data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

گوگل نے پاکستانی طلبا کے لیے ایک شاندار تعلیمی پیشکش کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 18 سال یا اس سے زائد عمر کے طالبعلم اب گوگل اے آئی پرو پلان کی ایک سالہ مفت سبسکرپشن حاصل کر سکیں گے۔

یہ اقدام طلبا کو جدید مصنوعی ذہانت کے ٹولز تک رسائی فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم، تحقیق اور تخلیقی منصوبوں میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔

گوگل کے مطابق اس پلان کی عام فیس پاکستان میں 5600 روپے ماہانہ ہے، تاہم طالبعلموں کے لیے یہ سہولت بلا معاوضہ فراہم کی جا رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت طلبا کو گوگل کے جدید ترین جیمنائی 2.

5 ماڈل تک رسائی حاصل ہوگی، جس کے ذریعے وہ ڈیپ ریسرچ اور تحقیقی کام زیادہ مؤثر انداز میں انجام دے سکیں گے۔

جیمنائی اے آئی پرو پلان کے ذریعے گوگل کے مختلف ایپس جیسے جی میل، ڈاکس، شیٹس، سلائیڈز اور میٹ میں اے آئی کی براہِ راست سہولت شامل کر دی گئی ہے، جس سے ای میلز کا خلاصہ تیار کرنا، پریزنٹیشنز بنانا اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ نوٹ بک ایل ایم نامی فیچر بھی دستیاب ہوگا جو تحقیقی اور تحریری کام کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

اس منصوبے کے تحت طلبا کو دو ٹیرا بائٹس کلاؤڈ اسٹوریج بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی تعلیمی فائلیں اور پراجیکٹس محفوظ رکھ سکیں۔ گوگل کا کہنا ہے کہ یہ قدم اس کے عالمی مشن کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ دنیا بھر کے طلبا کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے تعلیمی ترقی کے مزید مواقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان سمیت ایشیا پیسفک خطے کے طلبا اب اس پروگرام کے اہل ہیں۔
یونیورسٹی کے طلبا ایک سال کے لیے مفت رسائی حاصل کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر سائن اپ کر سکتے ہیں:
???? https://one.google.com/intl/en/about/articles/google-ai-for-students

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: طلبا کو کے لیے اے آئی

پڑھیں:

کیا 28ویں ترمیم میں نئے صوبے بن سکیں گے؟

28 ویں ترمیم ممکن ہے اور اس پر بات چیت بھی چل رہی ہے۔ رانا ثناء اللہ اور فیصل واوڈا سمیت دیگر سیاسی قائدین اس بات کا اظہار کر رہے ہیں، جبکہ کچھ سینیئر صحافیوں کے مطابق 28 ویں ترمیم میں ممکنہ طور پر بلدیاتی نظام کی مضبوطی اور نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے بات کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:27ویں ترمیم طویل المدتی فوائد رکھتی ہے، وقت آگیا ہے کہ ملک 28ویں ترمیم کی جانب بھی پیش قدمی کرے، خواجہ آصف

21 نومبر کو ایم کیو ایم کی قیادت نے ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ وہ بلدیاتی نظام کی مضبوطی کے لئے جدوجہد تو کر ہی رہے ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ میں نئے صوبے کے قیام کے لئے بھی آواز اٹھائیں گے۔

ایم کیو ایم کے اس اعلان پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک بار پھر لفظی جنگ شروع ہو گئی ہے۔

28 ویں آئینی ترمیم پر بات کیسے شروع ہوئی؟

13 نومبر کو صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر دستخط کر کے اسے آئینِ پاکستان کا حصہ بنا دیا تو اسی وقت 28 ویں آئینی ترمیم کی باتیں شروع ہو گئیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فیصل واوڈا قومی اسمبلی سے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل مٹھائی کا ٹوکرا لے کر پارلیمنٹ پہنچ گئے اور کہا کہ ’27 ویں آئینی ترمیم کی مٹھائی کھائیں اور 28 ویں آئینی ترمیم کی تیاری کریں‘۔

یہ بھی پڑھیں:ملک میں عدالتی نظام انصاف پر مبنی نہیں، 27ویں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان

اسی طرح وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے 17 نومبر کو کہا کہ 28 ویں ترمیم پر بات چیت چل رہی ہے اور اگر اتفاقِ رائے پیدا ہو گیا تو پیش بھی کر دی جائے گی۔اس ترمیم میں عوامی مسائل جیسے بلدیاتی ادارے، بہبودِ آبادی، قومی مالیاتی کمیشن، صحت کا نظام اور صوبوں و مرکز کے درمیان تعلقات، ان امور پر بات چیت چل رہی ہے۔

کراچی اور حیدرآباد کو ملا کر ایک صوبہ بنانے کی بات وقتاً فوقتاً قومی بحث کا موضوع بنتی رہتی ہے اور حالیہ دنوں میں جب سے حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم نے اس پر بات چیت شروع کی ہے تو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں ایک ٹکراؤ نظر آتا ہے۔

نئے صوبوں پر بات ہو رہی ہے، احمد بلال محبوب

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے صدر اور معروف سیاسی تجزیہ نگار احمد بلال محبوب نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ نئے صوبوں کا معاملہ ایک دم سے سامنے نہیں آیا۔

