوط پر استوارکر کے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں خاص طور پر پولنگ ایجنٹ اورکاؤنٹنگ ایجنٹ کی تربیت پر خاص توجہ دی تھی۔

اس کے ساتھ ہی غیر ملکی صحافیوں کے علاوہ غیر ملکی مبصرین کی جانب سے انتخابی عمل کی نگرانی کے معاملے میں خاصی پیش رفت ہوئی۔ انسانی حقوق کی مقامی تنظیموں کے علاوہ دولت مشترکہ اور یورپی یونین کے مبصرین کو انتخابی عمل کی نگرانی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔

18ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل طور پر خود مختار ادارہ قرار دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کو لازمی قرار دیا گیا۔ اب 26 ویں ترمیم کے بعد آئین میں یہ شق شامل کی گئی کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین کی میعاد ختم ہونے کے باوجود جب تک وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کے مابین ان عہدوں کے لیے ناموں پر اتفاق رائے نہیں ہوگا، یہ عہدیدار کام کرتے رہیں گے۔

 2018کے انتخابات میں RTSکا نظام بند ہونے کی بناء پر انتخابی نتائج کی شفافیت پر گہرے اعتراضات عائد ہوئے۔ 2024کے انتخابات میں فارم 45  اور فارم 47 کے تنازع نے نئے تضادات کو جنم دیا۔ پاکستان دولت مشترکہ کا رکن ہے۔ دولت مشترکہ کے ممالک اب شفاف انتخابات اور اقتدارکی پر امن منتقلی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ انتخابات کی نگرانی کے لیے دولت مشترکہ ممالک کے مبصرین پاکستان آئے تھے۔

روایت کے مطابق یہ مبصرین انتخابات کے 15دن کے اندر اپنی رپورٹ شایع کردیتے ہیں مگر اس دفعہ طویل انتظار کے 11 ماہ بعد بالآخر دولت مشترکہ کے مبصرین کی رپورٹ شایع ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان مبصرین نے اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا کہ انتخابی عمل میں رخنہ پیدا ہوا۔ ایک سیاسی جماعت کے لیے Unlevel Playing Field کا تاثر تقویت پا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ان فیصلوں سے ایک سیاسی جماعت براہِ راست متاثر ہوئی۔ اس رپورٹ میں انتخابات سے قبل اور انتخابات کے دوران اور پھر انتخابات کی صورتحال کو شفاف انتخابات سے منفی قرار دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں خاص طور پر سپریم کورٹ کے چند فیصلوں جن میں میاں نواز شریف پر زندگی بھر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے خاتمے اور ایک سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس فیصلے کی بناء پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینا پڑا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے بانی کے خلاف سزا کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا جس کی بناء پر بانی انتخابات کے لیے نااہل قرار پائے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انتخابات والے دن ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت موبائل سروس کے علاوہ انٹرنیٹ سروس کی معطلی نے بھی صورتحال کو خراب کیا۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا نتائج جمع کرنے کا نظام ناکام ثابت ہوا اور ڈیجیٹل فارم دستیاب نہ ہونے کی بناء پر فارم 45  اور فارم 47 کی شفافیت کا سوال اہم رہا۔ دولت مشترکہ کے مبصرین نے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ تکنیکی اور قانونی معاملات سے ہٹ کر Zero-sum, Winner Takes all approach ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اس رپورٹ میں سیاسی جماعتوں سے توقع ظاہر کی گئی ہے کہ یہ جماعتیں Cycle of Zero-sum سیاست کا خاتمہ کریں گی اور سیاست میں برداشت، احترام اور اعتماد کے رجحانات کو تقویت دیں گی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی جمہوریت کے تابع ہونی چاہیے۔