28 ویں ترمیم کے اندر نئے صوبوں کے معاملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک ایسے وقت میں جب نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے کوئی تحریک موجود نہ ہو تو پارلیمنٹ میں اس بحث کا سامنے آنا ظاہر کرتا ہے کہ اس سلسلے میں کہیں نہ کہیں بات ضرور ہو رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے باقاعدہ تجاویز پر مشتمل مسودہ پیش کیا گیا اور صحافیوں کو بریفنگ بھی دی گئی، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کچھ محرکات موجود ہیں۔ مقتدر حلقوں میں نئے صوبے اور صدارتی نظام متعارف کرائے جانے پر بات چیت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی نہریں نکالنے کے معاملے پر ایک صوبے میں بہت بڑی تحریک چلائی گئی، حالانکہ اس صوبے کا پانی استعمال کرنا بھی مقصود نہیں تھا۔ زرعی خود کفالت کے لیے یہ قدم ضروری تھا، مگر صوبائی انتہاپسندی کی نذر ہو گیا۔ ممکن ہے کہ اب اسی انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے چھوٹے صوبوں کی بات ہو رہی ہو۔

یہ بھی پڑھیں:28ویں آئینی ترمیم پر مشاورت شروع، بیرسٹر عقیل ملک نے تفصیلات بتادیں

احمد بلال محبوب کے مطابق بلدیاتی نظام کی مضبوطی کا وعدہ وزیراعظم نے ایم کیو ایم سے کر رکھا ہے۔ این ایف سی کے مسائل بھی موجود ہیں۔ جس طرح 26 ویں ترمیم کی کچھ چیزیں 27 ویں ترمیم میں طے ہوئیں، اسی طرح 27 ویں کی کچھ باقی معاملات 28 ویں ترمیم میں طے ہو سکتے ہیں۔

اتفاقِ رائے کے بغیر نئے صوبے نہیں بن سکتے، طاہر خلیل

جنگ سے وابستہ سینیئر صحافی اور پارلیمانی رپورٹنگ کے ماہر طاہر خلیل کہتے ہیں کہ نئے صوبوں کے قیام پر بات چیت تو ہو رہی ہے لیکن اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی سندھ کی تقسیم پر کبھی راضی نہیں ہوگی۔

اگر پنجاب کو شمالی، وسطی اور جنوبی پنجاب میں تقسیم کرنے کی بات ہو تو بھی اتفاقِ رائے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخواہ میں ہزارہ صوبے کی بات بھی پرانی ہے۔

طاہر خلیل نے کہا کہ 28 ویں ترمیم کا اصل ہدف بلدیاتی نظام ہے، اور یہ بات زیر غور ہے کہ نئی ترمیم کے ذریعے یہ لازم کر دیا جائے کہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہوتے ہی 90 روز کے اندر انتخابات کروائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں لیکن پنجاب اور اسلام آباد میں ابھی تک نہیں ہوئے، جو ہونے چاہییں۔ ترمیم میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ صوبے وفاقی فنڈز کے لیے اپنا حصہ ادا کریں، جس کے لیے این ایف سی کے قواعد میں تبدیلی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:28ویں آئینی ترمیم کب آئےگی اور اس میں کیا تجاویز ہوں گی؟

ان کے مطابق درست راستہ یہ ہے کہ تمام معاملات پہلے مشترکہ مفادات کونسل میں رکھے جائیں، پھر پارلیمان میں کھلی بحث ہو، اور عوام کے سامنے مجوزہ ترامیم پیش کی جائیں۔

مزید یہ کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے—مثلاً صرف پنجاب کے 11 ڈویژن یعنی 11 صوبے—مگر اس کے لیے بہت بڑے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

28ویں ترمیم احمد بلال محبوب ایم کیو ایم بلال محبوب بلدیاتی نظام پیپلز پارٹی رانا ثنا طاپر خلیل فیصل واوڈا نئے صوبہ

متعلقہ مضامین

  • بچے ہمارا مستقبل ... ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!!
  • جعل سازی سے پاکستانی قومی شناختی کارڈ حاصل کرنیوالا بنگلہ دیشی شہری گرفتار
  • ٹیرف و سرمایہ کاری کے ذریعے دیگر ممالک سے کھربوں ڈالر حاصل کر رہے ہیں، ٹرمپ
  • افغانستان سے آنے والے ہر کنٹینر کی 100 فیصد جانچ کا فیصلہ
  • سپیشل برانچ کو علیحدہ یونٹ بنانے کی منظوری، تمام وسائل فراہم کریں گے: سہیل آفریدی
  • کیا 28ویں ترمیم میں نئے صوبے بن سکیں گے؟
  • پنجاب کے 13 حلقوں میں ضمنی الیکشن، 20 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات
  • پولینڈ کی خاتون پاکستانی نوجوان سے شادی کیلئے سرگودھا پہنچ گئی
  • آئی ایم ایف سے آئندہ بجٹ پر ٹیکس پالیسی، پبلک فنانس مینجمنٹ میں تبدیلی پر اتفاق
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا خطرناک، فیصلہ واپس لیا جائے: اسحاق ڈار