دولت مشترکہ کے مبصرین نے اس رپورٹ میں گزشتہ سال ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر ہی سوالات نہیں اٹھائے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے کردارکا بھی تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ شفاف انتخابات سے جمہوریت مستحکم ہوتی ہے، عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے ختم ہوتے ہیں۔ جب جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے تو معاشی بحران بھی قابو میں آتا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری نظام کے ارتقائی تاریخ کے جائزہ سے یہی سبق ملتا ہے۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے انتخابات میں دولت مشترکہ کے شفاف انتخابات الیکشن کمیشن اس رپورٹ میں انتخابات کی سیاسی جماعت انتخابات کے کی بناء پر کے مبصرین ہونے لگے ریاست پر دیا گیا کرنے کا کہا گیا گیا ہے کے لیے کے بعد کے تحت میں یہ

پڑھیں:

گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ کے اجرا پر حکومت اور آئی ایم ایف میں اختلاف برقرار

گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ کے اجرا پر حکومت اور آئی ایم ایف میں اختلاف برقرار
ہے جب کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اقتصادی جائزہ مذاکرات آج ختم ہونے کا امکان ہے۔

وزارت خزانہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کا دوسرا جائزہ کامیابی سے مکمل ہونے کیلئے پر امید ہے جب کہ  گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ کے اجرا پر حکومت اور آئی ایم ایف میں اختلاف برقرار ہے۔

وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 25 ستمبر سے اب تک کی بات چیت تعمیری اور مثبت رہی، آئی ایم ایف مشن آج واپس روانہ ہوگا، ورچوئل بات چیت جاری رہے گی۔

ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری سے ای ایف ایف پروگرام کی تیسری قسط ملنے کا امکان ہے،  1.4 ارب ڈالر کی ریسیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلٹی کے تحت بھی پہلی قسط منظور ہونے کی توقع ہے۔

ذرائع کے مطابق  پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں ٹیکس فری کار امپورٹ اسکیمز ختم کرنے پر اتفاق ہوا ہے، بیگج اور گفٹ اسکیم ختم، ٹرانسفر آف ریزیڈنس اسکیم مزید سخت کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ 

ذرائع نے کہا کہ 5 سال پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ کی مشروط طور پر اجازت ہوگی، آئی ایم ایف نے رواں ماہ ای سی سی کے ذریعے شرائط مزید سخت کرنے کی منظوری لینے کی ہدایت کردی۔

وزارتِ خزانہ  کے حکام نے کہا کہ گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ کے اجرا پر حکومت اور آئی ایم ایف میں اختلاف برقرار ہے، اس حوالے سے قائم ٹاسک فورس نے مختلف سفارشات دے دیں، گریڈ 17 تا 22 کے سرکاری افسران اور ان کے اہل خانہ کے اثاثے ظاہر کیے جائیں گے۔

سول سرونٹس ایکٹ، الیکشن ایکٹ، نیب آرڈیننس اور ایف آئی اے ایکٹ میں ترامیم، شفاف احتساب، بہتر تفتیشی صلاحیت اور بدعنوانی کے خلاف آگاہی مہم کی تجاویز شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • میڈیا اداروں کو اشتہارات کی شفاف ادائیگی یقینی بنائی جائے، سیکریٹری اطلاعات
  • پاکستان نے سعودی عرب کو افرادی قوت کی برآمد دوگنا کرنے کا منصوبہ بنا لیا
  • پاکستان اور آئی ایم ایف میں گڈ گورننس و کرپشن رپورٹ پر اختلاف برقرار
  • گورننس اینڈ کرپشن رپورٹ کے اجرا پر حکومت اور آئی ایم ایف میں اختلاف برقرار
  • بلوچستان ہائیکورٹ کا الیکشن کمیشن کو کوئٹہ میں جلد بلدیاتی انتخابات مکمل کرنے کا حکم
  • شفاف انتخابات کا انعقاد، کیا پورے ملک کے پتے اور شناختی کارڈ تبدیل ہونے جا رہے ہیں؟
  • لبریشن فرنٹ کی محمد یاسین ملک کے بارے میں الجزیرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کی مذمت
  • لبریشن فرنٹ کی محمد یاسین ملک کے بارے میں الجیریرہ میں شائع ہونے والی رپورٹ کی مذمت
  • پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں کمی، مسلسل معاشی بہتری دکھانے والا واحد ملک بن گیا، بلومبرگ